میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
67/الفاظ نے نقشہ بدل دیا

67/الفاظ نے نقشہ بدل دیا

ویب ڈیسک
پیر, ۱۳ نومبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

سمیع اللہ ملک
حقیقتاًاسرائیل اورحماس کے درمیان جنگی طاقت کاکوئی مقابلہ ہی نہیں ہے کیونکہ اسرائیل جدیدترین خطرناک اسلحے سے لیس جبکہ حماس تقریباًنہتے لیکن بھرپور جذبہ شہادت کی ایک مرتبہ پھرناقابل یقین مثال کے ساتھ میدان میں موجودہے۔7اکتوبرسے شروع جنگ تادم تحریرابھی تک جاری ہے۔اس سے حماس کے جذبہ شہادت اورپختہ عزم کی برتری ظاہرہوتی ہے اوراس چیز کابھی اظہارہوتاہے کہ فتح اورکامیابی حاصل کرنے کیلئے قربانیاں دیناناگزیرہے۔جنگ کے نتیجے میں دونوں طرف ہونے والی ہلاکتوں کے تناسب میں بھی زمین آسمان کافرق ہے۔
اسرائیل اورحماس کے درمیان جاری اسرائیلی جارحیت کے دوران اب تک تقریبا1400اسرائیلی اورغیرملکی ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ غزہ میں شہداء کی تعداد9700سے تجاوزکر چکی ہے جن میں 4ہزاربچے جن کی لاشوں کے ٹکڑے اٹھانے کیلئے صرف ان کے نحیف ونزارضعیف بزرگ باقی بچے ہیں۔2500سے زائدخواتین ہیں اور زخمیوں کی تعداد26ہزارسے زائدہوچکی ہے جن کے علاج معالجہ کیلئے ادویات ختم ہوچکی ہے اوربجلی منقطع ہونے کی وجہ سے1600سے زائد بچوں کی انکیوبیٹرمیں ہلاکت کوکوئی معجزہ ہی بچاسکتاہے۔ایک اندازے کے مطابق نامعلوم ہزاروں کی تعدادمیں ملبے میں دبے ہوئے ہیں جن کے بچنے کی اب کوئی امیدباقی نہیں۔ادھراسرائیلی درندگی کی وجہ سے جیالہ کیمپ میں پانی کے سب سے بڑے ذخیرے کوبھی تباہ کردیاگیاہے۔اسرائیل کی اندھادھندبمباری کے نتیجے میں غزہ میں بڑے پیمانے پرجوتباہی ہوئی ہے اوراملاک کاجونقصان ہواہے،اس کاتواب تک اندازہ نہیں لگایاجاسکا۔تاہم اب بھی اسرائیلی بمباری کامنہ بولتاثبوت سیکڑوں رہائشی عمارتیں، اسکول،اسپتال اورپناہ گزیں کیمپس آج بھی کھنڈرات کی شکل میں مغرب اورامریکاکے انسانی حقوق کے چہرے پرایک بدنماداغ بنے نوحہ کناں ہیں۔
22لاکھ افرادکاگھر،غزہ کی پٹی ایک گنجان آبادانکلیوہے،25 میل لمبااور6کلومیل چوڑا،ایک طرف بحیرہ روم سے گھراہواہے اوراس کی سرحدوں پراسرائیل اورمصرسے باڑلگی ہوئی ہے۔ غزہ کے فلسطینی باشندوں کی اکثریت مسلمان ہے، حالانکہ وہاں ایک چھوٹی سی عیسائی اقلیت بھی ہے۔غزہ کی آبادی بہت کم عمرہے،جس میں تقریبا75%کی عمر 25 سال سے کم ہے۔شہراس وقت14رکنی میونسپل کونسل کے زیرانتظام ہے۔
اسرائیل حماس حالیہ جنگ کے نتیجے میں اہل فلسطین کوبہت سے فائدے حاصل ہوئے ہیں۔عالمی تجزیہ نگاراب بھی اورآئندہ کافی دنوں تک ان کا تجزیہ کرتے رہیں گے۔مثال کے طورپراپنوں ہی کی بے وفائی سے قضیہ فلسطین پسِ پشت چلاگیاتھا،اس جنگ کے نتیجے میں وہ پھرابھرگیاہے۔عالمی سطح پرفلسطین کے حمایتی ممالک میں اضافہ ہواہے۔تمام ممالک میں اسرائیل کے خلاف اورفلسطین کی حمایت میں زبردست مظاہرے ہوئے ہیں۔اسرائیل اپنی درندگی،حیوانیت اوردہشتگردی کے سبب اقوامِ عالم میں مبغوض ٹھہراہے اور اس کے خلاف بین الاقوامی نفرت میں اضافہ ہواہے۔اس کی ڈپلومیسی پوری دنیامیں کمزورہوئی ہے۔ اسرائیل کوناقابلِ تسخیرسمجھے جانے کامفروضہ غلط ٹھہرا،اورحماس کوایک قابلِ لحاظ طاقت تسلیم کیاگیاہے۔اسرائیل کی اقتصادیات پرکاری ضرب لگی ہے،اس لیے کہ حماس کے راکٹوں کوروکنے کیلئے اسرائیل کے آئرن ڈومس سے فائرکیے جانے والے راکٹس کی قیمت کااندازہ کروڑوں ڈالرمیں لگایاگیاہے جبکہ حماس کے تباہی پھیلانے والے خودساختہ راکٹ انتہائی غیر معمولی قیمت سے تیارکئے گئے تھے۔اس طرح متعددپہلوؤں سے اہل فلسطین کواسرائیل پرسیاسی،عسکری اورنفسیاتی برتری حاصل ہوئی ہے۔
حالیہ جنگ نے یہودکے بارے میں قرآن کریم کے اس بیان کی تصدیق کردی ہے کہ وہ زندگی کے بڑے حریص اورموت سے بہت زیادہ خوف زدہ رہنے والے ہیں۔قرآن کریم میں یوں نقشہ کھینچاگیاہے:اِن سے کہو:اگرواقعی اللہ کے نزدیک آخرت کاگھرتمام انسانوں کوچھوڑکرصرف تمہارے ہی لیے مخصوص ہے،تب توتمہیں چاہیے کہ موت کی تمناکرو، اگر تم اس خیال میں سچے ہو۔ یقین جانو کہ یہ کبھی اس کی تمنا نہ کریں گے،اس لیے کہ اپنے ہاتھوں جوکچھ کماکرانہوں نے وہاں بھیجاہے،اس کاتقاضا یہی ہے(کہ یہ وہاں جانے کی تمنا نہ کریں)اللہ ان ظالموں کے حال سے خوب واقف ہے۔تم انہیں سب سے بڑھ کرجینے کاحریص پاگے،حتی کہ یہ اس معاملے میں مشرکوں سے بھی بڑھے ہوئے ہیں۔ان میں سے ایک ایک شخص یہ چاہتاہے کہ کسی طرح ہزاربرس جیے،حالانکہ لمبی عمربہرحال اسے عذاب سے تودورنہیں پھینک سکتی۔جیسے کچھ اعمال یہ کررہے ہیں،اللہ توانہیں دیکھ ہی رہاہے۔ (البقر:94۔ 96)
چنانچہ حماس کی طرف سے جیسے ہی راکٹ داغے جاتے ہیں،پورے اسرائیل میں سائرن بج اٹھتے ہیں اوریہود آبادی کی غالب اکثریت بنکروں میں جاچھپتی ہے۔روزروزکی اس صورتحال سے اسرائیلیوں پرکتنے گہرے منفی نفسیاتی اثرات پڑے ہیں،اس کا بخوبی اندازہ ایک امریکی ماہرنفسیات کی اس رپورٹ سے لگایاجاسکتاہے کہ اس جنگ کے بعدکئی افریقااوردیگرممالک سے آئے ہوئے یہودیوں نے اسرائیل کوچھوڑ کردوبارہ واپسی کارخت سفرباندھ لیاہے اوردرجنوں کی تعدادمیں یہودی اب واپس اپنے ان گھروں کوجانے کیلئے تیارنہیں جن کے گردوپیش میں حماس کی طرف سے راکٹ برسائے گئے تھے جبکہ اسرائیل کے بموں سے غزہ کی کوئی رہائشی عمارت زمیں بوس ہوتی ہے تواس کے مکین ملبے پر بیٹھ کراللہ اکبرکانعرہ بلندکرتے اورفتح کا نشان بناتے دکھائی دیتے ہیں اوراب دوبارہ اپنے گھروں کے ملبے کی صفائی کے بعدان کورہائش کے قابل بنانے کیلئے میدان عمل میں موجود ہیں۔
عصرحاضرمیںوطنیت کی بنیادیں اتنی گہری کردی گئی ہیں کہ دنیابھرکے مسلمانوں نے اپنے فلسطینی بھائیوں کی کچھ مددکرنی چاہی توبھی نہیں کرسکے۔اس موقع پرانہوں نے ان کے حق میں دعائیں کی ہیں اورزبان وقلم اورسوشل میڈیاکے ذریعے ان کے حق میں آوازبلند کی
ہے۔مسلم ممالک بہت کچھ کرسکتے تھے،لیکن وہ بھی اپنے اقتدارکومحفوظ رکھنے کیلئے مذمتی قرار دادوں سے آگے نہیں بڑھ سکے لیکن غزہ کے مجاہدوں نے اپنے خون کانذرانہ پیش کرکے امت کی لاج رکھ لی ہے۔اللہ ان کی قربانیوں کوقبول فرمائے۔ان کی جدوجہدسے ثابت ہوگیا کہ فتح وکامرانی صرف زبانی جمع خرچ سے نہیں حاصل ہوسکتی،بلکہ اس کیلئے قربانیاں ناگزیرہیں۔اللہ تعالی کاارشادہے:اے لوگوجوایمان لائے ہو!کیامیں بتاؤں تم کو وہ تجارت جوتمہیں عذابِ الیم سے بچادے؟ ایمان لااللہ اوراس کے رسولۖپراورجہادکرواللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اوراپنی جانوں سے۔ یہی تمہارے لیے بہترہے اگرتم جانو۔اللہ تمہارے گناہ معاف کردے گااورتم کوایسے باغوں میں داخل کرے گاجن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اورابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھرتمہیں عطافرمائے گا۔یہ ہے بڑی کامیابی۔اوروہ دوسری چیزجوتم چاہتے ہووہ بھی تمہیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اورقریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح۔اے نبیۖ!اہل ایمان کواِس کی بشارت دے دو۔(الصف:10۔13)
ایک سادہ کاغذپرلکھے67/الفاظ نے مشرق وسطیٰ میں ایک ایسے تنازع کاآغازکیاجواب تک حل نہیں ہوسکا۔بالفوراعلامیہ کو106 سال بیت چکے ہیں۔یہ ایک ایسی دستاویزتھی جس نے اسرائیل کوجنم دیااورمشرق وسطی کی تاریخ کوہمیشہ کیلئے بدل دیا۔2نومبر 1917 کو پہلی عالمی جنگ کے دوران لکھی جانے والی اس تحریرمیں پہلی باربرطانوی حکومت نے فلسطین میں یہودیوں کیلئے ایک ریاست کے قیام کی حمایت کی تھی۔یہ وہ وقت تھاجب سلطنت عثمانیہ کوشکست دینے کے بعد فلسطین پربرطانیہ کنٹرول حاصل کرچکاتھا۔عرب اس دستاویز کو ”برطانوی دغا” سمجھتے ہیں کیوںکہ سلطنت عثمانیہ کوشکست دینے میں انہوں نے برطانیہ کاساتھ دیاتھا۔ بالفوراعلامیہ کے بعدتقریباایک لاکھ یہودی فلسطین پہنچے تھے۔یہ اعلامیہ اس وقت کے برطانوی سیکریٹری خارجہ آرتھربالفورنے بیرن لیونیل والٹرروتھس چائلڈکوبھجوایاتھاجوبرطانیہ میں یہودی کمیونٹی کے ایک رہنماتھے۔اس اعلامیہ میں لارڈ روتھس چائلڈکومخاطب کرتے ہوئے لکھا گیا: برطانوی حکومت کی جانب سے میں آپ کو صیہونی یہودیوں کی حمایت میں یہ بیان بھجوارہاہوں جوکابینہ کے سامنے رکھا گیا اوراس کی منظوری دی گئی۔برطانوی حکومت فلسطین میں یہودیوں کیلئے ایک ریاست کے قیام کومثبت نظرسے دیکھتی ہے اور اس مقصدکے حصول کیلئے اپنی پوری کوشش کرے گی۔ تاہم یہ واضح رہے کہ فلسطین کی موجودہ آبادی کے سول اورمذہبی حقوق کے خلاف کوئی اقدام نہیں ہوگااورنہ ہی کسی اورملک میں یہودیوں کے حقوق اورسیاسی سٹیٹس متاثرہوگا۔میں آپ کاشکرگزارہوں گااگرآپ اس اعلامیے کوصیہونی فیڈریشن کے علم میں لائیں۔آرتھرجیمزبالفور اس اعلامیے کانام بھی برطانوی سیکریٹری خارجہ آرتھرجیمزبالفورکے نام پررکھاگیا۔سکاٹش خاندان سے تعلق رکھنے والے آرتھرجیمز1902سے1905 تک برطانیہ کے وزیر اعظم بھی رہے اورانہوں نے ملک کی خارجہ پالیسی میں اہم خدمات سرانجام دیں۔آرتھرجیمزبالفورکاخیال تھا کہ برطانوی حکومت کو”صیہونی ایجنڈا”کی مکمل حمایت کرنی چاہیے۔ یہ ایک سیاسی تحریک تھی جس نے19ویں صدی کے اختتام پریورپ میں زورپکڑلیاتھااورفلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام کامطالبہ کررہی تھی۔ آرتھر جیمزبالفورکواس بات کا سہرادیاجاتاہے کہ انہوں نے ہی برطانوی کابینہ کواعلامیے کی حمایت پرراضی کیا۔برطانیہ میں یہودی کمیونٹی کے بااثر رہنما لیونیل والٹرروتھس چائلڈاورچائم ویزمین نے ان کی بھرپورمددکی۔چندلوگوں کاخیال ہے کہ آرتھرجیمزبالفورنے یہودیوں کی حمایت سیاسی فوائد کیلئے کی تھی۔
لیونیل روتھس چائلڈایک طاقتوربنکاری خاندان کے سربراہ تھااوریہودی کمیونٹی کابااثررہنمابھی تھا۔یہ امیراورطاقتورخاندان فلسطین میں یہودیوں کی ریاست کے قیام کیلئے سرمایہ کاری کاسب سے بڑاذریعہ تھا۔اسی خاندان کے ایک اوررکن،ایڈمنڈروتھس چائلڈنے فلسطین میں بڑی تعدادمیں زمین خریدی اور19ویں صدی کے اختتام تک یہودیوں کو فلسطین میں آبادہونے میں مددفراہم کی۔ اس
زمانے میں یہ خاندان دنیاکے امیرخاندانوں میں سے ایک شمارہوتاتھا۔ ایڈمنڈکی جانب سے یہودیوں کی فلاح کے مقاصدکیلئے امداداتنی زیادہ تھی کہ ان کو”ینیفیکٹر”مددگارکالقب دیاگیا۔
بہت سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ یہ اعلامیہ لیونیل روتھس چائلڈ کے نام کیوں لکھاگیاجبکہ اس زمانے میں برطانوی یہودی کمیونٹی کے بورڈ آف ڈپٹیزکے صدرسٹوارٹ سیموئل تھے جوملک میں سرکاری طورپریہودی کمیونٹی کی نمائندہ تنظیم تھی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہودیوں میں بھی دھڑے بندی تھی اورایک گروہ اس ایجنڈے کی مخالفت کررہاتھا۔روتھس چائلڈکے پاس کوئی سرکاری عہدہ تونہیں تھالیکن وہ ”صیہونی ایجنڈا”کی حمایت کرنے والوں میں سب سے آگے تھے۔آرتھرجیمزبالفورسے ان کے تعلقات کی وجہ سے یہ خط ان کے نام ہی لکھاگیا۔کہاجاتاہے کہ اس دستاویز کی تحریر میں بھی روتھس چائلڈنے حصہ لیاتاہم اس دعوے کاکوئی ثبوت موجود نہیں۔برطانوی حکومت کوامیدتھی کہ اس اعلامیے کے بعدامریکااورباقی دنیامیں بسنے والے یہودی پہلی عالمی جنگ میں مکمل طور پرجرمنی کے خلاف اتحادیوں کاساتھ دیں گے۔مؤرخین کا مانناہے کہ برطانیہ سمیت یہودی کمیونٹی معاشی اثرورسوخ رکھتی تھی اورخصوصاعالمی سرمایہ کاری میں بااثرہونے کی وجہ سے برطانیہ کوان کی مدددرکارتھی۔چندماہرین کایہ بھی مانناہے کہ برطانیہ نے جنگ کے بعدمشرق وسطی میں اپنااثرورسوخ برقراررکھنے کیلئے یہ اقدام کیا۔اس تحریرکامقصدجوبھی ہو،بالفور اعلامیہ نے1948میں اسرائیل کوجنم دیااورخطے سے لاکھوں فلسطینیوں کوبے دخل کردیاگیا۔
تاہم تاریخی اورزمینی حقائق اس بات کاثبوت ہیں کہ ظلم اورجارحیت کے جتنے بھی منصوبے بنے بالآخرشکست اوررسوائی ان کامقدربن کررہی۔ابھی کل ہی کی توبات ہے کہ افغانستان میں20سال تک امریکااپنے تین درجن اتحادیوں ،نیٹوکی افواج اورجدیدترین اسلحے اورٹیکنالوجی کے زورپربدترین ظلم وستم کے بعدبدترین شکست و پسپائی کے ساتھ رخصت ہوناپڑا،جواس بات کی دلیل ہے کہ سپرپاورصرف میرے رب کی ہے۔وہ اپنے بندوں کوآزماتاہے کہ کون اس کی محبت میں ثابت قدم رہتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ افغانستان اس صدی میں تین سپر طاقتوں کاقبرستان بن چکاہے۔تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے کہ سب سے پہلے دنیابھرمیں برطانوی نوآبادیوں کوآزادی کی نعمت حاصل ہوئی اور اس کے بعد سوویت یونین کے بطن سے چھ مسلمان ریاستوں کا وجودعمل میں آیااوراب ہزاروں میل دورسے آئے ہوئے ظالم جارح کواپنے اتحادیوں سمیت چھ کھرب ڈالر کے خطیرنقصان کے ساتھ ہزاروں فوجیوں کے تابوت اندھیرے میں واپس اپنے ملک میں لیجاکر نئے قبرستان آبادکرنے پڑے۔ ارشاد فرمایا کہ :اے پیارے حبیبۖبے شک تیرے رب کی پکڑبہت سخت ہے۔(البروج:12 )
اگرچہ یہ پکڑکچھ عرصہ ظالموں کو مہلت دینے کے بعد ہو کیونکہ انہیں مہلت دیناعاجزہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ حکمت کی وجہ سے ہوتاہے۔اب وہ وقت دورنہیں جب کشمیراورفلسطین بھی ظالموں سے مکمل نجات حاصل کرکے رہیں گے۔ (ان شاء اللہ)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں