خورشید ندیم کے بدلتے بیانیے : اصول یا شخصیت پرستی؟
شیئر کریں
پاکستانی سیاست میں اصول اور نظریات کے ساتھ ساتھ فکری دیانت داری کا بھی فقدان نظر آتا ہے ، اور اس کی نمایاں مثال خورشید ندیم کے کالمز میں ملتی ہے ۔ ایک وقت تھا جب وہ احتجاج اور جمہوریت کے اصولوں کے حق میں اور غیر سیاسی عناصر کی سیاست میں مداخلت کے خلاف لکھتے تھے ، لیکن اب جب صورتحال مختلف ہے اور تحریک انصاف اپوزیشن میں ہے ، تو انہی احتجاجات کو ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ
قرار دیا جا رہا ہے ۔ ان کا قلم جس انداز سے بدلتا ہے ، وہ واضح طور پر اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے خیالات کا محور اصول نہیں بلکہ شخصیات ہیں۔جب نواز شریف اپوزیشن میں تھے ، تو ندیم صاحب جمہوریت اور احتجاج کے بڑے حامی تھے ۔ لیکن جب عمران خان اپوزیشن میں آئے ، تو وہی احتجاج ان کے نزدیک ملکی ترقی میں رکاوٹ بن گیا۔
خورشید ندیم کا 4 جنوری 2021 کا کالم ”کیا اصل مجرم سیاستدان ہیں”؟اُس وقت لکھاگیا جب نواز شریف اور ان کی جماعت مسلم لیگ ن اپوزیشن میں تھیں۔ اس وقت ان کی تحریر میں جمہوریت کا اصولی بیانیہ واضح نظر آتا ہے ۔ وہ غیر سیاسی عناصر کی مداخلت کو سختی سے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھتے ہیں
”ہر پند ‘ہر نصیحت کا مخاطب سیاست دان ہی کیوں؟ علاج میں اختلافِ رائے ہو سکتا ہے لیکن اگر تشخیص ہی میں اختلاف ہو تو علاج سرے سے ممکن نہیں رہتا۔ اہلِ دانش کو معاملہ یہ ہے کہ تشخیص کی طرف کوئی دھیان نہیں۔ سارا زور مریض پر ہے ۔ اس کو کوسا جا رہا ہے کہ احتیاط کیوں نہیں کرتا؟ گویا وائرس کا تو کوئی قصور نہیں، اصل مجرم مریض ہے ۔ یہ ایسا ہی ہے کہ کورونا سے نمٹنے کیلئے سارا اصرار ماسک پہننے اور سماجی فاصلہ رکھنے پر ہو۔ ویکسین یا علاج کو سرے سے موضوع ہی نہ بنایا جائے ۔ کیا اس طرح کورونا ختم ہو سکتا ہے ؟اس طرح کورونا تو ختم نہیں ہو سکتا لیکن اس کا پورا اندیشہ ہے کہ انسان ختم ہو جائے” ۔
آگے لکھتے ہیں:
”اگر کسی جسم میں دل اپنا کام درست طور پر نہیں کر رہا تو اچھا معالج اس کا علاج کرے گا۔ اس کو صحت مند بنانے کے لیے ادویات تجویز کرے گا۔ وہ کبھی یہ نہیں کرے گا کہ دل کی رگوں کو کاٹ کر پھیپھڑوں سے جوڑ دے کہ آج کے بعد یہ کام بھی تم ہی سنبھالو۔ انسانی سماج کا معالج بھی یہی کرتا ہے ۔ سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سیاسی نظام درست طور پر نہیں چل رہا تو اس کا علاج یہ ہے کہ اہلِ سیاست کی اصلاح کی جائے ۔ اس کا علاج یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی اور کو سیاسی امور سونپ دیے جائیں۔ اس پر سماجی ماہرین کا اجماع ہے” ۔
اسی کالم میں، وہ ایک اور اہم نکتہ اٹھاتے ہیں، جس میں وہ جعلی جمہوریت کو عدم استحکام کی اصل وجہ قرار دیتے ہیں:
”انسانی سماج کو جو بڑے عوارض درپیش ہوتے ہیں’ ان میں ایک عدم استحکام ہے ۔ ان ماہرین نے یہ جانا کہ جن معاشروں میں اقتدار تک رسائی کا کوئی پُرامن راستہ موجود نہیں ہے ،ان میں ہمیشہ فساد برپا رہتا ہے ۔ جہاں طاقت کے زور پر اقتدار کا استحقاق ثابت ہوتا ہے، وہاں ہمیشہ قتل و غارت گری رہتی ہے ، لہٰذا اس کا علاج ہونا چاہیے کہ ایک معاشرے میں پُرامن انتقالِ اقتدار ممکن ہو سکے ۔ اس تشخیص کے بعد اس کا علاج جمہوریت کی صورت میں تجویز کیا گیا۔ یہ حق تلوار کے بجائے عوام کو دے دیا گیا کہ وہ جسے پسند کریں اسے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا دیں اور جسے چاہیں،تخت سے اتار دیں۔ عوام اپنے اس حق کا اظہار اپنے ووٹ سے کرتے ہیں۔ اس تشخیص اور اس علاج پر آج اجماع وجود میں آ چکا۔ اس سے اختلاف کرنے والے وہی ہیں جو جسمانی عوارض کو بھی کسی پھونک یا پھکی سے دور کرنا چاہتے ہیں؛
چنانچہ دیکھیے کہ جن معاشروں میں جمہوریت ہے ،وہاں استحکام ہے ۔ جہاں جمہوریت نہیں ہے یا جمہوریت کے نام پر دھوکہ دیا جا رہا ہے ، جیسے برصغیر کے کچھ ممالک میں تو وہاں نتیجہ وہی ہے جو جعلی دوائی دینے کا ہو سکتا ہے ۔ گویا وہاں عدم استحکام کا سبب جمہوریت نہیں’ جعلی جمہوریت ہے ”۔
مگر جب عمران خان اور تحریک انصاف نے دھاندلی کے خلاف احتجاج شروع کیا تو خورشید ندیم کا نقطہ نظر یکسر بدل گیا۔ اب وہی احتجاج جو نواز شریف کے دور میںجمہوری حق تھا، عمران خان کے دور میں ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن گیا۔ 9اکتوبر 2024 کو خورشید ندیم نے اپنے کالم”احتجاج کی نفسیات” میں لکھا:
”احتجاج ہمارا جمہوری حق ہے ، میرا خیال ہے یہ جملہ اب تفہیمِ نو کا محتاج ہے ۔احتجاج جس مفہوم کے ساتھ یہاں رائج ہے ‘ اس سے نجات کے بغیر ملک ترقی کر سکتاہے اور نہ جمہوریت کا شجر ثمربار ہو سکتاہے ۔ دو دن پہلے ہم نے جو احتجاج دیکھا،وہ بھی جاتے جاتے ایک جان لے گیا۔ اس طرح کے احتجاج کا جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں’۔
یہاں خورشید ندیم ایک نیا مفہوم پیش کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک، احتجاج اب جمہوریت کا حصہ نہیں رہا بلکہ وہ اسے ملکی ترقی کے خلاف ایک منفی عمل قرار دیتے ہیں۔حالانکہ یہی احتجاج جب نواز شریف کے دور میں ہوتا تھا، تو ندیم صاحب کے نزدیک وہ جمہوری حق تھا اور عوام کے مسائل کا حل احتجاج میں تھا۔خورشید ندیم کے بیانیے میں ایک اور بڑا تضاد اس وقت سامنے آتا ہے جب ہم غیر سیاسی عناصر کی سیاست میں مداخلت کا جائزہ لیتے ہیں۔ نواز شریف کے دور میں خورشید ندیم بار بار اس بات پر زور دیتے رہے کہ غیر سیاسی عناصر کا سیاست میں مداخلت ملک کے لیے نقصان دہ ہے ۔ لیکن 2024 میں جب سیاسی حالات اور زیادہ سنگین ہو چکے ہیں، اور غیر سیاسی عناصر کی مداخلت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے ، خورشید ندیم نے اس موضوع پر مکمل خاموشی اختیار کر لی ہے ۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے :کیا غیر سیاسی مداخلت صرف اُس وقت غلط تھی جب نواز شریف اپوزیشن میں تھے ؟ یا یہ اصولی موقف ہر دور میں یکساں ہونا چاہیے تھا؟خورشید ندیم کا حالیہ بیانیہ بتاتا ہے کہ یہ اصول صرف اُس وقت لاگو ہوتا ہے جب اپوزیشن میں نواز شریف ہوں، لیکن جب عمران خان اپوزیشن میں آئیں تو یہی غیر سیاسی مداخلت ایک غیر متعلقہ موضوع بن جاتا ہے ۔
2024 کے انتخابات میں تحریک انصاف کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر بھی خورشید ندیم نے کبھی کھل کر بات نہیں کی۔ انتخابی دھاندلی، تحریک انصاف کے امیدواروں پر مقدمات، ان کے کاغذات نامزدگی کی منسوخی اور ان کے ووٹرز کے حق رائے دہی کو محدود کیا گیا، مگر خورشید ندیم ان تمام مسائل پر خاموش رہے ۔ حتیٰ کہ انتخابات کے دن دھاندلی کی متعدد رپورٹس سامنے آئیں اور فارم 47 کے ذریعے انتخابی نتائج میں تبدیلی کی گئی، مگر ندیم صاحب نے ان ایشوز کو کبھی اپنے کالم میں جگہ نہیں دی۔ خورشید ندیم کا یہ رویہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ اپنے قلم کا استعمال اصولوں کے بجائے شخصیات کے حق میں کرتے ہیں۔ جب نواز شریف اپوزیشن میں تھے ، تو وہ
جمہوریت کے حامی تھے اور احتجاج کو ایک جمہوری حق قرار دیتے تھے ۔ لیکن جب عمران خان اپوزیشن میں آتے ہیں، تو وہی احتجاج ان کے نزدیک ملکی استحکام کے لیے نقصان دہ بن جاتا ہے ۔
خورشید ندیم کے ان تضادات اور دُہرے معیارات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا بیانیہ اصولوں کی بجائے سیاسی حالات کی تبدیلی کے ساتھ ڈھلتا ہے ، جس سے قاری ان کی تحریروں پر اعتماد کرنے کے بجائے انہیں شک کی نظر سے دیکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔