لاعلاج کینسر کی نئی تھراپی کا پہلا تجربہ کامیاب
شیئر کریں
برطانوی ڈاکٹروں نے لیوکیمیا کی ایک خاص قسم سے متاثرہ لڑکی پر بالکل نئی تھراپی کی پہلی مرتبہ آزمائش کی ہے جس میں غیرمعمولی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ 13 سالہ لڑکی ایلیسا کو 2021 میں ٹی سیل اکیوٹ لمفوبلاسٹک لیوکیمیا لاحق ہوا تھا جس پر روایتی طریقہ علاج سمیت کیموتھراپی اور ہڈیوں کے گودے (بون میرو) کی متنقلی بھی کی گئی لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ اب لندن کے گریٹ آرمنڈ اسٹریٹ ہسپتال برائے اطفال ( جی او ایس ایچ) نے لڑکی پر جینیاتی انجینیئرنگ سے گزارے گئے امنییاتی خلیات داخل کیے گئے ہیں جو ایک تندرست انسان سے لیے گئے تھے۔ صرف 28 روز بعد اس کے سرطان میں کمی واقع ہوئی جس کے بعد اس قدرتی دفاعی نظام کو مضبوط کرنے لیے بون میر منتقل کیا گیا۔ اب چھ ماہ بعد بھی وہ مکمل تندرست ہے اور اپنے گھر میں رہتی ہے۔ کبھی کبھار ایلسا کو معمول کے چیک اپ کے لیے ہسپتال لانا پڑتا ہے۔ یہ ایک تجرباتی علاج تھا جس کے لیے ایلیسا کے والدین سے اجازت لینا پڑی تاہم دنیا بھر کے ماہرین نے اسے ایک انقلابی طریقہ علاج قرار دیا ہے۔ تاہم مریضہ کی مزید کئی ماہ تک نگرانی کی جائے گی۔ اگرچہ اکیوٹ لمفوبلاسٹک لیوکیمیا (اے ایل ایل) بچوں میں عام ہے جو امنیاتی خلیات کو ناکام بناتا ہے تاہم ایلیسا پر کوئی دوا اثر نہیں کررہی تھی اور یہی وجہ ہے کہ اسے نئے طریقہ علاج سے گزارا گیا۔ ایلیسا پہلی مریض ہیں جنہیں تبدیل شدہ ٹی سیل لگائے گئے ہیں جو بدن میں جاکر خاص ہدایات کے تحت مخصوص پروٹین بناتے ہیں۔ اس طرح ٹی سیل سرطان کے خلیات پر دھاوا بول دیتے ہیں اور اطراف کے تندرست خلیات کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ سائنسدانوں کے مطابق اس علاج میں دنیا کی سب سے بہترین سیل (خلوی) ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے تاہم ایلیسا اب کئی ماہ تک ڈاکٹروں کے مشاہدے میں رہے گی۔