ڈپٹی میئر سیکریٹریٹ میں بریگیڈئیر شہزاد سلیم کا دفتر قائم
شیئر کریں
(رپورٹ۔اسلم شاہ) نیشنل ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی نے کراچی کے بلدیاتی اور شہری اداروں کی نگرانی اور عملدآمد کے کام کا آغاز کرتے ہوئے بلدیہ عظمی کراچی کے 22ڈیپارٹمنٹ سمیت36شعبہ جات کو چار انتظامی یونٹس میں تقسیم کردیا ہے، ایڈمنسٹریشن، فنانس، لینڈ ریونیو انفورسمنٹ اور میونسپل تمام شعبہ جات کا کرنل رینک کا افسر نگران ہوگا۔مزید برآں کچھ ڈیپارٹمنٹس میں ایک سے پانچ گریڈ کے ملازمین کی فہرست کی جانچ پڑتال کی جارہی ہے جبکہ 38بڑے نالوں کے علاوہ 514دیگر برساتی اور سیوریج نالوں کی تفصیلات مرتب کی جارہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق آئندہ ایک دو روز میں پہلے جنگی بنیاد پر پہلے مرحلے میں برساتی اور سیوریج نالوں کی صفائی کے کام کا آغاز ہونے کی توقع ہے ،بعدازں شہر سے کچرا اُٹھانے اور ٹھکانے لگانے کے کاموں کو ہنگامی بنیادوں پر شروع کیا جائے گاکراچی کو صاف اور ماحولیاتی آلودگی سے پاک کیا جائے گا۔اس ضمن میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے کراچی کے بلدیاتی اور شہری اداروں کے سربراہان کی مشاورت کا عمل مکمل ہوچکا ہے۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ، پورٹ قاسم اتھارٹی،چھ کنٹونمنٹ بورڈز کے چیف ایگز یکٹوز، پاکستان ریلوے ، پاکستان اسٹیل ملز،کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، سند ھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ اتھارٹی،سند ھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، ڈسٹرکٹ کونسل کراچی، چھ ضلعی میونسپل کارپوریشن، کمشنر و ڈپٹی کمشنر ز سمیت انتظامی امور کے علاوہ تمام ڈیولپمنٹ اتھارٹیز کے متعلقہ افسران سے ایک اجلاس میں مشاورت کے ساتھ نئے منصوبے سے سب کو آگاہ کردیا گیا ہے۔ صفائی کے ساتھ گوجر نالے اور محمود آباد نالے سے تجاوزات ہٹانے کے بعدنالے اور سڑک کے ایک ارب 78کروڑ روپے سے منظورشدہ منصوبہ پر عملدرآمد کیا جائیگا،13.5کلو میٹر طویل گوجر نالے کی تعمیرات پر 89کروڑ روپے خرچ ہوں گے ،23کلومیٹرطویل منظورکالونی ومحمود آباد نالے پر 98کروڑ روپے خرچ کیا جائے گا،دونوں منصوبوں کے لیے سندھ حکومت نے 30کروڑ روپے جاری کیے تھے۔ منصوبہ کو دسمبر 2018ء میں مکمل کیا جانا تھا۔منصوبہ کے پروجیکٹ ڈائریکٹر میونسپل کمشنر بلدیہ عظمی کراچی ڈاکٹر سیف الرحمان ہیں، تاخیر سے منصوبہ کے اخراجات میں اضافہ کا خدشہ ہے۔ نالوں پر ورلڈ بینک سے ملنے والے اربوں روپے فنڈز خرچ منتقل ہونے کا امکان ہے۔ واضح رہے کہ بریگیڈئیرشہزادسلیم کی سربراہی میں چار کرنل اور چارمیجرز کی سطح پر حاضرسروس افسران نے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں، ڈپٹی میئر سیکریٹریٹ میں بریگیڈئیر شہزاد سلیم نے سندھ کوارڈینیشن کمیٹی کا دفتر قائم کرلیا ہے۔ افسران کو بھی ہدایت کرتے ہوئے ان کا کہناتھا کہ ہرافسر اور عملہ اپنی ذمہ داری احسن طریقہ سے انجام دے گاکسی قسم کی کوتاہی اور لاپرواہی برداشت نہیں کی جائے گی۔سند ھ حکومت کے رویہ، بدنیتی کی وجہ سے کراچی سمیت ملک بھر میں یہ تاثر زور پکڑ رہا تھا کہ کراچی کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے ، سند ھ حکومت نہ تو کراچی کے بلدیاتی اداروں کو اختیاردینے پر تیار ہے نہ صوبائی فنانس کمیشن ایوارڈز کے تحت ان کا جائز حصہ دینا چاہتی ہے ، کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ اداروں کے اختیارات کی تقسیم کا ہے۔ کراچی دنیا کا اپنی نوعیت کا واحدمیگا سٹی ہے جہا ں ایک شہر میں 17لینڈ کنٹرول ادارے ،21میونسپل ادارے بیک وقت کام کر رہے ہیں،کراچی ساڑھے تین کروڑ سے زائد آبادی کا شہر بن چکا ہے جس کا کوئی ماسٹر پلان نہیں،کراچی میں 12سال سے ٹرانسپورٹ کے نام پر دھوکا اور فراڈ جاری ہے۔ 50 سال سے زائد عرصے سے کچی آباد ی، گوٹھ آباد،بورڈ آف ریونیو کی غیر قانونی زمینوں پر قبضہ جاری ہے اور بجلی کے بحران سمیت ٹرانسپورٹ، سیوریج، پانی اور کچرے کے مسائل جوں کے توں ہیں۔