انتخابی نتائج اور امریکی عوام
شیئر کریں
اشتیاق احمد خان
انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار ہنگامہ، جلاو¿ گھیراو¿ یہ مناظر دیکھ کر مجھے مارچ اپریل 1977 کا پاکستان یاد آ گیا۔ کراچی سے پشاور تک ہر شہر میں عوام انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکاری تھی۔ لیکن ایک فرق تھا اور ہے کہ پاکستان میں پہلے حزب اختلاف کے اتحاد ” پاکستان قومی اتحاد” نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کیا، قومی اسمبلی کے بعد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور پھر حزب اختلاف کی آواز پر عوام سڑکوں پر نکل آئی پاکستان قومی اتحاد کے سربراہ پیر صاحب پگارا شریف کو کراچی میں پروفیسر عبدالغفور احمد کے ساتھ نظر بند کیا گیا تو علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی نے حیدرآباد سے دوسرے منتخب رکن اسمبلی میاں محمد شوکت کے ساتھ حیدرآباد میں گرفتاری دی۔ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی بھی حیدرآباد سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ 11 مارچ 1977 تک پاکستان قومی اتحاد کی پوری مرکزی قیادت پابند سلاسل کر دی گئی تھی، دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت بھی وسط مارچ تک جیل پہنچ چکی تھی یوں تحریک کی رہنمائی ان ہاتھوں میں تھی جن میں رابطوں کا فقدان تھا ہر شہر کی قیادت خود ہی فیصلہ کرتی تھی یوں ہنگامہ آرائی، گھیراو¿ جلاو¿ نہ ہوتا تو حیرت ہوتی۔ پھر برصغیر میں جمہوریت ہے ہی کتنی عمر کی اور معاملہ پاکستان کا ہو تو اس کی عمر اور بھی مختصر رہ جاتی ہے۔ 1947 سے 1953 تک 6 سال کا عرصہ اور پھر جنرل اسکندر مرزا کا اقتدار میں آنا 1958 میں زمام کار ایک اور جنرل محمد ایوب خان کے حوالے کرنا، ایوب خان کا آئین بنانا اور اس آئین کو اپنے اقتدار کے ساتھ ہی ختم کر دینا پھر درمیان میں چھوٹا سا نام نہاد جمہوری وقفہ کون نہیں جانتا کہ ذوالفقار علی بھٹو جنرل اسکندر مرزا کی تلاش تھے بلکہ اسکندر مرزا کی اہلیہ ناہید مرزا کی دوست نصرت کے شوہر اس حقیقت سے بھی کون انکار کر سکتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو جنرل محمد ایوب خان کو ڈیڈی کہا کرتے تھے اور جنرل محمد ایوب خان کی تخلیق کردہ کنونشن مسلم لیگ کے جنرل سیکریڑی یہ بھی تاریخ میں موجود ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل محمد ایوب خان کو مشورہ دیا تھا کہ ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو کنونشن مسلم لیگ کا ضلعی صدر اور سینئر سپریٹنڈینٹ پولیس (SSP) کو ضلعی جنرل سیکریڑی مقرر کیا جائے۔ ان حالات میں 1977 کے عوامی ردعمل کا لاوا تو طویل عرصہ سے پک رہا تھا ذوالفقار علی بھٹو اور اس کے ساتھیوں کی دائمی اقتدار اور بلامقابلہ انتخاب کی خواہش نے اس لاوا کو پھوٹ پڑنے کا موقعہ فراہم کر دیا اور پاکستان میں مارشل لاءکا سلسلہ جاری و ساری رہا۔ اس وقت پاکستان کے سیاسی منظر نامہ میں جو کردار موجود ہیں وہ تقریباً سب ہی ضیاءالحق کی پیداوار ہیں۔
لیکن امریکہ میں یہ کیا ہواہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت امریکیوں کو برداشت نہیں ہو رہی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے تو انتخابات سے بہت پہلے نعرہ لگایا تھا کہ سب سے پہلے امریکہ! لیکن اس کے باوجود یہ نعرہ ڈونلڈ ٹرمپ کو پاپولر ووٹ کی اکثریت دلانے میں کامیاب نہیں ہوا۔ لیکن مسئلہ فیثا غورث کی طرح الجھے ہوئے طریقہ کار نے ڈونلڈ ٹرمپ کی لاٹری کھول دی۔ ہیلری کلنٹن نے تاخیر سے صحیح انتخابی نتائج کو تسلیم کر لیا ہے لیکن ہیلری کلنٹن کی جانب سے نتائج تسلیم کیے جانے سے قبل ہی امریکی سڑکوں پر نکل آئے تھے اور صرف ان ریاستوں میں نہیں جہاں ہیلری کلنٹن کو اکثریت حاصل ہوئی تھی بلکہ ان ریاستوں میں بھی جہاں ڈونلڈ ٹرمپ عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ عوام سڑکوں پر تھے اور ان کا ایک ہی مطالبہ تھا ڈونلڈ ٹرمپ نامنظور۔یہ بھی نہیں ہے کہ ایسا پہلی بار ہوا ہو کہ پاپولر ووٹ کسی امیدوار کے زیادہ ہوں اور کامیاب کوئی او رہو جائے اور قصر سفید کی کنجیاں شکست خوردہ امیدوار کا مقدر بن جائے۔ ماضی قریب میں 2000 کے انتخابات میں بھی ایسا ہی ہوا تھا کہ جارج ڈبلیو بش پاپولر ووٹ میں الگور سے پانچ لاکھ ووٹ پیچھے تھا لیکن الیکڑول کالج میں بڑی ریاستوں میں چند ووٹوں کی اکثریت نے جارج ڈبلیو بش کے الیکڑول کالج ووٹ الگور سے بڑھا دیئے تھے اور جارج ڈبلیو بش کامیاب قرار پایا تھا۔16 سال بعد تاریخ نے ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرایا ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ تین لاکھ پاپولر ووٹ کم لیکر بھی ہیلری کلنٹن کو قصر سفید میں داخل ہونے سے روکنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بڑی ریاستوں میں کم فرق سے کامیابی حاصل کی اور ہیلری کلنٹن چھوٹی ریاستوں میں زیادہ فرق کے باوجود الیکڑول کالج کے مطلوبہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ دونوں مرتبہ اس سقم کا فائدہ ریپبلکن امیدوار کو ہوا ہے پہلے جارج ڈبلیو بش اور اب ڈونلڈ ٹرمپ۔
2000 کے انتخابات کے بعد الگور نے نتائج تسلیم کرنے کے بجائے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور یوں اس مسئلہ فیثا غورث کو سپریم کورٹ نے سند تصدیق عطا کر دی تھی کہ عوامی ووٹ کوئی بھی زیادہ لے قصر صدارت اس کا جس نے الیکڑول کالج ووٹ زیادہ لیے ہوں۔لیکن 2016 کے انتخابات میں عوامی ووٹ (پاپولر ووٹ) کی یہ توہین امریکیوں کو برداشت نہ ہوئی اور وہ سڑکوں پر نکل آئے عوام کو سڑکوں پرآنے کی دعوت و ترغیب نہ تو ہیلری کلنٹن نے دی ہے نہ ہی ڈیموکریٹس نے ایسی کوئی بات کی تھی کہ جو امریکیوں کے سڑکوں پر آنے کا باعث بنتی ۔ سوا دوسو سالہ جمہوری تاریخ رکھنے والے امریکہ میں امریکی شہریوں کو اپنے ووٹ کی یہ توہین برداشت نہیں ہوئی اور وہ سڑکوں پر نکل آئے یہ صرف ڈیمو کریٹس اور ہیلری کلنٹن کے حامی نہیں بلکہ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ریپبلکن کے ووٹر ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ ان کا امیدوار تھا امریکی عوامی رائے کے برعکس ٹیکنیکل (فنی) بنیادوں پر ہیلری کلنٹن کی شکست سے دلبرداشتہ ہیں وہ چاہتے ہیں کہ عوام کی رائے کی اکثریت کا احترام کیا جائے اور انتخابی نظام میں بڑی ریاستوں کی اجارہ داری کا خاتمہ ہو۔
ہیلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران ایک فرق دیکھنے میں آیا کہ ہیلری کلنٹن نے پورے امریکہ کو یکساں اہمیت دی اور چھوٹی اور بڑی ریاستوں کم اور زیادہ الیکڑول کالج ووٹ کے بجائے پاپولر ووٹ پر اپنی توجہ مرکوز رکھی لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن مینیجر نے انتخابی مہم کو بہت ناپ طول کر چلایا اس کی توجہ کا مرکز اور محور چند بڑی ریاستیں رہیں جہاں سے کامیابی قصر صدارت کے دروازے کھلونے کے لیے ضروری ہوتی ہے ہیلری کلنٹن نے زیادہ ریاستوں میں واضح برتری حاصل کی لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی کم برتری بھی ان ریاستوں میں تھی جہاں الیکڑول کالج ووٹ زیادہ ہیں یوں ہیلری کلنٹن پاپولر ووٹ کی اکثریت کے باوجود قصر سفید میں داخلے کے خواب کو شرمندہ تعبیر نہ کر سکی! کیا ڈیمو کریٹس ایک مرتبہ پھر 2020 میں ہیلری کلنٹن کو پارٹی ٹکٹ دینگے یا نہیں ؟ لیکن دنیا کی قدیم جمہوریتوں میں سے ایک میں عوامی ردعمل اور اس دوران لگنے والے نعرے پوری دنیا کے لیے خطرہ ہیں امریکیوں کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا صدر نا ماننا تو درست ہو سکتا ہے لیکن اس کے قتل کی خواہش کا اظہار ایک خطرناک علامت ہے خصوصاً ان ملکوں کے لیے جہاں جمہوریت ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور گوربا چوف (روسی صدر) میں بہت ساری مماثلت ہیں ڈونلڈ ٹرمپ بھی گوربا چوف کی طرح نعرہ لگا کر امریکی ایوان صدر میں پہنچنے میں تو کامیاب ہو گئے ہیں لیکن کیا انہوں نے گوربا چوف اور گوربا چوف کے ہاتھوں سوویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے کوئی سبق سیکھا ہے اور کیا وہ امریکہ میں اُبھرنے والی علیحدگی کی تحریکوں کو روکنے میں کامیاب ہونگے یا ان کے دور میں USA بھی USSR کی طرح کئی ریاستوں میں بٹ کر ماضی کا حصہ بن جائے گا اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت اور ڈونلڈ ٹرمپ کی حکمت عملی ہی کرے گی۔