بدعنوان عناصر کی دوبارہ اقتدار واپسی کے خطرات
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سابقہ حکمرانوں کا بنیادی نظریہ قرضہ اور کرپشن تک محدودتھا۔کرپشن میں کمی آئی نہ مہنگائی کا زور ٹوٹا۔ ڈالر کی اڑان جاری ہے۔ زمانہ بدل گیا، دنیا ترقی کر رہی ہے اور پاکستان میں حکمرانوں کی نااہلی، بدانتظامی اور ذاتی مفادات کی لڑائی کی وجہ سے ریورس گیئر لگا ہوا ہے۔یہ لوگ دوبارہ اقتدار میں آکر مزید لوٹ کھسوٹ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے پارلیمنٹ سے قانون سازی بھی اپنے مفادات کیلئے کرائی ہے۔ قوم نے سب کو آز ما لیا۔ 75برسوں میں تمام تجربات ہوئے۔ عوام کی حالت نہیں بدلی۔ ملک قرضوں کے پہاڑ کے نیچے ہے ۔ آنے والی نسلیں بھی مقروض ہوگئیں۔نام نہاد جمہوری حکومتوں اور فوجی مارشل لاز کی وجہ سے وسائل سے مالا مال ملک کا ہرشعبہ تباہ ہوگیا۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب نے گزشتہ پانچ برسوں کو ملکی تاریخ کا بدترین دور قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکمرانوں نے اپنے مفادات کیلئے کام کیا۔ قوم پی ڈی ایم، پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کی حکومتوں کے اعمال کا خمیازہ کئی عشروں تک بھگتے گی۔ اسمبلیوں کے خاتمہ پر عوام کے کندھوں سے بوجھ ہلکا ہوا ہے۔ سیاست چند خاندانوںکے گرد گھومتی ہے۔ انصاف کے اداروں پر حیرانی ہے کہ جیسے ہی کوئی اقتدار میں آتا ہے اس کے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ قوم نے اپنی تقدیر کا فیصلہ خودکرنا ہے۔ آزمائے ہوئے چہروں کو مزید نہ آزمایا جائے۔ لوگ ووٹ کی طاقت سے ظالموں اور لٹیروں کا احتساب کریں۔ یہ ملک شہزادے اور شہزادیوں کی حکمرانی کے لیے نہیں بنا۔ عام پڑھے لکھے شخص کو اسمبلیوں میں ہونا چاہئے۔ انصاف اور احتساب نہیں چل چلاؤاور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا نظام ہے۔ 24کروڑ عوام کا ملک ایڈہاک ازم کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ حکمران سیاسی جماعتوں نے جمہوریت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔جناب سراج الحق نے اس امید کا اظہار کیا کہ نگران حکومت غیرجانبدار ہو کر مقررہ آئینی مدت میں صاف اور شفاف الیکشن کا انعقاد یقینی بنائے گی۔ عوام سے اپنے نمائندے چننے کا حق چھینا گیا تو جماعت اسلامی مزاحمت کرے گی۔ عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن آئین کی پاسداری کرتے ہوئے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کریں۔ دو وزرائے اعظم کی حکومتوں میں معیشت تباہ ہوئی،مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن میں اضافہ اور دہشت گردی اور بدامنی کا دوبارہ جنم ہوا۔ پارلیمنٹ نے ربڑا سٹمپ کا کردار ادا کیا۔ معاشرے میں پولرائزیشن بڑھی اور سیاسی افراتفری پھیلی۔ خیبر پی کے اور بلوچستان بدامنی کی آگ میں جل رہے ہیں۔ لوڈشیڈنگ جاری ہے اور چترال سے کراچی تک ملک کا ہر شہری پریشان ہے۔ جماعت اسلامی نے فیصلہ کیا ہے کہ آیندہ انتخابات میں کسی سے اتحاد نہیں کرے گی۔ ترازو کے نشان پر کرپشن فری اسلامی فلاحی پاکستان کے منشور کے تحت انتخابات میں جائیں گے۔ جماعت اسلامی اقتدارمیں آکر اقلیتوں کے لیے پاکستانی برادری کا ٹائٹل استعمال کرے گی اور ان کے جان، مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔ اب ملک کو بچانے کا واحد راستہ اسلامی نظام ہے جو صرف جماعت اسلامی ہی دے سکتی ہے۔
وطن عزیز اور ہماری اسلامی ریاست قیام پاکستان کے مقاصدکھو رہی ہے۔ آزادی کی حفاظت، استحکام اور خوشحالی کے لئے پوری قوم کی متحدہ جدوجہد ناگزیر ہے تا کہ بگڑتے حالات، بکھرتا شیرازہ، دو قومی اسلامیہ نظریہ کی بنیاد پرازسرنومتحرک کیا جائے۔ قومی آمریتوں، اسٹیبلشمنٹ، ریاستی، سیاسی انتخابی بندوبست اور اقتدار پرستی میں پاپولر نمائشی قیادت نے پاکستان کے وجود کو بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ ہوس، اقتدار اور اپنے اپنے مفادات کے تحفظ، اختیارات کے غیرقانونی استعمال کے عمل نے ریاستی سرکاری سیاسی انتخابی پارلیمانی اداروں کو تباہ کر دیا ہے اور قومی سلامتی آزاد مختاری پرکمپرومائز کیاہے۔پاکستان اپنی اصل کے اعتبار سے ایک منفرد اور امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان صرف خطہ زمین نہیں نظریہ پہلے اور مملکت بعد میں ہے۔ ریاست کا نظام چلانے کے لئے قرارداد مقاصد، آئین پاکستان ، اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات اور اقتصادی آزادی اسلامی معاشی نظام کے لئے آئینی اور عدالتی فیصلے موجود ہیں لیکن نااہل، مفاد پرست، کرپٹ حکمرانوں نے ذاتی گروہی پارٹی مفادات کو ترجیح دی اور قومی اتحاد کو پسِ پشت ڈالا، آئین، قرآن وسنت، جمہوری پارلیمانی اقتدار کو پامال کردیا۔ اتحادوں کی سیاست چھوٹے چھوٹے مفادات کی بھینٹ چڑھا دی گئی۔وسائل پر دو فیصد اشرافیہ قابض ہے۔ حکمرانوں نے مال بنایا۔ آف شور کمپنیوں کے ذریعے بیرون ملک جائیدادیں خریدی گئیں۔ پاناما لیکس اور پنڈوراپیپرز میں سبھی حکمران جماعتوں میں شامل افراد کے نام آئے۔ بنکوں سے قرضے لے کر معاف کروائے گئے۔ نیب کی فائلوں میں حکمرانوں کی کرپشن کی داستانیں ہیں۔ کسی کو کوئی نہیںپوچھتا۔ غریب فاقوں مر رہے ہیں۔ اسی فیصد آبادی مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہے ۔ لاکھوں نوجوان ملک چھوڑ گئے ۔ لاکھوں بے روزگار ہیں۔شرافیہ اقتدار کے حصول کے لیے باہم دست و گریباں ہے۔ معیشت روبہ زوال، پاکستان کو ڈِفالٹ کے خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود زراعت تباہی سے دو چار ہے۔ صنعتیں بند ہو چکی ہیں۔ غریب عوام کے لیے روٹی کا حصول ناممکن ہو گیا ہے۔
٭٭٭