بھارت' وشوگرو ' نہیں امریکی کارڈ ہے!
شیئر کریں
انشال راؤ
نریندر مودی نے اقتدار میں آکر لال قلعہ کی فصیل پر چڑھ کر بالخصوص پاکستان کو مخاطب کرتے ہوے کہا تھا کہ ہمارا مقابلہ کسی دیش سے نہیں بلکہ بھوک سے ہے لیکن عرصہ آٹھ سال گزرنے کے بعد گلوبل ہنگر انڈیکس میں دنیا کے 125 ممالک میں بھارت تیزی سے ترقی پاکر 111 نمبر پر پہنچ چکا ہے۔ اس کے علاوہ ہنگر واچ کی رپورٹ 2022 کے مطابق تقریباً 30 کروڑ بھارتی شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ بھارت کے اپنے ہیومن انڈائس سرویز کے مطابق لوگوں کے حالات غیرمعمولی حد تک خراب ہیں ۔کروڑوں افراد کو اکیسویں صدی میں بھی پینے کا صاف پانی تک دستیاب نہیں لیکن اس سب کے باوجود بھاجپا لیڈروں پر جنگی جنون سوار ہے اور بھاجپا انتظامیہ بھارتی عوام کو اکھنڈ بھارت کی آڑ میں ایک بار پھر امریکہ و مغرب کی غلامی میں دھکیل رہی ہے۔
گزشتہ ماہ وسطی ایشیائی ممالک کے نیشنل ایڈوائزرز کے اجلاس میں بھارتی سورما اجیت دوول نے کہا کہ پاکستان کے وجود سے بھارت کی وسطی ایشیائی ممالک تک زمینی رسائی بلاک ہے اور اشارہ کنایہ میں گلگت بلتستان و آزاد کشمیر پر قبضہ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ بغیر لاگ لپیٹ کے یہ بات کہی جاسکتی ہے اجیت دوول وہ شخص ہے جس کے ہاتھ ہزاروں بے گناہ پاکستانیوں کے خون سے رنگے ہیں ۔وہ اپنی آفینسو ڈیفنس تھیوری کے ذریعے بلوچستان و دیگر پاکستانی علاقوں میں دہشت گردی کا بارہا اعتراف کرتے رہے ہیں۔ اس سے پہلے 2019 میں بھارتی چیف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت نے بھارتی پالیسی کا انکشاف کیا تھا کہ وہ آزاد کشمیر و گلگت بلتستان پر قبضہ کرنے کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں، اکتوبر 2022 میں بھارتی وزیر دفاع اور فوراً بعد بھارتی آرمی چیف جنرل نروانے کا پالیسی بیان ریکارڈ پر موجود ہیں۔ گزشتہ ماہ راجستھان میں بھارت سنکلپ یاترا ریلی کے موقع پر بھارتی وزیر جنرل ریٹائرڈ وی کے سنگھ نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوے کہا کہ آزاد کشمیر و گلگت بلتستان جلد بھارت کا حصہ ہوگا۔ اس موقع پر آر ایس ایس رہنما بھی جنرل وی کے سنگھ کے ہمراہ موجود تھے اندریش کمار سمجھوتہ ایکسپریس دہشت گردی واقعہ میں ملوث رہے ہیں جس میں 80 پاکستانیوں کو زندہ جلادیا گیا تھا۔
یہ بات انتہائی اہم ہے کہ 94 میں امریکہ نے پہلی بار جنوبی ایشیا بالخصوص کشمیر ڈیسک قائم کی اور اس کی پہلی سربراہ رابن رافیل کو تعینات کیا گیا تھا۔ رابن رافیل نے کشمیر سے متعلق بات کرتے ہوے کشمیریوں سے مخاطب ہوکر کہا تھا کہ
Be realistic & come up with alternative
اس کے علاوہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ آفیشل جان مولٹ نے کانگریس کی کمیٹی کے سامنے جو رپورٹ پیش کی تھی اس میں بھی انٹرنیشل فورس کی تعیناتی کو بیان کیا گیا تھا۔ خود بھارتی میجر جنرل صبا کریم کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کشمیر کی صورت جنوبی ایشیا میں اسرائیل طرز پر ایک آزاد ریاست کا قیام چاہتا ہے۔ اب جبکہ امریکہ چین کے بڑھتے اثر رسوخ کو اپنی چودھراہٹ کے لیے خطرہ گردان چکا ہے اور دونوں کے مابین سرد جنگ عروج پر ہے جس طرح ماضی میں سوویت یونین امریکی سرد جنگ میں سوویت یونین کے اتحادیوں کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور متعدد ممالک عدم استحکام کا شکار ہوئے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو چین کے وسطی ایشیا میں بڑھتے اثر رسوخ اور سی پیک راہداری میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے امریکہ بھارت کو بطور کارڈ استعمال کر رہا ہے۔ اس ضمن میں USIP کے سینئر ایڈوائزر ڈینیل کہتے ہیں کہ
Washington sees India as”a strategic swing in a world order increasingly defined by competition between the US and China,”
اس کے علاوہ نریندر مودی پر اچانک سے امریکہ میں لگی پابندی اٹھ جانا اور انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کو یکسر نظر انداز کردینا عارضی اور امریکی مفاد پہ مبنی ہے جس پر Madan نے کہا تھا کہ
India is vital geopolitical counterbalance, economic alternative and democratic contrast to China.
بھاجپا رہنماؤں کی جانب سے بھارت کو ”وشو گرو” بنانے کا ڈنکا پیٹا جاتا ہے کیونکہ یہ سنگھیوں کی قوم پرستی میں فٹ بیٹھتا ہے جس کی حقیقت جملہ بازی سے پیٹ بھرنے سے زیادہ نہیں۔ مرسیلیس انوسٹمنٹ منیجرز کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی 80 فیصد دولت چند خاندانوں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے اور دلچسپ امر یہ ہے کہ ان میں بڑے گروپ یا کمپنیز کا تعلق ہندوتوا گروہ سے ہے جہاں ایک طرف دولت کی تقسیم کا یہ عدم توازن بھارتی عوام پر کسی ایٹم بم کے دھماکہ سے کم نہیں تو دوسری طرف نہ صرف ہندوتوا گروہ کے ہاتھوں بھارتی معیشت یرغمال ہوکر رہ گئی ہے بلکہ سنگھی قائدین نے ان بڑے گروپس اور کمپنیز کو امریکہ کی جھولی میں ڈال دیا ہے۔ یہ بات میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے کہ ایڈانی اور مہندرا گروپ و دیگر سری لنکا، بھوٹان و دیگر ممالک میں چین کے مقابلے میں امریکی ایماء پر سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ وسطی ایشیائی ریاستوں کو اجیت دوول نے چائنیز بینک کے مقابلے میں قرض دینے کی آفر کی ہے جبکہ خود کی 40 فیصد آبادی کو دو وقت کی روٹی نصیب نہیں، غربت کا یہ عالم ہے کہ خودکشی کرنے والے ممالک کی فہرست میں بھارت سرفہرست ہے۔
مودی انتظامیہ کی پالیسیوں کو اگر آسٹریلوی سائنسدان جیرڈ ڈائمنڈ کی Theory Of Collapse کے مطابق پرکھا جائے تو بھارت کی تباہی زیادہ دور نہیں جیساکہ جیریڈ ڈائمنڈ نے ثابت کیا ہے کہ کسی بھی قوم یا ریاست کے کامیاب ہونے کے لیے اس کے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات اچھے ہونے لازم ہیں اور دوم سپر پاورز کے ساتھ بھید بھاؤ نہ ہو۔ یہ بھارت کے لیے خوفناک صورتحال ہے کہ مودی انتظامیہ ایک طرف چین پاکستان دشمنی پہ تلی ہوئی ہے تو دوسری طرف چین و روس دو سپر طاقتیں بھارتی کردار سے سخت ناخوش ہیں۔ خوف و جبر کے استعمال نے داخلی صورتحال کو بھی آتش فشاں کے دہانے پہ پہنچا دیا ہے جو کسی بھی وقت لاوا اگل سکتا ہے۔ بھارتی دفاعی پالیسی سازوں نے داخلی معاملات کو ہاف فرنٹ قرار دے رکھا ہے جوکہ صرف مذہبی انتہاپسندی پہ مبنی ہے اور اقلیت دشمن عمل نے اسے حقیقت میں بدل دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہندوتوا گروہ ایک جانب پاکستان میں دہشت گردی کی سرپرستی کرکے فخر کرتا ہے تو دوسرے ہاتھ افواج پاکستان کے خلاف زہرافشانی پہ مبنی پروپیگنڈہ چلا رہا ہے اور امریکی شہ پر کشمیر کا محاذ کھولنے کی پلاننگ کررہا ہے جس کا نتیجہ بھارت کے لیے انتہائی خوفناک ثابت ہوسکتا ہے۔ 1965 کی جنگ کے بعد بھارت کو سرکاری سطح پر فاقہ پالیسی کا اجراء کرنا پڑا تھا اور قوی امکان ہیں کہ ایک بار پھر بھارتی سرکار اپنے شہریوں کو ہوا کھا کر گزارہ کرنے کا اعلان کرے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔