میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بچوں کا تحفظ ضروری ہے؟

بچوں کا تحفظ ضروری ہے؟

ویب ڈیسک
منگل, ۱۳ ستمبر ۲۰۲۲

شیئر کریں

 

میرا ایک دوست ایک بار اپنی جنسی بھوک مٹانے کے لیے کہیں منہ کالا کرکے آیا تھا۔ نوعمری
میں اس طرح کے واقعات میں سنسی خیزی اور تجسس فطرت کا تقاضاہے، میں نے بھی اس سے
کچھ پوچھا،، اس نے کہا کہ وہ لڑکی بہت گھبرائی ہوئی تھی، دو تین دوست تھے، وہ پسینے میں
شرابور تھی، اور منت کررہی تھی، اسے چھوڑ دیا جائے۔" جانے کسی مجبوری نے اسے اپنے جسم
کا سودا کرنے پر مجبور کیا ہوگا۔ مجھے آج بھی اس کے الفاظ یاد آتے ہیں تو میں لرز جاتا ہوں۔
میرا اسکول حیدرآباد کے اس علاقے میں تھا، جہاں رات کو راگ رنگ کی محفلیں سجتی،اور گلیوں
میں جسموں کے بیوپاری اور سوداگر گھومتے تھے۔ ہم ان گلیوں سے گزرتے ان خواتین کے چہرے
دیکھتے، مجھے ان کی مجبوریوں پر ہمیشہ ترس آیا، اور اس کاروبار سے ہمیشہ ایک نفرت میرے
دل میں قائم رہی۔
یہ تو مجبوری کا سود ا ، اور کاروبار ہے، جو اب مخصوص علاقوں سے نکل کر ہمارے پورے
معاشرے میں پھیل گیا ہے، اب سڑکوں کے کنارے، چوراہوں ، شاپنگ مال میں رات ہو یا دن یہ
کاروبار جاری ہے، لیکن اس کاروبار نے اس معاشرے میں زہر گھول دیا ہے۔ اب ہمارے بچے
گھروں میں بھی محفوظ نہیں رہے۔ ہر وقت ان کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ یہ بہت ضروری ہے، آپ کو
اس بارے میں آگاہ ہونا چاہیئے، اس کی روک تھام کے لیے کوئی فائر وال بنانی چاہیئے، ویڈیوز اور
موبائیل پر کڑی نظر رکھنی چاہیئے۔
دو تین دن سے میں ایک اضطراب کا شکار ہوں۔ ایک خوف، ایک واہمہ میرا پیچھا کرتا ہے،تین چار
دن پہلے ایک خبر پڑھی کہ ایک لڑکی کو تمام رات 20 افراد نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا اور پھر وہ
لڑکی دم توڑ گئی۔ یہ خبر کوئی بڑی سرخی، بڑی ہیڈ لائن ، بڑا سانحہ گ، اور بڑے واقعہ کے طور
پر میڈیا میں نہ سنائی دی اور نہ دکھائی گئی۔ کوئی بے وسیلہ، مانگنے والے، فٹ پاتھ پر بے آسرا
ہوگی، جس کی آواز کسی کو سنائی نہ دی۔ لیکن اس واقعے کی سفاکی ،بے دردی، ظلم نے مجھے
شدید دکھ میں مبتلا کردیا، آج ایک بڑے اخبار کے صفحہ اول پر ایسی ہی ہولناک خبر چند سطر میں
پڑھی۔ محمود آباد تھانے کی حدود میں ایک کالونی میں گھر کی سیڑھیوں سے 10 سالہ بچی کی
لاش ملی ہے،بچی کو ڈوپٹے سے پھندا لگا کر قتل کیا گیا تھا، یہ بچی دوپہر میں اپنے گھر میں
بالائی فلور پر رہائش پذیر ملازم کو کھانا دینے گئی تھی،ا?دھے گھنٹے تک جب وہ واپس نہیں ا?ئی تو
گھر والے اسے دیکھنے اوپر گئے تو سیڑھیوں پر بچی کی لاش پڑی تھی، ملزم نے بتایا کہ کا بچی
جب اسے کھانا دینے کے لیے آئی تو اس نیبچی سے زبردستی کی کوشش کی جس پر بچی نے
چیخنا شروع کر دیاجس پر ملزم نے دروازہ بند کر کے بچی کے دوپٹہ سے ہی گلا دبا کر قتل کر
دیا۔ملزم نے بچی کو قتل کرنے کے بعد ہوس کا نشانہ بنایا۔
پاکستان میں بچوں سے جنسی تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ گزشتہ سال 92 سے
زیادہ بچوں کو ریپ کے بعد قتل کر دیا گیا۔
بچوں کے ساتھ ریپ کے واقعات کے اعداد شمار ہمارے یہاں کہیں ریکارڈ نہیں کیے جاتے، کچھ این
جی او اس بارے میں کام کرتی ہیں ، اور ہر سال اس کی رپورٹ جاری کرتے ہیں، اس این جی او
کی رپورٹ کے مطابق ملک میں سنہ 2021 میں بچوں سے جنسی تشدد کے کل 3852 کیسز
سامنے آئے ہیں ان میں سے 2275 واقعات ریپ کے تھے۔رپورٹ کے مطابق ‘بچوں سے جنسی تشدد

کے واقعات 30 فیصد بڑھ گئے ہیں۔ جن میں بچوں سے ریپ جنسی تشدد، غیر اخلاقی ویڈیوز، 87
واقعات میں ریپ کے بعد قتل جبکہ 68 واقعات میں بچوں کے قریبی رشتے دار ملوث پائے گئے ہیں"
یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کا تحفظ درکار ہے، ہمیں انھیں ان واقعات سے آگاہ کرنے،
انھیں یہ بتانے اور سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیئے کہ کوئی انھیں بری نیت سے ہاتھ لگائے تو وہ
کسی طرح اپنا دفاع کریں، ہمارے قانون کو بھی اس بارے میں حرکت میں آنا چاہیئے۔ معاشرے میں
سفاکیت بڑھتی جارہی ہے۔ لوگ حرص اور ہوس میں اندھے ہورہے ہیں۔ ہمیں یہ کام مل جل کر کرنا
ہوگا، والدین کو بچوں پر کڑی نظر رکھنی ہوگی، انھیں باہر جانے اور اکیلے جانے میں احتیاط کی
ضرورت ہے۔ یہ کام ایسا ہے جو توجہ چاہتا ہے، ذرا اپنی مصروفیت سے وقت نکالیں، معاشرے کو
سدھارنے کاکام آپ نہیں کریں گے توکون کرے گا،ہمیں اپنے بچوں کاتحفظ کرناہی ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں