میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بھارت میں مسلمانوں پر بڑھتے ہوئے ظلم و ستم

بھارت میں مسلمانوں پر بڑھتے ہوئے ظلم و ستم

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۳ دسمبر ۲۰۲۴

شیئر کریں

ریاض احمدچودھری

بھارت میں مسلمانوں پر بڑھتے ہوئے ظلم و ستم پرسترہ بااثر ریٹائرڈ سرکاری افسران، سفارت کاروں اور عوامی رہنمائوں نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ریٹائرڈ سرکاری افسران، سفارت کاروں اور عوامی شخصیات نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے نام لکھے گئے ایک خط میں مودی کی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد 2014سے اقلیتی برادریوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک اور تشدد میں واضح اضافے کو اجاگر کیا۔مودی کو لکھے گئے خط پر دستخط کرنے والوں میں دہلی کے سابق لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ، سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی اور منصوبہ بندی کمیشن کے سابق سیکرٹری این سی سکسینہ شامل ہیں۔ خط میں حالیہ برسوں میں ریاستی حکومتوں کے متعصبانہ کردارکو اجاگر کیاگیا۔ انہوں نے اقلیتوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور عدم تحفظ کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے ہجومی تشدد کے واقعات، اسلام دشمن نفرت انگیز تقاریر اور مسلمانوں کے گھروں اور کاروباروں پر حملوں کی نشاندہی کی۔ خط میں عدم برداشت کے ماحول کو فروغ دینے اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ میں ناکامی پر بعض ریاستی حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔خط میں کہاگیاکہ کچھ حکومتیں تشدد پر آنکھیں بند کر رہی ہیں جس سے فرقہ وارانہ کشیدگی میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
دستخط کنندگان نے دائیں بازو کے گروپوں کی طرف سے تاریخی مساجد اوراجمیر شریف سمیت صوفی درگاہوں کے سروے کے مطالبے جیسے واقعات پر تشویش کااظہارکیاگیا۔ ان اقدامات کا مقصد بھارت کی کثیرالثقافتی تاریخ کو دوبارہ لکھنا اور اس کے سیکولر اقدار کو مجروح کرنا ہے۔خط میں وزیر اعظم مودی پر زور دیا گیا کہ وہ تفرقہ انگیز بیان بازی اور تشدد کی عوامی طور پر مذمت کریں،یقینی بنائیں کہ ریاستی حکومتیں آئینی اقدار کو برقرار رکھیں گی ،بھارت کی سیکولر شناخت کو یقینی بنانے کے لیے ایک بین المذاہب مکالمے کا انعقاد کریں۔دستخط کنندگان نے خبردار کیا کہ موجودہ تقسیم بھارت کی ترقی اور خوشحالی میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔بھارت میں مسلمانوں کے لیے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں، جان،مال اور آبرو حملوں کی زد میں ہیں،مساجد کی بے حرمتی کے واقعات میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔آر ایس ایس اور ہندوتوا کی سوچ پر مبنی مودی حکومت کے زیر سایہ مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق مودی حکومت کی مسلمانوں سے نفرت کی ایک شرمناک مثال سامنے آئی ہے،جس میں مسلمان خواتین کو ایک ایپ پر نیلامی کے لیے پیش کر دیا گیا ہے۔ان خواتین میں شبانہ اعظمی، ملالہ سمیت نامور شخصیات شامل ہیں۔دْکھ کی بات یہ ہے کہ بھارتی پولیس نے متعدد شکایات کے باوجود کسی قسم کی کارروائی سے انکار کر دیا ہے۔ آن لائن نیلامی میں مقبوضہ کشمیر کی خاتون صحافی سمیت ایک لاپتہ طالب علم کی معمر والدہ کو بھی نہیں بخشا گیا۔یوں لگتا ہے کہ اِس وقت پورا بھارت آر ایس ایس کی فاشسٹ سوچ سے آلودہ ہو چکا ہے۔ مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے پولیس نہیں سنتی،نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ عدلیہ بھی مسلمانوں کو انصاف فراہم کرنے سے انکار کرتی نظر آتی ہے۔ اس وقت مسلمانوں کی جانب سے لاتعداد درخواستیں بھارتی سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں، لیکن ان مقدمات کو سنا ہی نہیں جا رہا۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی خود اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ انہوں نے بنگلہ دیش کے قیام اور پاکستان کو توڑنے میں کردار ادا کیا تھا۔ اسی طرح گجرات میں مسلمانوں کے سرعام قتل اور نسل کشی کا براہِ راست ذمہ دار انہیں قرار دیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ امریکہ نے ان کے اپنے ملک میں داخلے تک پر پابندی عائد کر دی تھی۔معروف اداکار نصیر الدین شاہ کے تازہ انٹرویو سے یہ بات سمجھنے میں قدرے آسانی ہو جاتی ہے کہ بھارت میں کس طرح ایک منصوبے کے تحت مسلمانوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔کیسے ان پر دھرتی تنگ کی جا رہی ہے۔مسلمان بہن بیٹیوں کی عزت محفوظ نہیں،ان کی تعلیمی اداروں، دفاتر اور بازاروں میں بے حرمتی کی جاتی ہے۔ بھارت میں رہنا ہے تو ”ہندوتوا” کہنا ہو گا۔ اب وہاں کے جنونیوں کا نعرہ ہے۔ بالی وڈ سٹارز شاہ رخ خان، عامر خان کئی بار انتہا پسند ہندوؤں کی نفرت کا شکار بن چکے ہیں۔ عامر خان نے تو بھارت چھوڑنے کی دھمکی تک دے ڈالی تھی، اخباری اطلاعات کے مطابق شدت پسند جنونی پورے بھارت میں دندناتے پھر رہے ہیں،انہیں پولیس کے علاوہ سیکیورٹی اداروں کی بھی پشت پناہی حاصل ہو جاتی ہے۔ساتھ مقبوضہ کشمیر کو جس طرح انسانی جیل میں تبدیل کیا گیا ہے وہ دنیا کے سامنے ہے۔چن چن کر مسلم نوجوانوں کو ماورائے عدالت مقابلوں میں قتل کیا جا رہا ہے۔نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا ہے۔
نئی دلی کی شاہی جامع مسجد کے امام سید احمد بخاری خطہ جمعہ کے دوران بھارت میں مسلمانوں کی حالت زار پر روپڑے اور کہا کہ ”وزیر اعظم مودی صاحب، بہت ہو گیا، جس کرسی پرآپ بیٹھے ہیں ، آپ انصاف کریں، مسلمانوں کے دل جیتیں، چھوٹے چھوٹے لوگ ملک کاماحول خراب کر رہے ہیں ، انہیں روکیے۔ ہم 1947میں جس حالت میں کھڑے تھے ،ہم آج بھی اس سے بھی بدتر صورتحال میں کھڑے ہیں، یہ ملک (بھارت )کس طرف جائے گا،کوئی نہیں جانتا”۔انہوںنے مسلمان نوجوانوں کوصبر کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو سنبھل ، اجمیر اور دیگر مقامات پر ہونے والے مساجد ، زیارت گاہوں کے سروے کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے ، یہ سب چیزیں بھارت کیلئے اچھی نہیں ہیں، میں صرف اتنا کہتا ہوں کی لمحوں نے خطا کی، صدیوں نے سزا پائی، آخر کب تک یہاں ایسے ہی چلتا رہے گا۔
یاد رہے کہ ریاست اتر پردیش کے ضلع سنبھل میں مقامی عدالت کے حکم پر مغل دور کی ایک جامع مسجد کے سروے کے دوران پولیس نے پر امن مسلمان مظاہرین پر فائرنگ کر دی تھی جس کے نتیجے میں چار افراد جان بحق ہوگئے تھے۔ ہندوانتہا پسندوں نے اجمیر میں واقع خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ کے بارے میں بھی دعوی کیا ہے کہ یہ ایک مندر پر تعمیرکی گئی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں