اسری ٰ یونیورسٹی کے وائس چانسلرکی گرفتاری
شیئر کریں
بوگس کیس اورپولیس کارروائی نے کئی سوالات کھڑے کردیے
ڈاکٹر حمید اللہ قاضی، ڈاکٹر نذیر اشرف لغاری اور بیٹا زید لغاری جرائم پیشہ کے افراد کی مدد سے اسری یونیورسٹی پر قابض ہوئے ،ڈاکٹرحمید اللہ قاضی
پولیس کواستعمال کیاجارہاہے ،آئی جی سندھ تحقیقات کروائیں ،کاروائی کے احکامات دینے والے افسران کوبرطرف کیاجائے ،احمدولی قاضی کے ہمراہ پریس کانفرنس
حیدرآباد (بیورو رپورٹ)اسری یونیورسٹی کے چانسلر کی گرفتاری، چانسلر کی وائس چانسلر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس، بوگس کیس اور پولیس کی کارروائی نے کئے سوالات کھڑے کردیئے ہیں، پولیس جانبدار بن چکی ہے، ڈاکٹر حمید اللہ قاضی، ڈاکٹر نذیر اشرف لغاری اور بیٹا زید لغاری جرائم پیشہ کے افراد کی مدد سے اسری یونیورسٹی پر قابض ہوئے، ان پولیس کو استعمال کیا جا رہا ہے، آئی جی سندھ تحقیقات کروائیں، رہائشگاھ پر غلام قادر قاضی اور احمد ولی اللہ قاضی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس،ب تفصیلات کے مطابق اسری یونیورسٹی کے چانسلر ڈاکٹر حمید اللہ قاضی پر بوگس کیس اور گرفتاری پر اسری یونیورسٹی کے چانسلر ڈاکٹر حمید اللہ قاضی نے وائس چانسلر احمد ولی اللہ قاضی اور اسری اسلامک فائونڈیشن کے صدر غلام قادر قاضی کے ساتھ اپنی رہائشگاھ پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اسری یونیورسٹی حیدرآباد کے معطل وائس چانسلر ڈاکٹر نذیر لغاری ادارے پر نومبر 2020ع سے مسلح اور جرائم پیشہ افراد کی مدد سے قابض ہیں۔ ان کا بیٹا زید لغاری بھی ادارے میں غیر قانونی طور پر تعینات ہے، ڈاکٹر نذیر اشرف لغاری اور ان کا بیٹا زید لغاری ادارے کو انتظامی و مالی نقصان کے ساتھ ساتھ اس کے تشخص کو تباہ کرنے میں مصروف ہیں۔ مسلح افراد کی مدد سے ادارے پر قبضہ، غنڈوں کی مدد سے ملازمین کو ہراساں کرنا اور ان کا ادارے میں بغیر وجہ داخلہ بند کرنا، کراچی اور اسلام آباد کیمپسسز پر قبضے کیلئے حملے کروانا، سانحہ اے پی ایس کی طرز پر اسری فانڈیشن اسکولز پر قبضہ اور قیمتی سامان کی چوری، طلبہ سے فیسسز کی مد میں کیش وصولی، اسپتال کی کیش آمدن اپنے ذاتی استعمال میں لانا، کروڑوں روپے کے غبن، وغیرہ شامل ہیں مگر بد قسمتی سے ان کے خلاف پولیس کی جانب سے اب تک کسی قسم کی کوئی کاروائی نہیں کی گئی ہے، انہوں نے کہا کہ 6 اگست 2022 بروز ہفتہ کی شام قاسم آباد میں واقع اسری یونیورسٹی حیدرآباد کے چانسلر پروفیسر حمیداللہ قاضی کی رہائشگاہ پر پولیس کی جانب سے ڈاکٹر نذیر لغاری کے بیٹے زید لغاری کے ایما پر ایک بوگس کیس چھاپہ مارا گیا ۔ اسی قسم کا ریڈ یونیورسٹی کے ایکٹنگ وائس چانسلر احمد ولی اللہ قاضی کے گھر پر بھی کیا گیا، چھاپے میں پولیس کی سیکڑوں گاڑیوں میں سوار یونیفارم اور بغیر یونیفارم افراد گھر میں بغیر کسی وارنٹ کے داخل ہوئے۔ پولیس کے ہمراہ کوئی لیڈی پولیس اہلکار موجود نہیں تھی۔ گھر میں بزرگوں، خواتین اور بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انہیں ہراساں کیا گیا۔ ان کے موبائل فون بھی چھین لئے گئے، اس کارروائی میں پروفیسر ڈاکٹر حمیداللہ قاضی کو گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا۔ اہلخانہ اور یونیورسٹی کی انتظامیہ کی جانب سے جب حیدرآباد پولیس سے اس حوالے سے رابط کیا گیا تو انہوں نے اس حوالے سے لا علمی کا اظہار کیا مگر عوامی، ادبی اور تعلیمی حلقوں کے شدید دبا پر ہٹڑی پولیس کی جانب سے دوسرے دن ان کی گرفتاری ظاہر کی گئی، انہوں نے کہا کہ پولیس جب ریمانڈ لینے کیلئے اسپیشل جج کی عدالت میں پہنچی تو معلوم ہوا کہ ایف آئی آر کا متن مختلف جبکہ کیس میں لگائی گئی دفعات مختلف ہیں (جو کہ پولیس کی بد نیتی کو ظاہر کرتا ہے) جس پر معزز جج نے انویسٹیگیشن افسر پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ معزز جج نے اسی وقت ڈاکٹر حمیداللہ قاضی کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا، انہوں نے کہا کہ تمام کارروائی سے ظاھر ہوتا ہے کہ پولیس کی جانب سے یہ کارروائی بظاہر ڈاکٹر نذیر لغاری اور ان کے بیٹے زید لغاری کی ذاتی خواہش کو سامنے رکھتے ہوئے اور پورا کرنے کیلئے کی گئی، پولیس نے چادر اور چو دیواری کے تقدس کو پائمال کیا، بغیر وارنٹ، بغیر وردی اور بغیر لیڈی پولیس اہلکاروں کے گھر میں داخل ہوئی. بزرگوں، خواتین اور بچوں سے بدتمیزی کی گئی اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا انہون نے وزیر اعظم پاکستان، وزیراعلی سندھ، وفاقی وزیر داخلہ، صوبائی وزیر داخلہ، چیف جسٹس آف پاکستان، چیف جسٹس آف سندھ اور آئی جی سندھ سے مطالبہ کیا کہبکہ اس واقعے کی صاف و شفاف تحقیقات کی جائیں۔ اس کیلئے ایک جے آئی ٹی تشکیل دی جائے جس میں بشمول آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندے بھی شامل ہوں تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔ اس کیساتھ ساتھ وہ یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ تحقیقاتی رپورٹس کے آنے تک اس کارروائی میں شامل و احکامات دینے والے افسران کو عہدوں سے ہٹایا جائے تاکہ صاف و شفاف تحقیقات ممکن ہو سکے، انہوں نے کہا نصاف کیلئے عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا جائے گا.