میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی: ڈگریوں سے ڈرگ لائسنس تک جعلسازی ہی جعلسازی

ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی: ڈگریوں سے ڈرگ لائسنس تک جعلسازی ہی جعلسازی

ویب ڈیسک
پیر, ۱۴ جنوری ۲۰۱۹

شیئر کریں

(رپورٹ : باسط علی ) محکمہ صحت میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے اندر جاری ناجائز دھندوں اور بدعنوانیوں کی بے شمار جہتیں ہیں، جن پر تفصیلات کا ایک دفتر درکار ہے۔ یہ بدعنوانیاں نیچے سے اوپر تک ہر منصب کے افراد کو ناجائز فائدہ پہنچا رہی ہے۔ مگر متوازی طور پر صوبے بالخصوص شہر قائد کو سنگین نوعیت کے مسائل سے دوچار کررہی ہیں۔ اس پورے کھیل کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو اس کے پس پشت عدنان رضوی سب سے بڑے پرزے کے طور پر کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔


طالبات کی ڈگریوں کی نقول سے جعلی ڈرگ لائسنس بنانے کے کھیل میں بھی عدنان رضوی کا نام آنے لگا، جناح یونیورسٹی برائے خواتین سے جامعہ کراچی تک مافیا کی جڑیں نکل آئیں


حکومت سندھ کے محکمۂ صحت کی جانب سے 26؍فروری 2005کو ایک نوٹیفکیشن(SOCI(II)REQ.RULE/2004)جاری ہوا، جس میں سندھ پبلک سروس کمیشن کی جانب سے 21؍دسمبر 2004کو جاری ہونے والے سفارشی خط(PSC/Sec-1/2004/354)کی بنیاد پر چھ کام یاب امیدواروں کو ڈرگ انسپکٹر (گریڈ 17) کے عہدے پر تقرر نامے جاری کیے گئے۔ اس نوٹیفکیشن میں سب سے پہلا نام ’ بریف کیس کھلاڑی ‘ سید عدنان رضوی ولد سید وارث حسین کا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عدنان رضوی نے اپنی تقرری سے پہلے ہی سفارش کروا کر ڈسٹرکٹ ٹھٹھہ کی صوبائی ڈرگ انسپکٹر فرزانہ میمن کو معطل کروا کے اپنا تقرر وہاں کروا لیا تھا، کیوں کہ ٹھٹھہ اس کے لیے سونے کی مرغی تھی اور گزشتہ رپورٹ میں ہم بیان کرچکے ہیں کہ ٹھٹھہ میں تین سال تعینات رہتے ہوئے اس نے صرف 8میڈیکل اسٹورز پر چھاپے مارے اور ان کے خلاف کیس بھی ڈرگ کورٹ میں ساڑھے چار سال بعد ریفرکیا۔


کراچی کے ضلع وسطی میں تعیناتی کے بعد عدنان رضوی نے گلی محلوں میں بھی کوئی میڈیکل اسٹورایسا نہیں چھوڑا جو اس کے ’دستِ شفقت ‘ کے نیچے نہ آیا ہو۔یہ دورڈسٹرکٹ سینٹرل میں نیو کراچی،گبول ٹاؤن اور ایف بی انڈسٹریل ایریامیں قائم جعلی اور غیر معیاری ادویات بنانے والی کمپنیوں کے لیے سنہرا دور تصور کیا جاتا ہے۔


لائسنس میں استعمال ہونے والی ڈگری کا عکس

عدنان رضوی نے کراچی پوسٹنگ کے بعد سب سے زیادہ کماؤ پوت سمجھے جانے والے ڈسٹرکٹ سینٹرل میں اپنا تبادلہ کروایا جہاں اس سے پہلے ایک اور ڈرگ انسپکٹر قلب حسین رضوی کام کررہے تھے۔ کراچی کے ضلع وسطی میں تعیناتی کے بعد عدنان رضوی نے گلی محلوں میں بھی کوئی میڈیکل اسٹور ایسا نہیں چھوڑا جو اس کے ’دستِ شفقت ‘ کے نیچے نہ آیا ہو۔ ڈسٹرکٹ سینٹرل میں اس کا دورنیو کراچی ، گبول ٹاؤن اور ایف بی انڈسٹریل ایریا میں قائم جعلی اور غیر معیاری ادویات بنانے والی کمپنیوں کے لیے سنہرا دور تصور کیا جاتا ہے، کیونکہ انہیں اس بریف کیس کھلاڑی کی مکمل سرپرستی حاصل تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پیسے کی ہوس میں مبتلا بریف کیس کھلاڑی نے اپنے دھندے کو مزید بڑھانے کے لیے مادر علمی جناح یونیورسٹی برائے خواتین کو بھی نہیں چھوڑا اور وہاں کے شعبہ فارمیسی کے ڈین ڈاکٹر غلام سرور کے ساتھ مل کر نیا کاروبار شروع کردیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر غلام سرور گزشتہ کئی سالوں سے پاس آؤٹ ہوجانے والی طالبات کی ڈگریوں کی فوٹو کاپیاں عدنان رضوی کو فراہم کر رہے ہیں ،عدنان رضوی ان طالبات کی ڈگریوں کو ڈرگ لائسنس بنانے میں استعمال کر رہا ہے ۔ اس ڈگری پر جاری ہونے والے لائسنس پر تصویر کسی دوسری لڑکی کی لگا دی جاتی ہے اور دستخط وہ خود یا کوئی اور کردیتا ہے۔ عدنان رضوی اس ’ خدمت ‘ کے عوض غلام سرور کی دوسرے ’معاملات‘ میں مدد کرتا ہے۔


بریف کیس کھلاڑی کے رنگین شوق
گانے بجانے سے شغف رکھنے والے ڈرگ ریگو لیٹری اتھارٹی کے ’بریف کیس کھلاڑی‘ کی ایک شناخت اور بھی ہے۔ موصوف کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری تقریب میں کسی ’ساتھی‘ کے بغیر شرکت نہیں کرتے ، یہاں تک کہ کسی اسٹور پر چھاپے کے دوران بھی کوئی نہ کوئی لڑکی ان کی گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر براجمان ہوتی ہے۔ اس کی زندہ مثال گزشتہ سال ایکسپو سینٹر کراچی میں ہونے والی فارما ایکسپو ہے جس میں موصوف نے نمائش کے منتظمین سے اپنی ’دوست ‘کو اپنے ساتھ اسٹیج پر بٹھانے پر ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا، تاہم منتظمین نے بریف کیس کھلاڑی کی اس فرمائش کو پورا کرنے سے یکسر انکار کردیا، جس سے تقریب میں بدمزگی بھی ہوئی اور عدنان رضوی ڈھکے چھپے الفاظ میں فارما کمپنیوں کو بدلہ لینے کی دھمکیاں ؤ بھی دیتے رہے، عدنان رضوی کی یہ رنگین مزاجی نمائش میں شامل غیر ملکی مندوبین کے سامنے جگ ہنسائی کا سبب بھی بنی۔


پروفیسر ڈاکٹر غلام سرور

ذرائع کے مطابق جناح یونیورسٹی کی طرح عدنان رضوی کی جامعہ کراچی اور جامعہ اُردو کے شعبہ فارمیسی میں کچھ لوگوں سے ’ تال میل ‘ ہے جو اسے پاس آؤٹ کرنے والی طالبات کی ڈگریوں کی فوٹو کاپی فراہم کر رہے ہیں اور یہ دھنداگزشتہ کئی سالوں سے جاری ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بریف کیس کھلاڑی کی پیسوں کی ہوس نے فارمیسی کی تعلیم حاصل کرنے والی ہزاروں لڑکیوں کا مستقبل

داؤ پر لگا دیا ہے۔ کیوں کہ اسی عدنان رضوی نے گزشتہ سال حیدر آباد میں ایک سپر اسٹور پر چھاپہ مارا اور لائسنس ہولڈر کوالیفائیڈ فارماسسٹ موجود نہ ہونے پر یہ کیس ڈرگ کورٹ میں بھیج دیا۔ اس سپر اسٹور کا لائسنس ایک لڑکی کے نام پر تھا ، جس پرعدالت نے اس لڑکی کو طلب کیا جو کہ خود اپنے نام پر جاری ہونے والے لائسنس سے لاعلم تھی اور اس پر دستخط بھی کسی اور کے تھے۔ یہ تمام ماجرا دیکھ کر عدالت نے متعلقہ اداروں سے اس جعل سازی کی مزید تحقیق کرنے کے احکامات دیے اور لڑکی کو اس جعل سازی سے بری الذمہ قرار دے دیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ خصوصا کراچی کی جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ فارمیسی سے پاس آؤٹ کرنے والی طالبات ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز کراچی کے دفتر میں لائسنس برانچ کے کمپیوٹر سیکشن میں اپنے قومی شناختی کارڈ اور سیٹ نمبر سے اس بات کی تصدیق کرائیں کہ آیا کہیں ان کے نمبر پر کوئی لائسنس تو جاری نہیں ہوا۔ تاکہ مستقبل میں انہیں کسی قانونی کارروائی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر کسی غیر جانب دار فریق سے صرف پچھلے دو سال میں پاس آؤٹ ہونے والی طالبات کی ڈگریوں کی تصدیق کرا لی جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی سامنے آجائے گا۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ دو سالہ لائسنس کے حصول کے لیے دی جانے والی والی ڈگری پر اس فارماسسٹ کو کم از کم 2 ہزا ر روپے ماہانہ دیے جاتے ہیں ، یعنی دوسال کے 48ہزار روپے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق جعل سازی کر کے اب تک چار سے پانچ ہز ار لائسنس بنوا ئے جاچکے ہیں ۔ اگر اس حساب سے دیکھا جائے تو عدنان رضوی معصوم طالبات کے حق پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے کروڑوں روپے کا غبن کر چکا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جناح یونیورسٹی کے شعبہ فارمیسی کے ڈین پروفیسر غلام سرور سے عدنان رضوی کے تعلقات اس وقت مستحکم ہوئے جب ڈاکٹر غلام سرور کو وفاقی وزارت ہیلتھ ، اسلام آباد میں ڈرگ رجسٹریشن بورڈ کا رکن بنایا گیا۔
عدنان رضوی کی 2008ء میں پوسٹنگ کراچی میں ہوگئی اور ڈاکٹر غلام سرور جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ فارمیسی میں پروفیسر کی حیثیت سے تعینات ہوئے۔ اور یہی سے ان دونوں نے ملی بھگت کرکے پاس آؤٹ ہونے والی طالبات کی ڈگریوں کو استعمال کرنا شروع کیا۔جب کہ شہر قائد میں اس کی سر پرستی میں چلنے والے غیر معیاری اور جعلی ادویہ ساز اداروں اور میڈیکل اسٹورز پر فروخت ہونے والی غیر معیاری اور جعلی فروخت پر ملنے والی رقم اس کے علاوہ ہے۔ بریف کیس کھلاڑی نے اپنے پیش روڈرگ انسپکٹر سید قلب حسین رضوی کے ساتھ مل کر کیسے اپنے ہی لوگوں کے مفاد کے لیے بننے والی ’پاکستان فارماسسٹ ایسوسی ایشن ‘ کے صدراور نائب صدر کے ہوتے ہوئے کیسے لاکھوں روپے کے اِدھر کے چیک اُدھر کیے۔ ڈرگ رجسٹریشن اتھارٹی کیوں بریف کیس کھلاڑی سے نالاں ہے؟ اور عدنان رضوی اینڈ کمپنی کے ’ آشیر باد ‘ سے شہر قائد میں فروخت ہونے والی کچھ ’امپورٹڈ‘ اور ’ غیر معیاری ‘ ادویات کی تفصیلات آئندہ شامل اشاعت کی جائے گی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں