میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کووِڈ کے خلاف اشتعال اوربے چینی

کووِڈ کے خلاف اشتعال اوربے چینی

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۳ اگست ۲۰۲۱

شیئر کریں

(مہمان کالم)

سارہ سمارش
کنساس ٹائون کی مین شاہراہ پر واقع ایک پرانی عمارت میں اس موسم بہار میں ایک کائونٹی ہیلتھ ورکرنے مجھے کورونا ویکسین کی پہلی ڈوز لگائی۔ مجھے پہلی ڈوز ایک خاموش طبع نرس نے لگائی جس نے چہرے پر N95 ماسک پہن رکھا تھا۔ مجھے دوسری ڈوز ایک مسکراتی ہوئی خاتون نے لگائی جسے میں نے اپنی تشویش سے آگاہ کیا کہ مجھے پہلی ڈوز کے بعد اس کے سنگین سائیڈ ایفیکٹس محسوس ہوئے تھے۔ اس نے میرے کندھے کو تھپکتے ہوئے کہا ’’اچھا ہے کہ تم گلے کے اندر جانے والی ٹیوب کی تکلیف سے بچ گئی ہو‘‘۔میری کائونٹی کے رہائشی کیچڑ سے اٹے بوٹ اور پرانی جیکٹس پہنے اس وقت اپنی اپنی باری کے منتظر تھے جب اپریل کی تیز ا?ندھیوں میں ان کے گندم کے کھیت لہلا رہے تھے۔ اب انہیں اپنی مکئی کی فصل کاشت کرنا تھی مگر انہیں طویل ڈرائیونگ کے بعد 500 مربع میل میں واقع اس واحد مقام پر جانا پڑا تاکہ ویکسین لگوا سکیں۔ ہماری عمریں، سیاسی وابستگی اور پس منظر‘ سب کچھ مختلف تھا مگر ہم وہ سفید فام دیہاتی لوگ تھے جو ابھی زندہ رہنے کی تمنا رکھتے تھے۔ آج گندم کی فصل کاٹی جا چکی ہے۔ مکئی بھی اپنے جوبن پر ہے مگر ابھی تک پورے امریکا میں ہر تین میں سے ایک شہری کو ویکسین لگانے کی منظوری ملی ہے اور اسے بھی ابھی تک نہیں لگ سکی۔ زیادہ تر لوگوں نے خود ہی ویکسین کی پہلی ڈوز لگوانے سے انکار کر دیا ہے۔ ویکسین لگوانے کے خلاف اس ردعمل کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کووڈ کیسز میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ایک ڈوز لگوانے کے بعد ہم محتاط ہونے کے باوجود تھوڑا ریلیکس ہو گئے تھے کہ موسم گرما کے آغاز میں کووڈ نے پھر سے سر اٹھانا شروع کر دیا۔ ہم نے دوبارہ ماسک پہن لیے، اپنے سارے پلان منسوخ کر دیے اور سوچنے لگے کہ اپنی اور اپنے پیاروں کی زندگی کیسے بچانی ہے۔ جوں جوں لوگوں کی ہچکچاہٹ کم ہوئی‘ ویکسین لگوانے والوں کی تعداد بڑھنے لگی مگر لگتا ہے کہ ابھی کورونا وائرس دیر تک ہمارے ساتھ رہے گا۔ اس تلخ حقیقت کو کیسے تسلیم کیا جائے؟
ویکسین لگوانے والے امریکیوں کی اکثریت اب تھک چکی ہے‘ وہ مشتعل ہے اور کسی پر الزام دھرنے کے لیے بے چین ہے۔ کئی ریپبلکنز سمیت صحتِ عامہ کے ماہرین اور سرکاری اہلکار ویکسین لگانے کے عمل کی مذمت پر تلے نظر ا?تے ہیں۔ اس کووڈ نے ہم سے ہماری زندگیاں، ملازمتیں، تجربہ، دولت، ذہنی اور جسمانی صحت‘ سب کچھ چھین لیا؛ چنانچہ ہماری بیزاری اور غصہ بے جا نہیں ہے لیکن اگر ان جذبات کو مناسب طریقے سے کنٹرول نہ کیا گیا تو ہمیں اس کی بھاری قیمت چکانا پڑ ے گی۔ ہم اپنے اس غصے کے ساتھ کیسے نمٹیں؟ میں ایک ترقی پسند عورت ہوں‘ جو ایک قدامت پسند ریاست میں رہتی ہے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ سیاسی انتشار کے اس عہد میں جب ہماری فہم و فراست ایک انتشار کی شکار ہے‘ میں پھر بھی باہمی روابط برقرار رکھنے کی حامی ہوں۔ مگر میں یہاں یہ بھی بتانا چاہتی ہوں کہ اس سماجی بحران کی ساری ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جن کی سماجی حیثیت انہیں اس امر کی اجازت دیتی ہے کہ وہ متناقض صورتِ حال کے ساتھ بحفاظت اور بخوبی نمٹ سکتے ہیں؛ البتہ اس خطرناک رویے اور عقیدے کو سمجھنے کی کوشش کرنا فریق مخالف کو اپنی مرضی کرنے کی اجازت دینے سے قطعی مختلف امر ہے۔ ہر لحاظ سے امن پسند ہونے کے باوجود مجھے ایک ٹرک ا سٹاپ پر ماسک نہ پہننے والوں کو چیخ کر کہنا پڑا کہ وہ اس منحوس دروازے پر لگے سائن بورڈ کو ہی ایک دفعہ پڑھ لیں۔ میں اس اجتماعی، نسل در نسل جاری رہنے والے سیاسی، کلچرل اور انفرادی اشتعال سے بخوبی آگاہ ہوں۔ میں 1980کے ’’زرعی فارم بحران‘‘ کے دوران غربت میں پلنے والی لڑکی ہوں‘ جب فیڈرل حکومت کی کارپوریشنز کو نوازنے والی پالیسیوں نے دیہات میں بسنے والی کمیونٹیز کو تباہ و برباد کر دیا تھا۔ میں جہاں اور جدھر گئی‘ میرے سامنے کوئی نہ کوئی مر رہا تھا۔ مقامی گروسری سٹورز، فیملی فارمز، کینسر زدہ لوگ‘ جن کی پانی کی سپلائی بھی زراعت سے منسلک تھی۔ میری فیملی تو بہت خوش تھی مگر ہر طرف ایڈکشن یعنی نشہ، استحصال اور بے توجہی نظر آ رہی تھی جس نے ایک جائز غصے اور مایوسی سے جنم لیا تھا۔
غصہ ایک متعدی احساس ہوتا ہے جو بڑی سرعت کے ساتھ ایک شخص سے دوسرے کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ یہ آپ کے دل و دماغ اور جسم پر قابض ہو جاتا ہے۔ اگر اسے پھٹنے کا موقع دیا جائے تو یہ ہمیشہ دوسروں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ مجھے سب سے پہلے یہ سیکھنا تھا کہ میں اپنی بقا کے لیے اپنے اس غصے پر کیسے قابو پائوں گی۔ مجھے ادراک ہو گیا تھا کہ میں اس کی مدد سے طاقتور قسم کی کیمیا گری سیکھ سکتی ہوں۔ اگر ہم اسے مناسب طریقے سے بروئے کار لانے میں کامیاب ہو گئے تو یہ کوئی منفرد شے تخلیق کرنے میں ہمارا معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ کیمیا گری خود آگہی سے جنم لیتی ہے۔ کیا ہمارے پاس اپنی اس نفرت کا کوئی جواز موجود ہے؟ کیا ہمارے پاس تمام حقائق موجود ہیں؟ اگر ہم اپنے مسئلے کو ہی نہیں سمجھ سکتے تو ہمارے جذبات حقائق سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ بے قابو غصہ غیر پیداواری اور خود غرض ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ ہمیں کسی ضروری عمل پر اکسانے کے بجائے ہماری انا کی تسکین کرتا ہے لہٰذا جب ہم تیار ہوتے ہیں یا اپنے کسی عزیز از جان کی موت کی وجہ سے تیار نہیں بھی ہو پاتے تو ہمیں غصے کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہئے اور اس بات کا بغور مشاہدہ کرنا چاہئے کہ اس اشتعال میں آپ کے لیے کیا کیا مواقع موجود ہیں۔ ہمارا قومی مکالمہ اب اس نہج پر پہنچ چکا ہے جہاں امریکی عوام کی اکثریت ویکسین لگوانے کے مخالفین کی طرف سے پیش کیے گئے جواز سن سن کر تھک چکی ہے۔ ویکسین لگوانے والے تو اب سوشل میڈیا پر یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ کووڈ کے جس مریض نے ویکسین نہ لگوائی ہو‘ اسے ہسپتال میں داخل ہی نہ کیا جائے اور موت کے منہ میں جانے دیا جائے۔
ڈیموکریٹس کی حامی امریکی ریاستیں اسے ریپبلکن پارٹی کا مسئلہ قرار دیتی ہیں۔ ایک شخص نے ٹویٹ کیا ’’ہماری ریاست نے کووڈ کے خلاف زبر دست جنگ لڑی ہے۔ ہمیں اس کا کیا صلہ ملا؟ ہمسایہ ریپبلکن ریاستوں سے آنے والے مریضوں نے ہمارے ہسپتال بھر دیے‘‘۔ پرانی سیاسی مخاصمت کو ویکسین کے نام پر غصہ نکالنے کا ایک اور موقع مل گیا۔ ایک اور شہری نے اپنے ٹویٹ میں لکھا ہے ’’میرے ساتھ تو ریگن کے صدر بننے سے ہی زیادتی ہو رہی ہے‘‘۔ میرا ایک ایسی سفید فام ورکنگ کلاس فیملی سے تعلق ہے جو ایسی خواتین اور مردوں پر مشتمل ہے جنہوں نے کووڈ کی ویکسین لگوائی ہوئی ہے۔
ٹرمپ کے بعد والے امریکا میں ویکسین نہ لگوانے والے یہ سائنس دشمن عناصر عرصے سے ایک ایسے ملک میں بے مہابا کریڈٹ لے رہے ہیں جہاں ٹرمپ ازم سفید فام اربن کمیونٹیز کی صورت میں اپنے عروج پر نظر آتا ہے۔ کووڈ سے نمٹنے کے لیے ہمیں چاہئے تھا کہ غلط سمت پر اپنی پوری توجہ مرکوز کرنے کے بجائے اس بڑے اور وسیع گروپ تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے جنہیں آگہی کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرکے ویکسین لگوانے پر آمادہ کیا جا سکتا تھا۔ اس سال کے آغاز میںکیسر فیملی فائونڈیشن نے ایک سروے کرایا تھا جس سے معلوم ہوا ہے کہ ورکنگ کلاس سے تعلق رکھنے والے لوگ‘ جن میں سفید فام، سیاہ فام، ہسپانوی نڑاد، ڈیمو کریٹس اور ریپبلکن مطلب سب‘ ویکسین لگوانے کے لیے اتنے آمادہ نظر نہیں آتے تھے۔ سفید فام اور سیاہ فام کالج گریجویٹس میں ویکسین لگوانے والوں کی شرح ایک جیسی ہے۔ تمام نسلوں اور پس منظر سے تعلق رکھنے والے نام نہاد ناخواندہ افراد صرف اپنی کم فہمی کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ دولت اور اختیارات کے فقدان کی وجہ سے بھی ویکسین لگوانے کی راہ میں رکاوٹ بن رہے تھے۔
ان کا تعلیمی سٹیٹس ہی ان کی کم آمدنی کی وجہ ہے۔ ان کی ا?مدنی سے ہی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا انشورنس کا ا سٹیٹس کیا ہو گا۔ کیسر فائونڈیشن کے سروے کے مطابق ایک طرف امریکا میں جہاں کورونا کا انتہائی متعدی ویری اینٹ ڈیلٹا پوری سرعت کے ساتھ اپنے پنجے گاڑ رہا ہے وہیں امریکا کے ان 22 نچلے گروپوں میں ویکسین لگوانے کی شرح سب سے کم ہے جنہوں نے اپنی انشورنس نہیں کرائی ہوئی۔ چونکہ میر ی اپنی زندگی کا بڑا حصہ انشورنس کے بغیر ہی گزرا ہے اس لیے میں اس امر کی تصدیق کر سکتی ہوں کہ ہمارے ذاتی تجربات امریکی ہیلتھ سسٹم پر ہمارے اعتماد کو مستحکم نہیں ہونے دیتے۔ انشورنس نہ کرانے والے اس حقیقت سے بخوبی ا?گاہ ہیں کہ یہ سسٹم انہیں علاج کی سہولت فراہم کرنے کے بجائے ان پر قرضوں کا بوجھ بڑھا دیتا ہے۔ سنٹر فار اکنامک اینڈ پالیسی ریسرچ کے مطابق جن ریاستوں کے شہریوں کی اکثریت نے اپنی انشورنس کرا رکھی ہے‘ ویکسین لگوانے کی شرح بھی انہی ریاستوں میں زیادہ ہے۔
سیاہ فام اور رنگدار لوگوں کی اکثریت اپنی طبقاتی مجبوریوں، غربت، تعلیم کے فقدان اور منظم نسل پرستی کا شکار ہونے کی وجہ سے انشورنس نہیں کرواتی۔ اس کے باوجود ویکسی نیشن سے متعلق ا?نے والی زیادہ تر رپورٹس اور خبروں میں ہمیں ایک مرتبہ بھی طبقاتی تقسیم، تعلیم یا ا?مدنی کا کوئی ذکر اور حوالہ نہیں ملا۔ ہم اپنے اندر موجود ان برے کرداروں پر جتنی فراخدلی سے اپنے مالی وسائل خرچ کرتے رہیں گے‘ حقائق سے اتنے ہی دور ہوتے جائیں گے۔ ویکسین نہ لگوانے والے امریکی شہریوں کی اکثریت بھی ہماری طرح ہی خوفزدہ ہے، اگر ان کی صحیح طریقے سے مدد اور رہنمائی کی جائے اور انہیں درست معلومات فراہم کی جائیں تو وہ بھی جلد اپنی آستینیں چڑھائے ویکسین لگوانے کے لیے قطاروں میں لگے ہوں گے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اس غصے اور اشتعال کا رخ ایسے کاموں کی طرف موڑ دیں جو ہمارے مقصد کے حصول میں مددگار ثابت ہوں۔
ہم صحت عامہ کی فراہمی کو لازمی قرار دینے کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ اس پر ہونے والا منفی سیاسی ردعمل بھاڑ میں جائے۔ جو لوگ علاج پر آنے والی لاگت کے بارے میں حساس ہیں یا انتظار میں بیٹھے وہ لوگ جو سہولتوں سے محروم رہنے کے باوجود کھلے ذہن کے مالک ہیں‘ ان کے ساتھ رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ ہم غلط کاموں سے ہونے والے نقصان کا ازالہ اچھے کام کر کے بھی کر سکتے ہیں مثلاً جب ہم سائنس مخالف مظاہرین کو خبروں میں یا کسی فٹ پاتھ پر احتجاج کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ہم ازالے کے طور پرکسی غیر منافع بخش ہیلتھ کلینک کو کچھ رقم عطیہ کر سکتے ہیں۔ میرے خیال میں اگر ہمیں یہ صورت حال ناگوار محسوس ہوتی ہے تو ہم ان مظاہرین کو یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنا احتجاج ختم کر کے یہاں سے چلے جائیں۔ سب سے اہم با ت یہ کہ ہم اپنے غصے کا رخ ان سائنس مخالف لوگوں کی طرف موڑنے کے بجائے اسے اپنے سرکاری سسٹم کی طرف بھی موڑ سکتے ہیں جس کی بدولت ہمیں کووڈ کے نتیجے میں اتنے لوگوں کی اموات کا سامنا کرنا پڑا۔ کیا یہ امر قابل افسوس نہیں ہے کہ ذات پات پر مبنی یہ معاشرہ جو فرد کو اتنی اہمیت دیتا ہے مگر اس کی صحت یابی کے بجائے منافع کو ترجیح دیتا ہے، وہ ملک جو صنعتی قوم ہے‘ جس کے پاس ہیلتھ کیئر کا کوئی قومی نظام ہی نہیں‘ کیا وہ صحت کے اس اجتماعی بحران کی وجہ سے درپیش چیلنجز کا سامنا کرنے میں ناکام ہو جائے گا؟ اپنے قومی کردار کی اس ناکامی کے باوجود ہم امریکی خوش قسمت ہیں کہ ہم نے تیزی سے کووڈ کی ویکسین تیار کرکے دنیا کے ان آٹھ ارب لوگوں کی جان بچا لی جس کے لیے غریب ممالک مارے مارے پھر رہے تھے۔ ہم شاید پوری نوع انسانی میں پہلے تھے جنہیں سائنس کی اس حیرت انگیز ایجاد کو اپنے خون میں اتارنے کی دعوت دی گئی۔ یہ وہ چوائس ہے جو ان ہزاروں لاکھوں لوگوں کو نہ مل سکی جو ویکسین ایجاد ہونے سے پہلے ہی کووڈ کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے گئے۔ حالیہ دستیاب اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ جن لوگوں نے بھی کووڈ کی یہ ویکسین لگوائی ہے وہ یقینا اس مہلک وبا کے سنگین اثرات سے نہ صرف اپنی زندگی بچانے میں کامیاب ہو جائیں گے بلکہ آئندہ زندگی بھر کے لیے وہ کووڈکی کسی موسمی وبا کے پھوٹنے کا بھی مقابلہ کر سکتے ہیں۔
مانا کہ اس پس منظر کو اسی طرح برقرار رکھنا قدرے مشکل ہے کیونکہ صحت مند رہنے کے لیے ضروری ہے کہ کورونا کیسز کی تعداد کا روزانہ کا حساب رکھا جائے، ضرور ت کے تحت گائیڈ لائنز میں بھی تبدیلیاں کی جائیں، کووڈ کی بوسٹر ڈوزز لگوائی جائیں اور چہرے پر ماسک لازمی پہنا جائے۔ جب دیکھیں کہ یہ سب کچھ ناکام ہو گیا ہے اور اگر ویکسین نہ لگوانے والوں کے خلاف آپ کا غصہ ناقابل برداشت ہوتا محسوس ہونے لگے تو اپنی توجہ ان کاموں پر کم مرکوز کریں جو آپ کے کنٹرول سے باہر ہیں۔ ذرا گزشتہ موسم بہار کو یاد کریں جب آپ کسی ا سٹیڈیم میں بیٹھے تھے، کسی نواحی فارمیسی یا کسی قصبے کی کمیونٹی بلڈنگ میں تھے اور ویکسین کی پہلی ڈوز لگ گئی۔ آپ اس نعمت کو کیسے یاد کریں گے؟ اگر اس ویکسین کی بدولت آپ کی زندگی بچ گئی تو اس زندگی کو کیسے گزارنا پسندکریں گے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں