ہٹلر نے یہودیوں کو کیوں مارا تھا؟
شیئر کریں
میری بات/روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہٹلر نے جب یہودیوں کو مار مار کر تباہ کردیا تھا تو کچھ کو چھوڑ دیا اور ایک تاریخی فقرہ کہا تھا کہ دنیا دیکھ لے کہ میں نے انہیں کیوں مارا تھا ہٹلر کی باتیں بعد میں ۔پہلے یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ اس وقت فلسطین دنیا کا سلگتا ہوا مسئلہ بن چکا ہے اور عالمی ادارے محض لفظی بیان بازی سے کام لے رہے ہیں۔ غزہ کے لاکھوں افراد کئی سالوں سے ناجائز صہیونی ریاست کے محاصرے میں ہیں۔ مظالم کے باوجود فلطینیوں نے ہمت نہیں ہاری بلکہ آزادی اور قبلہ اول کی حفاظت کے لیے قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کرکے ثابت کیا کہ جدوجہد اور مزاحمت میں ہی زندگی ہے۔ مصر میں منتخب صدر محمد مرسی کو فلسطینیوں کی مدد کرنے پر اقتدار سے بے دخل کرکے جیل میں ڈال دیا گیا اور وہیں سے ان کاجنازہ اٹھا۔ پاکستانی قوم فلسطین کی آزادی کے مسئلہ پر متحد ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمران بھی جرأت کا مظاہرہ کریں ۔ قائداعظم محمد علی جناح نے مسئلہ فلسطین پر گائیڈ لائن دے دی تھی۔ 1967میں اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا تھا کہ ہمیں اصل خطرہ پاکستان سے ہے۔ مسئلہ فلسطین دو ریاستوں کاتنازع نہیں بلکہ حق اور باطل کے درمیان معرکہ ہے اگر بین الاقوامی لیڈروں میں سے کوئی لیڈر فلسطینی مسئلے کو سمجھا ہے تو وہ مہاتیر محمد سمجھا ہے جو اس وقت جرات مند اسلامی لیڈر کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ اس سے قبل عمران خان وہ واحد لیڈر تھا جو اقوام متحدہ کے اجلاس میں اسرائیلی وزیر اعظم کے استقبال کے لیے اٹھا نہیں تھا جبکہ باقی سارے ممالک کے سربراہوں نے اپنی اپنی سیٹوں سے اٹھ کر اس کا استقبال کیا تھا لیکن آج اسی لیڈر کو ہمارے حکمرانوں نے جیل میں ڈال رکھا ہے۔
خیر میں بات کررہا ہوں ایک غیرت مند لیڈر ڈاکٹر مہاتیر محمد کی جنہوں نے کھل کر کہا ہے کہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان سات دہائیوں سے زائد عرصے سے جاری تنازع کا کوئی حل کیوں نہیں نکالاجاسکا جبکہ اس مسئلہ پر سب سے پہلے طاقتور مغربی اقوام اور ان کے ذرائع ابلاغ سمیت ان کے پراپیگنڈہ مشینری کی طرف سے جو ردعمل سامنے آیا ہے وہ منافقانہ، متعصب اور پیتھالوجیکل ہے جنہوں نے تنازع کو حل کرنے کے بجائے اپنے فریب پر مبنی بیانیہ کو جاری رکھنے کا انتخاب کیا کہ یہ دہشت گردوں کے ذریعہ اسرائیل پر حملہ ہے ان کا الزام واضح طور پر حماس، حزب اللہ اور ایران پر عائد کیا جا رہا ہے جنہوںنے مغرب میں خوف پھیلایا ہے اور یہ دعویٰ کیا کہ یہ جمہوریت اور امن پسند لوگوں پر حملہ ہوگیا ہے۔ اس کے ساتھ امریکہ خاص طور پر فلسطینیوں کے حملوں کے خلاف "جوابی کارروائی” کے لیے اسرائیل کو فوجی مدد فراہم کرنے کا جواز محسوس کرتا ہے۔ اس پراپیگنڈہ کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، اصل میں یہ صریح جھوٹ ہے جو مغربی رہنماؤں اور ان کے میڈیا نے بے شرمی سے جاری رکھا ہوا ہے۔ اصل میںکئی دہائیوں سے اسرائیلی فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم، قتل عام، نسل کشی اور ناقابل تصور مظالم کا ارتکاب کر رہاہے اور یہ سات دہائیوں سے بغیر کسی وقفے کے منظم طریقے سے انجام دی جاری ہیں فلسطینی زمین کے علاوہ جو اسرائیلیوں نے فلسطین کے سابق قابضین کے ساتھ یکطرفہ معاہدوں کے ذریعے غیر قانونی طور پر حاصل کی تھی اسرائیلی آباد کار فلسطینیوں کی زمینوں اور کھیتوں پر زبردستی قبضہ کرکے فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے نکالا جا رہا ہے اور اسرائیلی حکام سے کسی قسم کامعاوضہ حاصل کرنے کی کسی بھی کوشش کو اسرائیلی سیکورٹی فورسز (IDF) کے ذریعے ناکام بنایا جا رہا ہے اورفلسطینیوں کو کارنر کرکے غزہ کو ایک کھلی جیل میں تبدیل کر دیا گیا مغربی طاقتیں اور امریکہ اس وقت تک نسل پرستی، نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے فریق ہیں جب تک وہ غاصب اسرائیلی حکومت کی حمایت کرتے رہیں گے ۔اس لیے ضروری ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان متحد ہوکر اس مسئلہ کو حل کروائیں جبکہ لبنان شام اردن مصر اور دیگر عرب ممالک یہ نہیں سمجھتے کہ اگر فلسطینی ختم ہو گئے تو اس کے بعد یہ تمام ملک بھی ختم کر دیے جائیں گے۔ فلسطینی مسلمانوں کی مزاحمت نے ہی باقی عرب دنیا کو بچایا ہوا ہے اسرائیل کے پھیلنے سے، ورنہ گریٹر اسرائیل کے نقشے میں دجلہ سے لے کر دریائے نیل تک سارا علاقہ آتا ہے اور شام سے لے کر مدینہ تک یہ جنگ نہ فلسطینیوں نے شروع کی ہے نہ حماس نے نہ ایران نے نہ حزب اللہ نے یہ جنگ اس دن شروع ہوئی تھی جب تاج برطانیہ نے یہودیوں کو فلسطین کا علاقہ دینے کے لیے پہلی جنگ عظیم برپا کی اور خلافت عثمانیہ کو تباہ کیا۔اب فلسطینی مزاحمت کریں یا نہ کریں اسرائیل کے یہودیوں نے عربوں کو ختم کرنا ہی ہے۔ فلسطینیوں اور عربوں کے پاس اب صرف دو ہی راستے ہیں ذلت اور رسوائی سے مارے جائیں یا شیروں اور دلیروں کی طرح لڑتے ہوئے اپنی زمین اپنی عزتوں اور اپنی تہذیب کی حفاظت کریں۔ ایک بات طے ہے کہ یہودی امن سے نہیں رہ سکتے اور نہ ہی وہ کسی عرب مسلمان کو امن سے رہنے دیں گے۔ یہی اب تک انہوں نے ثابت کیا ہے اور جب ایڈولف ہٹلر نے یہودیوں کو تباہ و تاراج کرکے جرمنی سے بھگایا تھا، اس وقت دنیا کا کوئی بھی ملک ان یہودیوں کو پناہ نہیں دے رہا تھا۔ امریکہ فرانس کیوبا، کینیڈا سمیت دیگر ممالک نے یہودی پناہ گزینوں سے کھچا کھچ بھرے جہازوں کو واپس کردیا۔ بالآخر یہ اپنے بڑے بڑے جہازوں پر مرقوم تحریر The German destroyed our families & Homes, "don’t you destroy our Hopes ( جرمنی نے ہمارے گھر بار اور اہل و عیال کو تباہ کردیا ہے آپ ہماری امید کو مت کچلنا) کا اشتہار لگائے پناہ گزین بن کر فلسطین سے مدد لینے کے لئے آئے جسے انسانیت کی بنیاد پر فلسطین نے یہودیوں کو پناہ دے کر نئی زندگی بخشی اور انہیں اپنی زمین گھربار دیے بعد میں یہی وہ صیہونی احسان فراموش پناہ گزین اسرائیلی یہودی ہیں جو اپنے محسن فلسطینیوں کومار کر احسان کا بدلہ چکارہے ہیں۔ 60لاکھ یہودیوں کو مارکر ایک تہائی آبادی ختم کرنے والے جرمن ایڈولف ہٹلر نے کچھ یہودیوں کو زندہ چھوڑتے ہوئے یہ تاریخی جملہ کہا تھا کہ ان کو زندہ اس لئے چھوڑ رہا ہوں تاکہ دنیا دیکھے کہ میں نے انہیں کیوں مارا تھااور اب دنیا نے دیکھ لیا کہ یہودی کتنے بڑے احسان فراموش ہیں جو اپنے محسنوں کو ہی کچلنے میں مصروف ہیں ۔