بلدیاتی قانون یا قبضے کی سازش
شیئر کریں
حنید لاکھانی
۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا بھر ترقی یافتہ معاشروں میں رائج جمہوری نظام کی بنیاد وہاں کا فعال ، مستحکم اور با اختیار بلدیاتی نظام ہوتا ہے جس کا تسلسل وہاں کے پارلیمانی یا صدارتی نظام کو مضبوط تر بنا کر معاشرے کو خوشحال بناتا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں 74سالوں میں اشرافیہ نے اپنے مفادات کی غرض سے مقامی حکومتوں کے نظام کو پنپنے ہی نہیں دیا۔
سندھ حکومت کی ٹال مٹول، عدلیہ کی مداخلت اور الیکشن کمیشن کے سخت رویے کے بعد سندھ حکومت بادل نخواستہ صوبے میں بلدیاتی الیکشن کیلئے بظاہر تیار دکھائی دے رہی ہے لیکن اس کے باوجود پیپلزپارٹی وسائل پر قبضے کی روش کو برقرار رکھنے کی سعی میں بھی مصروف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ حکومت نے بھرپورمخالفت کے باوجود 26؍نومبر کو سندھ اسمبلی میں اس بل کو کثرت رائے سے منظورکروالیا ہے۔اس بل کے مندراجات کو اگر ہم دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتاہے کہ یہ بل سراسر کراچی کے باقی ماندہ وسائل کو نوچنے کی ایک گھنائونی سازش ہے جس کے نفاذ سے کراچی مکمل طورپر مفلوج سا ہوتا ہوادکھائی دے رہاہے۔ہم ذرا اس بل میں کی گئی ترامیم کو اگر دیکھتے ہیں تواس میں سندھ کے نئے بلدیاتی نظام کے تحت کراچی میٹروپولیٹن کو آپریشن یا بلدیہ عظمیٰ کراچی سے شہر کے بڑے ہسپتالوں بشمول سوبھراج ہسپتال، عباسی شہید ہسپتال، سرفراز رفیقی ہسپتال ، لیپروسی سینٹر، اور میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کا انتظام واپس لیکر صوبائی حکومت کے زیر انتظام دے دیا گیاہے جبکہ پیدائشی اور اموات کے سرٹیفکیٹس جاری کرنے اور انفیکشیز ڈیزیز سمیت تعلیم اورصحت کے شعبوں پر لوکل گورنمنٹ کا اختیار ختم کر کے صوبائی حکومت کے زیر انتظام کردیا گیاہے۔
اس بل کے مندرجات پرمزید نظرڈالیں تو بلدیاتی حکومت ترمیمی بل 2021کے مطابق صوبائی دارالحکومت کراچی سمیت صوبے کے بڑے شہرجن میں حیدرآباد، سکھر لاڑکانہ، میر پورخاص، شہید بے نظیر آباد، میں کارپوریشنز لائی جارہی ہیں اور ان شہروں میں تحصیل کی بجائے ٹائون سسٹم اور یونین کونسل کی یونین کمیٹیاں ہو ں گی جبکہ یونین کمیٹیز کے وائس چیئرمینز ٹائون میونسپل کونسل کے رکن ہوں گے اور انہیں ٹائون میونسپل کونسل کے ارکان میں سے میئر اورڈپٹی میئر کا انتخاب ہوگا۔
ترمیمی بل کے مطابق میٹروپولیٹن کارپوریشن 50لاکھ آبادی والے شہر میں قائم کی جائیں گی، اور اس ٹا ؤن میونسپل کے ارکان کی مدت چار سال ہوگی ۔میئر کا انتخاب اوپن بیلٹ کے بجائے خفیہ ووٹنگ سے ہوگا، جس میں دیکھا جائے تو کراچی کے لیے مقامی حکومت کا نظام عوام کو با اختیار نہیں کرتا،سندھ حکومت کے نئے بلدیاتی نظام کے ذریعے کراچی کی عوام کو رہے سہے اختیارات سے بھی محرو م کردیا گیا ہے۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اسلام آباد میں صحت اور تعلیم اور ترقیاتی کام میئر چلائے گا اوردیگر شعبے بھی میئر کے ماتحت ہوں گے۔ کراچی میں ایسا نظام نہیں ہے تعلیم صحت اور دیگر کچھ نظام نہیں ہے اس کو مسترد کرتے ہیں ، مقامی نظام حکومت کے اوپر دھوکہ ہونے جارہا ہے۔ اس قانون کے تحت کراچی میں ٹائون کی بحالی کا فیصلہ ہوا اور اس فیصلے کے تحت بلدیہ کراچی سے صحت ، تعلیم کے فرائض واپس لیے گئے حتیٰ کہ پیدائش ، شادی اور اموات کی رجسٹریشن کرنے کا بلدیاتی فریضہ اب سندھ حکومت نے خودانجام دینے کا فیصلہ کیا ہے تاہم ماضی کی طرح میئر کا انتخاب خفیہ رائے دہی سے ہوگا۔
7صفحات پر مشتمل اس قانون کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت ٹا ؤن کی بحالی پر تیار ہوگئی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں مسلسل سوچ بچا ر کے بعد جو قانون نافذ کیا گیا تھا اس کے تحت 7میونسپل کارپوریشن کی تقسیم ہے۔ جنوبی مشرقی، مغربی، ملیر، کورنگی اور کیماڑی سینٹرل میونسپل کارپوریشن کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ سندھ حکومت کے قانون کے مطابق کراچی میں اس قانون کے تحت تمام بڑے اسپتالوں کو حکومت سندھ کی تحویل میں دیا جائیگا، جن میں کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج، عباسی شہید ہسپتال، سوبھراج میٹرنٹی ہسپتال اور 20سے25ٹائون قائم ہوجائیں گے۔قانون کے تحت ہر ڈسٹرکٹ میں گریڈ 1سے 15اسامیوں پر اسی ڈسٹرکٹ کے شہریوں کو ملازمتیں مل سکتی ہیں مگر اب یہ قانو ن صرف فائلوں میں چھپا ہوا نظر آئیگا، کراچی وہ اہم شہر ہے کراچی کی ترقی میں سارے پاکستان کی ترقی ہے، تاہم تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں 80کی دہائی میں پیدا ہونے والے مسائل نے پورے ملک کو متاثر کیا تھا۔
دلچسپ بات تویہ ہے کہ گورنر سندھ عمران اسماعیل نے سندھ حکومت کے اس قانون پر دستخط کرنے سے انکار کردیا ہے اور حکومت کو ترمیم کی ہدایات کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کراچی ملک خداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ریڈھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتاہے،کراچی اور دبئی کا موازنہ کیا جائے تو یہ دونوں شہر اپنے محل وقو ع یا ڈیزائن کے لحاظ سے ایک جیسے نظر آتے ہیں دبئی میں بھی ساحل سمندر واقع ہے اور کراچی میں بھی جس کی وجہ سے یہ دونوں شہر بین الاقوامی دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ،مگراس وقت دبئی ترقی علم اور ٹیکنالوجی کے معاملے میں کراچی سے کہیں آگے جاچکا ہے،افسوس کہ یہ سب کچھ جانتے ہوئے کہ اگر چار ہزار ارب میں سے چار سو ارب بھی لگ جائیں تو یہ شہر بدلے میں چالیس ہزارارب کماکردیگا۔
آج کے دور میں دبئی دنیا کے امیر ترین شہروں میں شمار ہوتاہے ،لیکن اگر دیکھا جائے تو1990سے پہلے دبئی ایک ویران سا منظر پیش کرتاتھا، مگر دبئی کے باسیوں اور وہاں کی قیادت اس ویرانی کو ختم کرنے اورآگے بڑھنے کی ٹھان لی ،اور پھرہم دیکھا کہ اس جذبے کو کوئی نہیں روک پایا جس کا یہ نتیجہ نکلا کہ آج دبئی میں بلند وبالا عمارتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں ، ہم کراچی کی بات کریں تو کراچی میں اس کے برعکس نظر آتا ہے ماضی میں کراچی واقعی روشنیوں کا شہر ہواکرتاتھا۔حتی ٰ کہ دور دور سے لوگ اس شہر کو دیکھنے آتے اور یہاں قیام کے لیے رکتے۔ سیرو تفریح کرنے صدر برنس روڈ، ایمپریس مارکیٹ اور فریئر ہال غیرملکیوں کے لیے دلچسپی سے بھرپور مقامات ہواکرتے تھے۔ صفائی ستھرائی کراچی کی اصل پہچان ہواکرتی تھی،مگر آج کراچی کچرے کا ڈھیر بن چکاہے اس کی روشنیاں مانند پڑ چکی ہیں ،کراچی کا حسن بگاڑنے میں جہاں سیاسی جماعتوں کا سب سے بڑا کردار رہاہے، وہاں پر یہاں کے متعلقہ ادارے اور ان کے افسران نے بھی بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے ہیں۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں شہر قائد میں رفاہی پلاٹوں پر قبضے اور غیرقانونی الاٹمنٹ کیس کی سماعت ہوئی تو شہر قائد میں 35ہزار پلاٹوں کی چائنا کٹنگ کا انکشاف ہوا ،یعنی اندازہ لگائیں کہ کس بے دردی سے اسے لوٹا گیا ہوگا، کراچی کے تمام اہم اداروں پر سندھ حکومت نے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ کراچی کے ڈومیسائل پر بیرون کراچی کے افراد کی بھرتیاں کر کے کراچی کے نوجوانوں کے حق پر ڈاکا ڈالاگیا اور نفرت کی سیاست کو پروان چڑھایا گیا، کراچی ٹریفک پولیس میں چالیس ہزار اہلکاروں کو بھرتی کیا گیا اور ایک بھی فرد کراچی کا نہیں تھا۔
کراچی کے عوام پانی کی بوند بوند کوترس رہے ہیں ، سیوریج کا پورا نظام ناکارہ اور بوسیدہ ہوچکا ہے، بلدیہ کراچی سے سولڈ ویسٹ کا محکمہ بھی لے لیا گیا ہے اور سندھ سولڈ ویسٹ کا نام دیکر اس کے وسائل پر قبضہ کر لیا گیا ہے ،کراچی کے نام پر خرچہ پورا ملتاہے لیکن کچرا روز بروز بڑھتا ہی جارہا ہے،کراچی میں فراہمی آب پر مافیا کا قبضہ ہے اور ٹینکر مافیا کی ملی بھگت سے کراچی کو کربلا بنا دیا گیا ہے۔ اس شہر کا اگر ماضی بڑا شاندار تھا تو حال بڑا ہی بد حال سابن چکا ہے اور یہ ہی تسلسل رہاتو مستقبل اس سے بھی زیادہ خوفناک نظر آرہا ہے،دعا ہے کہ اللہ پاک اس شہر قائدپر اپنا خصوصی کرم فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔