میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

جرات ڈیسک
جمعرات, ۱۳ اکتوبر ۲۰۲۲

شیئر کریں

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپنے ہنر سے برآمد ہوئے یا پھر سیاست کی مکروہ چالوں میں ایک بار پھر نظریہ ضرورت سے اُن کو رعایت ملی؟یہ محض اتفاق ہو سکتا ہے کہ لندن میں اُنہوں نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو کی تو 12/ اکتوبر کی تاریخ بھی دو روز ہی دور تھی۔ تقویم کی یہ تاریخ نوازشریف کی سیاسی زندگی کو نچوڑ دیتی ہے۔
نوازشریف 12/ اکتوبر کو جس انجام سے دوچار ہوئے، کیا اس نے پاکستان کے تب سب سے بڑے سیاسی رہنما میں کوئی ذہنی تبدیلی پیدا کی؟ وہ اب بھی بے ساکھیوں کے محتاج ہیں۔ عوام پر انحصار کرنے کو تیار نہیں، خود کو کسی مشکل میں مبتلا دیکھنا گوارا نہیں۔ نوازشریف کی بہادری کی تمام داستانیں وضعی ہیں۔ کرائے کے لکھاریوں اورمستعار زبانوں کی مرہونِ منت ہیں۔ درحقیقت اُنہوں نے ہمیشہ ہی رخصت کا راستا اختیار کیا۔ پاکستان پر شب خون مارنے کی تاریخ کبھی بھلائی نہ جاسکے گی۔ جنرل محمود جب ساتھی جرنیلوں اور کمانڈوز کے ساتھ 12/ اکتوبر کی شب وزیراعظم ہاؤس گئے تو کیا نہیں ہوا؟ پھر وہ رات گئے پنڈی کور کے میس میں لے جائے گئے، جہاں اُنہیں ایک کاغذ تھما دیا گیا تھا۔ یہ اسمبلیوں کے پرزے اڑانے کی دستاویز تھی، جس پر جناب کو دستخط کرنے تھے۔ نوازشریف کے حامی لکھاریوں نے متعدد مرتبہ لکھا، جناب نے دستخط نہیں کیے۔ یہ بھی اُن سے منسوب ہے کہ ”اوور مائی ڈیڈ باڈی“ کہہ کر کاغذ پھینک دیا۔ کہا ہوگا، جناب کہا ہو گا۔ مگر پھر کیا کیا؟ اوور مائی ڈیڈ باڈی کے الفاظ ایک کردار کا تقاضا کرتے ہیں۔ محترمہ کلثوم صاحبہ اپنے شوہر کو بچانے کی جدوجہد کے لیے باہر نکلیں۔ کیا یہ وقت جمہوریت کو مستحکم کرنے کا نہیں تھا؟ مگر یہ جدوجہد صرف نوازشریف کو جیل سے رہا اور آسودہ رکھنے کے سوا کوئی نتائج پیدا نہ کرسکی۔ یہ کس کا قصورتھا؟ نوازشریف نے اس پوری جدوجہد کو مقدمات سے نجات اور اپنی رہائی تک مرتکز رکھا۔ وہ اپنے پورے خاندان سمیت 9 /دسمبر 2000ء کی شب فوج سے خفیہ معاہد ہ کر کے سعودی عرب چلے گئے۔ طیارے سے محترمہ کلثوم نواز کی بند مٹھی سے ایک کاغذ پھینکا گیا، جس پر لکھا تھا کہ مسلم لیگ نون کی قیادت جاوید ہاشمی فرمائیں گے۔ کیا جماعتیں یوں چلتی ہیں؟ بھارے کے کالم نگاروں نے لکھا، مقدس سرزمین سے بلاوا آیا ہے۔ جب پاسپورٹ ملا تو مقدس سرزمین کو چھوڑنے میں ایک دن بھی نہیں لگایا، لندن جا کر آسودہ ہوئے۔ نوازشریف نے اگر مقدمات کا سامنا کیا ہوتا، ایک عوامی جدوجہد میں خود کو اُتارا ہوتا، جمہوریت کی دوشیزہ کو ذرا آبرو دی ہوتی، ”اوور مائی ڈیڈ باڈی“ کے اپنے ہی الفاظ سے چند ماہ مزید وفا کی ہوتی۔ عوام کو ایک مستقل فیصلہ کن جنگ کا عزم دیا ہوتا، تو پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی۔ عسکری اشرافیہ جو کچھ کرتی ہے، اس کی پشت پر سیاست دانوں کی یہی تہی دامنی ہوتی ہے۔ جسے استفہامیہ انداز سے روئیداد خان نے اپنی کتاب میں الفاظ دیے ہیں: بانی پاکستان نے پاکستان کے لیے ایک بد عنوان سول حکومت کے پیچھے پوشیدہ عسکری ریاست کا خواب تو نہیں دیکھا تھا“۔
نوازشریف بعد میں بھی شکار ہوئے، تو اس کے ذمہ دار خود تھے۔ پاناما لیکس جا کر اُن کی نااہلی پر منتج ہوا، اس کا شکوہ وہ کن سے کرتے ہیں اور کیوں کرتے ہیں؟ چار دہائیوں کی سیاست میں عدلیہ کی گھمن گھیریوں سے مقتدر بارگاہوں تک کون سا چکر تھا، جو وہ دیکھ نہیں چکے تھے۔ پھر وہ آج لندن میں کس چیز کا شکوہ کر رہے ہیں۔ اقتدار اس کے باوجود اُنہیں مل گیا تھا۔ وہ کیا درست کرسکے؟ مقدمات کب غلط نہیں بنتے؟ طیارہ سازش کیس سے پاناما لیکس تک وہ کسی مقدمے میں میرٹ سے پھنسے ہیں اور نہ میرٹ سے چھوٹے ہیں۔ اس کے پیچھے یہی خفیہ معاہدے ہوتے ہیں۔ نوے کے عشرے میں دوتہائی مینڈیٹ اور پھربنتی بگڑتی حکومتیں، دسمبر 2000ء میں سعودی عرب روانگی پھر لندن سے اگست 2007ء میں واپسی، پھر زرداری دور کے بعد حکومت کے حصول تک کیا سب کچھ لین دین اور سودے بازی سے حاصل نہیں کیا گیا؟ پھر سیاست کی باگ ہاتھ میں کیسے رہ سکتی ہے؟ پھر مجھے کیوں نکالا کا رونا کیسا؟ پھر ووٹ کو عزت دو کے نعرے کی تکریم کیا باقی رہ جاتی ہے؟ نوازشریف کے پاس 2019ء میں بھی عزیمت کا راستا موجود تھا۔ مگر وہ پھر ایک خاموش سمجھوتے کا شکار بنے۔ فہمی بدایونی نے بھی کیا کہہ دیا:

خوں پلا کر جو شیر پالا تھا
اس نے سرکس میں نوکری کر لی

رخصت کی راہ پر عزت نہیں ملتی، بس رخصت ہی ملتی ہے۔ عمران خان ایک پراجیکٹ کے طور پر ہاتھ کی چھڑی کی طرح گھمایا، جیب کی گھڑی کی طرح چلایا اور تالاب کی مچھلی کی طرح تیرایا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان کی موجودہ حالت نوازشریف سے زیادہ بہتر کوئی سمجھ سکتا ہے؟ یہی تو ہوتا آیا ہے، یہی تو ہوتا ہے۔ پھر کیا عمران خان اور کیا نوازشریف؟؟ نوازشریف جب نومبر 2019ء کو مختلف بیماریوں کے جھولے اور جھانسے میں یہاں سے جا رہے تھے، تو وہ اُس بندوبستی ہاتھ کو خوب سمجھتے تھے۔ اُنہیں جیل میں ڈالنے اور پھر وہاں سے لندن بھیجنے والے کون تھے یا ہیں؟ کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ جیل کے یہ شب و روز کس طرح پاکستان کی سیاسی تقدیر کو بدل سکتے تھے۔ مگر اُنہوں نے پھر رخصت کا راستا ہی چُنا! اب وہ واپسی کی راہ لے رہے ہیں تو بھی اُن کا تکیہ کن پر ہیں؟ اس کا وہ کوئی جواب نہ بھی دیں، مگر جاننے والے خوب جانتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ نوازشریف لندن سے پھر کن کے خلاف سوال اُٹھا رہے ہیں؟ اگر اس طرح وہ آ بھی گئے تو کیا پاکستانی سیاست کے زمین وآسمان بدل جائیں گے؟ نوازشریف پھر دائرے کے قیدی بن کر رہیں گے، پھر اُن کے اشرافی ذہن کو بے اختیاری کی گھٹن کا سامنا ہو گا۔ پھر کوئی ڈان لیکس نکلے گی۔ پھر کوئی پاناما کھڑا ہو جائے گا۔ کوئی نیا فضیتا ہوگا۔ کوئی سمعی فیتہ گونجے گا۔ کوئی بصری فیتہ آنکھوں کو گستاخیاں دکھائے گا۔ کوئی کِم بارکر اُٹھے گی اور تنہائیوں کے آلودہ لمحات کی بے خود داستان لکھے گی۔ خود کو بلیک بیری کی پیشکش کیے جانے کی لذیذ کہانی سنائے گی۔
پاکستانی سیاست کا یہی دائرہ ہے، اس دائرے میں رہ کر گھومتے رہنے سے نوازشریف پر زیادہ کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ وہ جاتی امراء میں زبردست کھانوں کے ساتھ لسی پیتے رہیں گے۔ اُنہیں تب کوئی بیماریاں بھی ان شاء اللہ نہیں ہونگیں۔ مگر وہ یہ دائرہ توڑنا چاہتے ہیں تو پھر اُن کا سامنا عمران خان سے نہیں، 12/اکتوبر سے ہوگا۔ بھلے سے وہ عمران خان کے خلاف لفظی بمباری کے پیچھے خود کو چھپاتے رہیں۔ سیاست میں آخر اداکاری کا بھی ایک ذرا کام ہوتا ہے، مگر یہ ہمیشہ موثر نہیں ہوتی۔ نوازشریف فیصلہ کریں کہ وہ اپنے ہنر سے برآمد ہوں گے یا رعایتوں میں زندگی کریں گے۔ میاں صاحب پھر بتائیے گا کہ ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

٭٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں