دلچسپ کہانیاں۔۔ (علی عمران جونیئر)
شیئر کریں
دوستو،بچپن سے لے کر پچپن تک ہر انسان کو کہانیوں سے ضرور واسطہ پڑتا ہے، بچپن میں تو ضد کرکے والدین یا گھر کے بزرگوں سے کہانیاں سناکرتے تھے، کچھ بڑے ہوئے تو کہانیوں کے کتابیں ڈھونڈڈھونڈ کر اسے پڑھ کر اپنا مطلب پورا کرنے لگے، پھر کچھ اور بڑے ہوئے تو اپنے اطراف روز کسی نے کسی کی کہانی سننے کو ملنے لگی، شادی ہوئی تو مردحضرات روزانہ اپنے بیگمات کو کہانیاں سنانے لگے، پھر جب ان کے بچے ہوئے تو بچوں کو کہانیاں سنانے لگے ہیں، بچے بڑے ہوئے تو وہ اپنے والدین کو کہانیاں سنانے لگ گئے۔۔بس اسی کا نام زندگی ہے۔۔دنیا گول ہے، جیسا کریں گے ویسا بھریں گے، جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے۔۔ چلیں آج ہم آپ کو چند ددلچسپ کہانیاں سناتے ہیں،پھر جمعہ مبارک کے حوالے سے آخر میں کچھ اہم باتیں کریں گے۔۔ چلیں تو پھر غیرسیاسی کالم کا آغاز کرتے ہیں۔۔
کہتے ہیں کہ ایک بیوہ نے شادی کی عمر کو پہنچی ہوئی اپنی حسین و جمیل بیٹی کے لیے حق مہر کا مطالبہ مبلغ پانچ لاکھ ریال کر رکھا تھا۔ کئی خواہشمند اتنا حق مہر سن کر ویسے ہی دستبردار ہو چکے تھے۔ اپنی ضد کا پکا ایک لڑکا بمشکل تین لاکھ ریال اکٹھے کر پایا۔ پیسے لیکر مزید کی مدد مانگنے کے لیے سیدھا اپنے باپ کے پاس پہنچا اور کہا۔۔ ابا جی، میرا کچھ کر لو، میں اس’’ کاکی‘‘ پر فدا ہو گیا ہوں، مگر اس کی ماں ہے کہ پانچ لاکھ ریال حق مہر سے ایک فلس کم پر بھی بات کرنے کو تیار نہیں۔ اب آپ ہی کچھ کیجئے۔۔ باپ نے بیٹے کی سنجیدگی کو دیکھا اورسرکھجاتے ہوئے کہنے لگا۔۔ ٹھیک ہے پْتر، چل لا پیسے۔کچھ کرتے ہیں تیرا بھی۔ ۔۔ دونوں باپ بیٹا پیسے لیکر بیوہ کے گھر پہنچے۔ سلام و دعا کے بعد باپ نے خاتون سے کہا۔۔ میں آپ سے بات کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ میری آپ سے ایک گزارش ہے کہ کہ جب تک میں اپنی بات مکمل نہ کر لوں آپ میری بات نہ کاٹیں۔ ۔ خاتون نے کہا۔۔ جی بسم اللہ ، کہیئے۔لڑکے کے باپ نے کہا۔۔ میرا بیٹا آپ کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہے اور یہ ایک لاکھ ریال نقد حق مہر ساتھ لایا ہے۔ ۔خاتون نے گڑبڑاتے ہوئے کہا۔۔ مگر مجھے اپنی بیٹی کے حق مہر میں پانچ لاکھ ریال سے ایک فلس کم بھی قبول نہیں ہے۔ ۔۔لڑکے کے باپ نے کہا۔۔ محترمہ آپ سے گزارش کی تھی کہ آپ مجھے بات پوری کرنے دیجئے گا۔ ۔۔خاتون نے معذرت کرتے ہوئے کہا۔۔ جی پوری کریں اپنی بات۔ ۔۔لڑکے کے باپ نے کہا۔۔ آپ بذات خود ایک انتہائی خوبصورت اور جوان جہان عورت ہیں۔ میں آپ کو بھی ایک لاکھ ریال حق مہر ادا کرنا چاہتا ہوں۔ آپ میرے حق شرعی میں آ جائیے۔ ۔۔یہ سن کر خاتون کی خوشی سے باچھیں کھل کر کانوں کو جا لگیں۔ بمشکل اپنے جذبات کو دباتے ہوئے کہا۔۔ اللہ آپ کا آنا قبول کرے۔ مجھے آپ کی دونوں شرطیں قبول ہیں۔ ۔ باپ بیٹا خوشی خوشی باہر نکلے تو ہمسائیوں نے پوچھا۔۔ ایسا کیسے ہوگیا؟ یہ تو ناممکن نظر آتا تھا۔ ۔لڑکے کے باپ نے کہا۔۔ مال تھوک میں خریدتے ہوئے اور پرچون میں خریدتے ہوئے آخر ریٹ میں کچھ تو فرق پڑتا ہے ناں۔ ۔۔ لڑکے نے ہلکا سا گلا صاف کرتے ہوئے باپ سے کہا۔۔ ابا جی، وہ ایک لاکھ ریال جو بچ گئے ہیں، پھر وہ تو مجھے واپس دے دیجئے ۔۔۔باپ چہرے پر مکروہ مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہنے لگا۔۔ ناں پْتر اوئے، ابھی ایک بڑا اور اہم مرحلہ تو باقی پڑا ہوا ہے۔ یہ ایک لاکھ ریال جا کر تیری ماں کو دینا پڑے گا تاکہ وہ بھی تو راضی ہو۔۔
گزشتہ دنوں بھارتی خلائی پروگرام ناکامی کا شکار ہوا، جس پر سوشل میڈیا پر کافی لے دے رہی، ہماری قوم کے کچھ جذباتی نوجوان مودی سرکار کا حوصلہ بڑھانے میں مصروف رہے کہ چلو ، کوئی گل نہیں اگلی واری تسی پہنچنا ای پہنچنا۔۔ جب یہ حالات دیکھے تو ہمیں ایک واقعہ یاد آگیا۔۔ ایک بار ناسا کے سائنسدان نہایت پریشانی کے عالم میں ایک شٹل کے گرد کھڑے تھے اس شٹل نے مریخ مشن پر روانہ ہونا تھا اور اس کی روانگی میں صرف دس منٹ رہ گئے تھے مگر وہ اسٹارٹ ہو کے نہیں دے رہی تھی۔ آج امریکاکی ساکھ داوپہ لگی ہوئی تھی اور کوئی دیر تھی کہ سائنسدان اس کی ناکامی کا اعلان کرتے کہ اچانک ایک پاکستانی ٹہلتا ہوا اس طرف آ نکلا۔ اس نے ان لوگوں سے پریشانی کا سبب پوچھا تو انہوں نے اسے ساری بات بتائی۔۔۔ پاکستانی نے یہ سن کر کہا کہ اگر اس کے مشورے پر عمل کیا جائے تو یہ شٹل اسٹارٹ ہو سکتی ہے۔ سائنسدانوں نے کہا۔۔ جلدی سے بولو،ہمارے پاس ٹائم تھوڑا رہ گیا ہے، اگر یہ شٹل وقت پر روانہ نہ کرسکے تو دنیا بھر میں ہمارے خلائی پروگرام کی سخت بدنامی ہوگی۔۔پاکستانی شٹل کے گرد دائرے کی شکل میں گھومتے ہوئے ،سرکھجارہا تھا، پھر اچانک رک کر بولا۔۔ اس شٹل کو اپنی طرف ساٹھ کے زاویے پر جھکایا جائے اور پھر سیدھا کر کے اسٹارٹ کیا جائے۔۔امریکیوں نے ایسا ہی کیا اور شٹل اسٹارٹ ہوگئی۔ وہ خوشی سے اچھل پڑے ، انہوں نے پاکستانی سے پوچھا کہ آپ سائنسدان ہیں کیا۔؟؟۔۔۔پاکستانی کہنے لگا۔۔ نہیں یار میں تو قانون کا طالب علم ہوں مگر جب ہمارے ملک میں موٹرسائیکل اسٹارٹ نہیں ہوتا تو ہم یہی طریقہ کرتے ہیں۔۔تو بہنوں اور بھائیوں ۔۔یہ پاکستانی آگے چل کر وزیر ’’سینس‘‘ بنا۔۔
آخر میں جمعہ مبارک کے حوالے سے کچھ کام کی باتیں ہوجائیں۔۔ ہم نے اکثر سنا ہوگا کہ لوگ یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ ،آج کے دور کے مطابق دین میں تبدیلی وقت کی ضرورت ہے۔۔اللہ معاف کرے ، ایسی بات سوچنا بھی نہیں چاہیئے۔۔ اللہ پاک قرآن پاک کی سورۃ معائدہ کی آیت نمبر تین میں فرماتا ہے۔۔(ترجمہ)آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔۔۔جب اللہ سبحانہ تعالیٰ نے چودہ سو سال پہلے ہمارے لیے دین کو مکمل کردیا تو پھر دنیا میں کس کی ہمت اور جرات ہے کہ وہ دین میں تبدیلی کا سوچے بھی۔۔؟؟ اسی طرح سے اکثر لوگ کہتے ہیں۔۔ آخر اللہ کو ہماری یاد آہی گئی۔۔۔ایسی بات سے کہنے سے پرہیز کرنا چاہیئے۔۔اللہ پاک سورۃ مریم کی آیت چونسٹھ میں فرماتا ہے۔۔ تمہارا پروردگار بھولنے والا نہیں۔۔اسی طرح سے کچھ لوگ زمانہ خراب ہے، زمانہ خراب ہے کی تکرار کرتے نظر آتے ہیں۔۔حدیث قدسی ہے کہ۔۔ابن آدم مجھے اذیت دیتا ہے۔ وہ زمانے (وقت) کو گالی دیتا ہے جب کہ زمانہ ’’میں ‘‘ ہوں ہر حکم میرے ہاتھ میں ہے اور میں ہی دن رات کو پلٹاتا ہوں۔۔۔پھر خواتین کی اکثریت میں تو یہ چلن عام ہے کہ وہ کسی کو بھی منحوس ہونے کا لیبل تھوپ دیتی ہیں۔۔ یہ بھی انتہائی غلط اور لغو طریقہ ہے۔۔اسلام میں نحوست اور بدشگونی کا کوئی تصور نہیں، یہ محض توہم پرستی ہے۔ حدیث شریف میں بدشگونی کے عقیدہ کی تردید فرمائی گئی ہے۔ سب سے بڑی نحوست انسان کی اپنی بدعملیاں اور فسق و فجور ہے۔ قرآن پاک کی سورۃ النسا آیت اناسی میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔۔۔’’تجھے جو بھلائی ملتی ہے وہ اللہ تعالٰی کی طرف سے ہے اور جو بْرائی پہنچتی ہے وہ تیرے اپنے نفس کی طرف سے ہے،‘‘۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔