میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نہیں میاں صاحب نہیں ۔۔۔!

نہیں میاں صاحب نہیں ۔۔۔!

منتظم
منگل, ۱۳ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

bukhari-1

اسرار بخاری
میری خوش گمانی میں قدرے ہل چل ضرور مچی مگر مکمل طور پر ضعف کی شکار نہیں ہوئی۔ ایوان اقتدار کی غلام گردشوں میں گونجتی چہ میگوئیاں جو ”ذرائع “کے پروں پر سوار ہوکر چاروں جانب اپنا رنگ بکھیر رہی ہیں ،مگر کیا واقعی ایسا ہوسکتا ہے کا سوال بھی ذہنوں میں کلبلارہا ہے ۔یہ محض غلط فہمی بھی ہوسکتی ہے اور میاں نوازشریف کے خلاف سوچا سمجھا سازشی پروپیگنڈا بھی ۔ ہاں یہ امکان بھی اپنی چھب دکھا رہا ہے کہ کسی بزرجمہر نے یہ راہ دکھائی کہ اس سے جنم لینے والی بحث و تکرار پاناما کیس سے توجہ ہٹانے کا ذریعہ بن سکتی ہے ،مگر اس سوچ میں زیادہ پختگی نہیں ہے دسمبر کے دو ڈھائی اور جنوری کے ہفتے بعد یہ معاملہ عدالت ، پریس کانفرنسوں ، پرنٹ ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر اٹھنا ہی ہے ۔ اس لیے یہ زیادہ قرین قیاس نہیں ہے ۔یہ خبریں یا افواہیں کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی آئینی ترمیم ختم کرنے کی تیاریاں جاری ہیں ۔ وزیراعظم نوازشریف کی عوامی اور مذہبی حلقوںمیں پوزیشن خراب کرنے کی منصوبہ بندی بھی ہوسکتی ہے ۔ شریف خاندان مذہبی رجحان رکھتا ہے اور محبت رسول کا دل کی گہرائیوں سے اسیر ہے ۔اس خاندان کا میاں نوازشریف نامی فرد ختم بنوت سے انحراف کرے، یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا ، اس کی روشن دلیل رمضان المبارک کاآخری عشرہ روضہ رسول کے قرب میں گزارنے کے ساتھ ساتھ بیگم کلثوم نواز کے وہ ایمان افروز خطاب بھی ہیں کہ مشرف دور میں اپنی سیاسی جدوجہد کے دوران انہوں نے ماڈل ٹاو¿ن لاہور میں ہرہفتہ منعقد ہونے والی مجلس پاکستان میں کیے ، ان خطابات کے کچھ اقتباسات حسب ذیل ہیں ۔
”جو لوگ قادیانی انقلاب (مشرف حکومت ) سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت کا حصہ بنے ہوئے ہیں میں تمام مکاتب فکر کے علماءصاحبان کے تعاون سے ان تمام لوگوں کو بے نقاب کروں گی ،اب بحیثیت مسلمان تمام علمائے کرام کا فرض ہے کہ وہ نظریہ پاکستان اور تحفظ ختم نبوت کے لئے 1953 ءکی طرح متحد ہوکر اللہ کے ہاں سرخرو ہوں “
”میں بقول عطاءاللہ شاہ بخاری ان سے پوچھ رہی ہوں کہ محشر کا میدان ہوگا اللہ کے حضور حاضری ہوگی اور ہم حضور اقدس کی شفاعت کے منتظر ہونگے اگر وہاں پوچھ لیا گیا کہ خطہ پاکستان کے مسلمانوں تم نے میری رضا کے لیے کیا کام کیے اور جب میرے محبوب کی ختم نبوت پر ڈاکے ڈالے گئے تو تم نے کیا قربانیاں دیں “
”انگریز نے کہیں مساجد اور تبلیغی مراکز کو کمزور کیا ،کہیں علما ئے کرام کی توہین و تذلیل کی اور آخری حربے کے طور پر ہندوستان کے گاو¿ں قادیان میں اس نے اپنے وظیفہ خوار ایک شخص مرزا غلام احمد سے جھوٹی نبوت کا دعویٰ بھی کروادیا ۔ انگریز کا یہ خودکاشتہ پودا جو وقت کے اولیاءاور علماءکے سامنے کئی دفعہ میدان سے بھاگا ۔مولانا ثنا اللہ امرتسری نے اس جھوٹے بنی کو کئی مقامات پر جھوٹا ثابت کیا ۔ حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب کے سامنے کئی مرتبہ مباہلہ میں شکست کے خوف سے راہ فرار اختیار کی۔ دکھ اور افسوس یہ ہے کہ آج اسی خارجی دین کی وظیفہ خوار این جی اوز کے لوگ بارہ اکتوبر 1999 ءکے قادیانی انقلاب کے نتیجے میں بننے والی حکومت کے وزیر بنے ہوئے ہیں ۔ آج قادیانی ملک کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں ،میں آج سرفروشان اسلام کی دھرتی صوبہ سرحد میں کھڑی ہوکر یہ اعلان کرتی ہوں کہ اب گھر گھر میں غازی علم دین شہید پیدا کرنے ہونگے ۔“
بیگم صاحبہ کے ان ایمان افروز خیالات کی روشنی میں یہ کیسے ممکن ہے کہ اگر بالفرض میاں نوازشریف قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی آئینی ترمیم ختم کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کریں گے تو پاکستان کے عوام سے بہت پہلے انہیں خود گھر کے اندر سے شدید مزاحمت کا سامان نہیں کرنا پڑے گا اس خاندان کی قادیانیوں سے بیزاری کا عالم یہ ہے کہ ایک مرتبہ میرے ہاتھ میں ایک کتاب جو شیزان کے شاپنگ بیگ میں لپٹی ہوئی تھی کیپٹن صفدرنے اسے میرے ہاتھ سے چھین کر کتاب نکالی اور شاپنگ بیگ ڈسٹ بین میں یہ کہتے ہوئے پھینک دیا” بخاری صاحب آپ کو تو یہ نہیں لینا چاہیے تھا۔ “
ایک مرتبہ گپ شپ کے درمیان جب مریم نواز کا چار پانچ سال کا بیٹا جنید صفدر ساتھ بیٹھا ہوا تھا مریم نے مجھ سے کہا ”میری بہت خواہش ہے کہ میرا یہ بیٹا دنیا کے ساتھ ساتھ دین میں بھی ترقی کرے ہم نے اسی لیے حضرت جنید بغدادی کے نام پر اس کا نام جنید رکھا ہے آپ بھی دعا کریں “
یہی میری خوش گمانی کی بنیاد ہے کہ ایسا دینی رجحان رکھنے والے خاندان کے فرد کی حیثیت سے میاں نوازشریف کوئی ایسا قدم کیسے اٹھا سکتے ہیں جو اللہ سبحان تعالیٰ کی ناراضی اور عوام کی نا خوشی کا باعث ہو۔ ویسے اس کے جواب میں یہ دلیل بہت وزنی ہے کہ جو اللہ اور رسول سے جنگ کے مترادف ’سود ‘ کو برقرار رکھ سکتے ہیں، ان سے کچھ بعید نہیں مگر اس میں بچت کا ایک پہلو شاید یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی نظام کی جکڑ بندیوں کے باعث یہ حکومتی مجبوری ہو کیونکہ عالمی بینک ،آئی ایم ایف اور ایشیائی ترقیاتی بینک جیسے عالمی اداروں سے قرض سود کے بغیر نہیں مل سکتا اور پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک کے لیے ان قرضوں کا حصول ناگزیر ضرورت ہے ۔ شاید میاں نوازشریف کی پہلی دو حکومتوں کے بعد بننے والی حکومتوں نے بھی اسی مجبوری کی خاطر اسے برقرار رکھا ہو، تاہم اس خیال آرائی کو اس ناچیز کی جانب سے سود کی حمایت سے تعبیر نہ کیا جائے ۔
میں نے گزشتہ کالم میں واضح کیا تھا کہ پاکستانی شہریوں کی حیثیت سے قادیانیوں کو اس ملک میں رہنے ، کاروبار یا ملازمتیں کرنے ، ترقی اور دیگر تمام ان جائز اور قانونی سرگرمیوں بشمول اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کرنے کا اسی طرح پورا حق حاصل ہے جس طرح کے حقوق پاکستانی عیسائیوں ، ہندوو¿ں اور سکھوں وغیرہ کو حاصل ہیں ۔ ہاں البتہ وہ انہی کی طرح پاکستانی آئین اور اپنے عقیدے کے لحاظ سے اپنی اقلیتی حیثیت کو تسلیم کرنے کا اعلان کریں ،پھر ایک شعبہ ہی نہیں پوری یونیورسٹی کو ڈاکٹر عبدالسلام کے نام سے موسوم کردیا جائے۔ کم ازکم مجھے بلکہ پاکستان کے مسلمانوں کی بڑی اکثریت کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔ جس طرح لاہورمیں جیل روڈ کے ایک انڈرپاس کو جسٹس کارنیلئس کے نام سے موسوم کرنے پر کسی ایک فرد نے اعتراض نہیں کیا ۔لیکن خدانخواستہ اگر متذکرہ بالا خبروں یا افواہوں میں کوئی حقیقت ہے تو میاں نوازشریف سے یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ ”نہیں میاں صاحب نہیں “ ایسا قدم نہ اٹھائیں جو ان کی سیاسی ہی نہیں بلکہ دینی وابستگی کے لیے بھی سوالیہ نشان بن جائے ۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں