میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
برطانیہ میں اسلامی فوبک طاقتیں

برطانیہ میں اسلامی فوبک طاقتیں

ویب ڈیسک
منگل, ۱۳ اگست ۲۰۲۴

شیئر کریں

جاوید محمود

اسلام کی تعلیمات میں اس بات کو واضح طور پر کہا گیا ہے کہ کسی شخص کا جھوٹا ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات کوپھیلاتا ہو اور اس بات پہ زور دیا گیا ہے کہ کسی بھی بات کو آگے پہنچانے سے پہلے اس کی اچھی طرح سے تصدیق اور تحقیق کر لی جائے ۔آج کل برطانیہ میں جو ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں اور فسادات رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں، اس کے پیچھے چند لوگوں نے ایک خبر کو بغیر تحقیق ، تصدیق کے سوشل میڈیا میں پھیلانا شروع کر دیا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ برطانیہ کے شمال مغرب میں لیور پول کے قریب واقع شہر ساؤتھ پورٹ میں ایک حملہ آور نے چاقو سے حملہ کر کے تین نابالغ بچیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ 17سالہ ایکسل رودا کو بانا پر معروف پاپ اسٹار سٹیلر سوفٹ کی تھیم پر منعقدہ ایک پارٹی میں قتل اور قتل کی کوشش کے الزامات ہیں۔ اس حملے میں تین معصوم بچیاں ہلاک ہو گئیں جبکہ دس دیگر افراد زخمی بھی ہوئے۔ اس واقعے کے بعد ملزم کی شناخت کے حوالے سے غلط معلومات پر برطانیہ کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ پولیس نے مظاہروں میں پرتشدد سرگرمیوں کے ذمہ داری انگلش ڈیفنس لیگ پرعائد کی ہے جو کہ 15سال قبل قائم ہونے والی ایک مسلم مخالف تنظیم ہے۔ اس کے حامیوں نے ساؤتھ پورٹ اور سینڈر لینڈ میں مساجد کو نشانہ بنایا جس کی وجہ سے مسلم برادری خوفزدہ ہے اور مذہبی مقامات پر سیکیورٹی بڑھا دی گئی۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
ایک غیر جانبدار تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق برطانیہ کی برسراقتدار جماعت میں پایا جانے والا اسلاموفوبیا ایک مسئلہ ہے۔ تاہم رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک نجی سطح پر تو ہے لیکن ادارہ جاتی سطح پر ایسا نہیں ہے۔ برطانیہ کی مرکز سے دائیں جانب جھکاؤ رکھنے والی حکمران جماعت کو گزشتہ کئی برسوں سے مسلم مخالف جذبات رکھنے جیسے الزامات کا سامنا ہے۔ ایسے الزامات نہ صرف سابق وزیر اعظم بورس جانسن بلکہ جماعت کے کئی دیگر اراکین کے خلاف بھی عائد کیے جا چکے ہیں۔ ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق بورس جانسن نے 2018ء میں پردہ کرنے والی مسلمان خواتین کا موازنہ بینک ڈکیتوں اور لیٹر باکسز سے کیا تھا۔ اس حوالے سے شائع ہونے والی خبروں اور کالموں سے اس تاثر کو تقویت ملی کہ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ایک مسئلہ ہے ۔برطانیہ کے مساوات اور انسانی حقوق کمیشن کے سابق کمشنر سورن سنگھ کی سربراہی میں ہونے والی تحقیقات سے پتہ چلا ہے پارٹی میں مسلم دشمن جذبات ایک مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ یہ پارٹی کے لیے نقصان دہ اور اس طرح معاشرے کا ایک اہم طبقہ الگ تھلگ ہو جاتا ہے۔ فورا سنگ کے خیال میں یہ رپورٹ پارٹی کے لیے بہت زیادہ تکلیف دہ ثابت ہوگی ۔تاہم انہوں نے امید ظاہر کی کہ رپورٹ میں کی گئی سفارشات کو عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ اس تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق 2015کے بعد سے مسلم مخالف رویوں کے حوالے سے بہت زیادہ شکایات جمع ہو چکی تھیں۔ مجموعی طور پر 1418 شکایات موصول ہوئی تھیں اور ان میں سے 727واقعات امتیازی سلوک سے متعلق تھے جبکہ دو تہائی سے زیادہ واقعات 496 اسلام سے جڑے ہوئے تھے۔ اس رپورٹ میں سابق وزیراعظم بورس جانسن نے بتایا کہ وہ 2018 میں اپنی طرف سے استعمال کردہ الفاظ کے حوالے سے شرمندہ ہیں اور بطور وزیراعظم وہ ایسے الفاظ دوبارہ استعمال نہیں کرنا چاہیں گے۔ 2016کے میئر کے متنازع انتخابات میں شامل امیدوار زیق گولڈ اسمتھ کے اس بیان کو بھی شامل کیا گیا جو انہوں نے اپنے حریف امیدوار صادق خان کے حوالے سے دیا تھا۔ انہوں نے صادق خان کا تعلق انتہا پسندوں سے جوڑنے کی کوشش کی تھی، تاہم گولڈ اسمتھ نے بھی تفتیش کے دوران کہا کہ وہ مسلم مخالف جذبات پیدا کرتے ہوئے یا ایسے جذبات کو استعمال کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل نہیں کرنا چاہتے تھے ۔
رکن پارلیمان اور سابق کنزرویٹو وزیر خزانہ ساجد جاوید نے اس رپورٹ کے مندر جات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ یہ رپورٹ مسلم مخالف جذبات کی پریشان کن مثال ہے ۔ساجد جاوید ایک پاکستانی تارک وطن کے بیٹے ہیں۔ برطانیہ سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق وہاں حالیہ پرتشدد مظاہروں کے بعد مزید ممکنہ فسادات اور جھڑپوں سے نمٹنے کے لیے رائٹ پولیس کے ہزاروں اہلکار تیار ہیں۔ آنے والے دنوں میں ملک میں انتہائی دائیں بازو کے گروپ 23سے زائد مقامات پر مظاہرے کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے ٹیلی گرام کے ادارے برطانوی میڈیا کو موصول ہوئی تفصیلات کے مطابق ان مظاہروں کے شرکا ء بنیادی طور پر امیگریشن کے حوالے سے کام کرنے والے وکلا اور ان عمارتوں کو نشانہ بنائیں گے جہاں پناہ گزیں مقیم ہیں۔ مسلمانوں اور پناہ گزینوں کے خلاف مظاہروں اور فسادات کو برطانیہ میں گزشتہ تقریبا ایک دہائی کے عرصے میں ہونے والی بدترین بد امنی قرار دیا جا رہا ہے۔ ان فسادات کے دوران مختلف شہروں میں مظاہرین نے پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کیا۔ گاڑیوں کو نذر آتش کیا اور مساجد پر حملے کیے۔ انہوں نے کم از کم ایسے دو ہوٹلوں پر بھی حملے کیے جہاں پناہ گزیں مقیم ہیں۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے چھ ہزار خصوصی پولیس اہلکاروں کو تیار کیا جا رہا ہے جبکہ اب تک سینکڑوں افراد کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔ اسی دوران کئی ممالک نے اپنے شہریوں کو برطانیہ سفر کرنے سے متعلق خبردار کیا ہے۔ برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر نے خبردار کیا ہے کہ ان لائن پرتشدد رویوں کو ہوا دینے والوں سمیت بدامنی میں ملوث افراد کو قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک کے 99.9 فیصد افراد احساس تحفظ چاہتے ہیں اور ہم اس بدامنی کے خاتمے کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں گے۔ اس کے علاوہ برطانوی وزیر برائے انصاف بائیڈی الگ ڈر کے مطابق حکومت نے جیلوں میں 500مزید قیدیوں کے لیے جگہ کی فراہمی کے حوالے سے اقدامات کیے ہیں ۔پولیس نے حالیہ بدامنی کے لیے 15 سال قبل قائم ہونے والی اور اب غیر فعال دائیں بازو کی اسلام مخالف تنظیم انگلش ڈیفنس لیگ سے منسلک افراد کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
حالیہ واقعات وزیر اعظم کیئرسٹارمر کے لیے ایک امتحان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیبر پارٹی کے رہنما نے پچھلے ماہ ہی منعقدہ انتخابات میں قدامت پسندوں کو شکست دے کر وزارت عظمی کا منصب سنبھالا ہے ۔انہوں نے بدامنی کے لیے بدمعاشوں کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔ اور کہا ہے کہ انہوں نے غم کے موقع پر نفرت پھیلائی ہے ۔وزیراعظم کے بقول بدامنی کے ذمہ داران کو نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ انتہائی دائیں بازو کے پرتشدد مظاہروں اور متحدہ مساجد پر حملوں کے بعد برطانوی مسلمان خوف کا شکار ہیں۔ دوسری جانب مساجد اور اسلامی مراکز کی حفاظت کے لیے مقامی غیر مسلم افراد بھی مسلمانوں کا ساتھ دے رہے ہیں ۔برطانیہ کی تقریباد وہزار مساجد میں سے زیادہ تر مساجد سیکیورٹی گارڈ کو ادائیگی کرنے کی استطاعت نہیں رکھتی ہیں۔ کونسل آف برطانیہ کا اسلامک فوبک مظاہروں کے بارے میں کہنا ہے کہ یہ دیکھنا واقعی حیران کن ہے کہ یہ کتنے مربوط اور منصوبہ بند مظاہرے ہیں۔ اتنی تیزی سے غلط معلومات پھیلانے والی جعلی خبروں کی مہم کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت اچانک نہیں آئی اس کو ہوا دینے میں ان سیاسی رہنماؤں کا بھی کردار ہے جو مہاجرین مخالف اور اسلامو فوبک بیانات دیتے رہتے ہیں۔ امیگریشن مخالف اور انتہائی دائیں بازو کی ریفارم یو کے پارٹی کے قانون ساز لی اینڈرسن کے ایک بیان نے رواں سال کے آغاز پر ایک تنازع اس وقت کھڑا کردیا تھا جب انہوں نے لندن کے میئر صادق خان پر اسلام پسندوں کے زیر کنٹرول ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔ گزشتہ ماہ کے انتخابات میں یہ پارٹی صرف پانچ سیٹیں ہی جیت سکی ہے۔ تارکین وطن کے بارے میں استعمال ہونے والے بیانات ان لوگوں کو جو انتہا پسند ہیں، انہیں باہرآنے کے لیے زیادہ حوصلہ افزائی کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ برطانیہ کے بگڑتے ہوئے حالات کی روشنی میں امریکہ، ملیشیا ،انڈونیشیا ،ترکی اور دیگر ممالک نے ایڈوائزری جاری کی ہے جس میں اپنے شہریوں کو محفوظ مقامات پہ رہنے کو کہا ہے جبکہ حکومت پاکستان کی طرف سے کسی قسم کی کوئی ایڈوائزری جاری نہیں کی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں