میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
وطن عزیز میں دہشت گردی ،کیاداعش ذمہ دار ہے؟

وطن عزیز میں دہشت گردی ،کیاداعش ذمہ دار ہے؟

منتظم
اتوار, ۱۳ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

ریاض احمد چوہدری
بلوچستان کے ضلع خضدار کی تحصیل وڈھ میں درگاہ شاہ نورانی کے احاطے میں دھمال کی جگہ پر خود کش دھماکے کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت 52سے زائد افراد شہید اور110سے زائد زخمی ہو گئے۔ تحصیل وڈھ اختر مینگل کا علاقہ ہے اور اس کے نزدیک حب ہے۔آرمی چیف کی ہدایت پر آرمی کی امدادی ٹیمیں بھی علاقے میں پہنچ گئیں جبکہ بیشتر زخمیوں کی حالت تشویشناک ہونے کی وجہ سے ہلاکتیں بڑھنے کا خدشہ ہے۔ ایک عینی شاہد کے مطابق درگاہ کے احاطے میں لاشیں ہی لاشیں بکھری پڑی تھیںجبکہ کمشنر قلات نے خود کش حملے کی تصدیق کی۔ داعش نے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے ۔
شاہ نورانی درگاہ پہاڑ پر ہونے اور رات کے اندھیرے کی وجہ سے امدادی کاموں میں شدید مشکلات پیش آئیں۔ علاقے میں پی ٹی سی ایل اور کوئی بھی موبائل نیٹ ورک کام نہیں کرتا۔ زخمیوں کو ابتدائی طور پر مقامی ڈسپنسری میں منتقل کیا گیابعد ازاں کراچی زخمی لائے جانے پر سول ہسپتال کراچی میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ کراچی سے شاہ نورانی کا فاصلہ 200کلو میٹر ہے۔یہاں ہر روز مغرب کے بعد دھمال ہوتی ہے۔ ہفتے اور اتوار کی شام دور دراز سے لوگ بڑی تعداد میں آتے ہیں۔
صدر مملکت ممنون حسین نے دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے جاں بحق اور زخمی ہونے والے کے اہل خانہ سے اظہار ہمدردی کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ مقدس مقامات کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے والے انسانیت اور قومی ترقی کے دشمن ہیں ناکامی ان کا مقدر ہے۔نواز شریف نے درگاہ شاہ نورانی میں دھماکے کی شدید مذمت کی ہے اور فوری امدادی سرگرمیوں کی ہدایت کر کے کہا کہ جاں بحق افراد کے لواحقین اور زخمیوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں ۔واقعہ میں ملوث افراد کو جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
ایک طرف حکومت ملک میں دہشت گرد تنظیم داعش کی عملی طور پر موجودگی نہ ہونے کا دعویٰ کرتی ہے تو دوسری طرف اسے داعش کے حملوں کا خطرہ بھی ہے۔محکمہ داخلہ پنجاب نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خبردار کیا ہے کہ داعش صوبے میں مختلف مقامات پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔نجی اداروں پر حملے کے خدشے کے حوالے سے انٹیلی جنس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 5 دہشت گردوں کا گروپ لاہور پہنچ چکا ہے جو نجی اداروں بالخصوص ان کے سیکیورٹی گارڈز کو نشانہ بنا سکتا ہے۔انٹیلی جنس حکام کے مطابق اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اور غیر ملکی بھی دہشت گردی کا نشانہ بن سکتے ہیں۔داعش کے حملوں کے حوالے سے انٹیلی جنس ایجنسیوں کی یہ رپورٹ وفاقی حکومت کے ان دعوو¿ں سے متصادم ہے کہ پاکستان میں داعش کا کوئی وجود نہیں۔ہر خود کش دھماکہ یا تخریب کاری، دہشت گردی کے بعد داعش ذمہ داری قبول کر لیتی ہے تو یہ کون ہیں جو داعش کے نام کو استعمال کر رہے ہیں۔
قانون نافذ کرنےوالے ادارے کی رپورٹ کے مطابق ’دولت اسلامیہ‘ کہلانے والی تنظیم کا پاکستان میں نیٹ ورک موجود ہے۔ تاہم یہ دعویٰ بھی کیا کہ ملک میں ’دولت اسلامیہ‘ کے نیٹ ورک کے خلاف موثر کارروائی عمل میں لاتے ہوئے اس کا بڑی حد تک خاتمہ کردیا گیا ہے۔ بعض مذہبی جماعتیں ’دولت اسلامیہ‘ جسے داعش بھی کہا جاتا ہے، کی سوچ کی حمایت کرتی ہیں۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان اس تنظیم کی حمایت کرتی ہے جبکہ افغانستان میں ایسا نہیں ہے۔کراچی میں گزشتہ سال مئی میں ہونے والے سانحہ صفورہ گوٹھ کے بعد پنجاب بھر میں داعش کا نیٹ ورک پکڑا گیا ہے اور تنظیم کے متعدد اراکین گرفتار بھی کیے گئے ہیں۔
دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق اس انکشاف کے بعد کم ازکم یہ واضح ہے کہ اب حکومتی سطح پر بھی داعش کے خطرے کی موجودگی کا ادراک پایا جاتا ہے۔ کئی حلقے کافی عرصے سے داعش کے خطرے کے بارے میں بات کر رہے تھے لیکن ریاست یہ سمجھ رہی تھی کہ شاید داعش کا خطرہ تب ہو، جب شام یا عراق سے اس تنظیم کا کوئی گروپ یہاں آئے گا۔ یہاں پر شدت پسند تنظیموں کا ڈھانچہ تو پہلے سے موجود تھا تو اس میں سے کچھ تنظیموں نے آگے بڑھ کر داعش کے ساتھ وفاداری کا حلف لیا اس کے علاوہ کچھ غیر مسلح لیکن شدت پسند سوچ رکھنے والی تنظیموں اور افراد کی ہمدردیاں بھی داعش کو حاصل ہیں تو یہ اس سوچ سے ایک الگ معاملہ ہے جو حکومت نے اب تک داعش کی پاکستان میں موجودگی کے بارے میں اپنا رکھی تھی۔
اب اہم بات یہ ہے کہ اس بحث سے آگے بڑھا جائے کہ داعش یہاں موجود ہے یا نہیں ؟ بلکہ اب یہ سوچا جائے کہ اس اتنے بڑے خطرے سے نمٹنے کے لئے کیا سکیورٹی اپروچ اپنانی چاہیے؟ سب سے زیادہ ضرورت ایسی مذہبی جماعتوں اور افراد کی نگرانی ہے، جو داعش کے شدت پسندانہ نظریات کی طرف راغب ہیں یا ممکنہ طور پر راغب ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کے شہروں کراچی، لاہور، اسلام آباد اور پشاور میں داعش کے حق میں وال چاکنگ بھی کی گئی تھی تاہم حکومت کا کہنا تھا کہ ایسا صرف خوف وہراس پھیلانے کے لئے کیاجارہا ہے۔ اس ضمن میں شدت پسند مذہبی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد کی گرفتاریوں کا دعوی بھی کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسی غیر مصدقہ اطلاعات بھی آتی رہی ہیں کہ پاکستان سے ایک سو کے قریب شدت پسند ’دولت اسلامیہ‘ کے ساتھ مل کر لڑنے کے لئے شام پہنچے ہیں۔
دو ماہ قبل ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ پر ایسی خبریں بھی آئی تھیں کہ افغانستان کے شمالی صوبے ننگر ہار سے داعش کے زیر انتظام چلنے والے خلافت ریڈیو کی نشریات پاکستان کے اس صوبے سے متصل قبائلی علاقوں میں بھی با آسانی سنی جاسکتی ہیں۔ تاہم پاکستانی حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے ان نشریات کو اپنے علاقوں میں بند کردیا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں