تحریکِ کشمیر پریشان کن مذہبی بحث کی لپیٹ میں
شیئر کریں
(گزشتہ سے پیوستہ)
اس سچائی کے بعد غور طلب بات یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کو مذہبی مسئلے کے برعکس سیاسی مسئلہ قراردینے سے کیا ہمیں اسلام کہیں بھی یہ تعلیم دیتا ہے کہ آپ اپنے حقوق سے اس لیے دستبردار ہو جاؤ کہ آپ کا سیاسی حق تلف کیا جا چکاہے؟کیا اسلام جیسا عظیم دعوتی، سیاسی، سماجی، معاشرتی، معاشی، علمی اور اصلاحی مذہب کی تعلیمات میں ایک آیت یا کوئی ایک آدھ حدیث بھی موجود ہے جس میں کسی بھی طرح کے اجتماعی یا انفرادی سیاسی،سماجی اورمعاشی حقوق سے دستبرداری کی تعلیم ملتی ہو۔
مسئلہ کشمیر ایک غلط سیاسی فیصلے کے نتیجے میں پیدا شدہ مسئلہ ہے اور اسلام ہمیں اپنے حق کے حصول کی نہ صرف تعلیم دیتا ہے بلکہ اس پر اُبھارتا بھی ہے ۔ایک موقع پر نبی کریم ﷺ حملہ آور ظالم سے دفاع کے بارے میں حکم پوچھا گیا ،سیدنا ابوہریرہؓروایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: یارسول اللہ! اگر کوئی شخص میرا مال چھیننے کی کوشش کرے تو میں کیا کروں ؟ فرمایا: اپنا مال اسے نہ دو ،پوچھا:اگر وہ مجھ سے لڑنے لگے ؟آپؐ نے فرمایا ’’اس سے لڑو‘‘ پوچھا: اگر وہ مجھے قتل کردے ؟آپؐ نے فرمایا کہ’تم شہید کہلاؤ گے ‘ پوچھا: اگر میں اسے قتل کردوں ؟ فرمایا ’’وہ جہنمی ہوا‘‘(صحیح مسلم)جہاں تک قیامِ خلافت کی جدوجہد کے پس منظر میں ’’شریعت یا شہادت‘‘کا تعلق ہے، میں سمجھتا ہوں شاید ہی کوئی مسلمان ہوگا جس کے دل میں خلافت علی منہاج النبوۃ کے قیام کی تمنا نا ہومگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سلوگن آج کی القاعدہ یا داعش کی ایجاد ہے ؟ نہیں ایسابالکل نہیں ہے۔ البتہ سمجھنے اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ خلافت ہمارے ہاتھ سے چھوٹے ہو ئے ایک دو سال نہیں ہوئے ہیں بلکہ اس سانحہ کو پیش آئے پانچ کم چودہ سو سال گزر چکے ہیں اور اس المیہ کی خبر نبی کریمﷺ نے امت کوخود ہی دی تھی ۔یہ مسئلہ صرف کشمیر کے غلام مسلمانوں کا ہی نہیں بلکہ پچاس مسلم آزاد ممالک کے مسلمانوں کودرپیش ہے ۔نیت کرنے اور رکھنے میں حرج نہیں ہے مگر کیا کشمیر کے غلام مسلمان آزادی سے قبل خلافت کے قیام کی جدوجہد کر سکتے ہیں ؟رہی بات آزادی کے بعد تو اس میں نہ کوئی قباحت ہے اور نا ہی الجھن ۔ اور سچائی یہی ہے کہ مصروفِ جدوجہد اکثر کشمیری مسلمان اسی نیت سے شامل جدوجہد ہیں البتہ کسی کو حقائق کا علم نا ہو تو اس کا قصور اس کا اپنا ہوتا ہے کسی اور کا نہیں ۔کشمیری مسلمانوں کو اس وقت جو پریشانی کھائے جا رہی ہے، وہ ہے بھارت کی انتہاپسند ہندو حکومت کا عالمی سطح پر قبولِ عام کے بعد کشمیر کی تحریک کے تئیں ’’عالمی خارجی تحریکات ‘‘سے جوڑنے کے پروپیگنڈے کے بعد مسلمانانِ کشمیر کی بلا خلل جاری نسل کشی !!اس پسِ منظر میں اگر کوئی تحریک آزادی کشمیر کے لیڈران کی اپنائی گئی پالیسی اور حکمتِ عملی کو بزدلی یا منافقت کہتا ہے تو سوائے افسوس کے اور کیا کیا جا سکتا ہے ۔ہندوستانی ٹیلی ویژن چینلز پر بیٹھے کئی دانشور ببانگ دہل یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ کوئی آزادی کی تحریک نہیں بلکہ خلافت کی جنگ ہے تو پھر ہمارے لیڈروں کو باربار اعلان کرنے اور صفائی دینے کی ضرورت کیوں ہے کہ وہ سیاسی مسئلہ کے لیے برسرِجدوجہد ہیں کہ مذہبی مسئلہ کے لیے ۔
رہی بات کشمیرمیں داعشی پرچموں کے پھیلاؤکی اور انھیں توحیدی جھنڈے قرار دینے کی ؟میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوکہ داعش کے خلاف پورے عالم اسلام کے تمام تر مکاتب فکر کے اجتماعی اور اجماعی’’ فتوائے خارجیت‘‘ کے بعد ان کی علامات کو کشمیر کے مسلمان کیوں اور کیسے قبول کریں گے؟داعش خارجی افکار سے متاثر فکر کا نام ہے جنہوں نے اپنی ہر حماقت اور پاگل پن کو جہاد اور اسلام سے جوڑ کرخوفناک وحشیانہ اور ظالمانہ کاروائیوں سے ایک ایک فرد کو نہ صرف متنفر کیا بلکہ ’’خدائے رحیم کے رحمۃ للعالمین پر نازل کردہ دینِ رحمت‘‘کی صورت ہی مجروح کردی ۔اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اسلامی شریعت میں ’’پرچم‘‘سے مراد کپڑے کا ٹکڑا نہیں ہے بلکہ اسے مراد جنگ کا مقصد اور ہدف ہے اس کی دلیل وہ حدیث نبویؐ ہے جس میں آپؐنے فرمایا ’’جس نے اندھے تعصب کے جھنڈے کے تحت لڑا‘‘(صحیح مسلم)الفاظ پر غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے یہاں جھنڈے سے مراد کپڑا نہیں بلکہ وہ مقصد اور ہدف ہے جس کے تحت یا جس کے لیے لڑنے والے نے لڑائی لڑی ۔گویا اگر مقصد واضح اور متعین ہونے کے ساتھ ساتھ وہ مکمل شرعی دلائل پر مبنی ہوتو اس جماعت کا جھنڈا جو بھی ہوگا شرعی ہوگا ۔جہاں تک مخصوص رنگ کے جھنڈے کا تعلق ہے تو نبی پاکﷺ سے کوئی مخصوص رنگ ثابت ہو نے کے بجائے سفید،سیاہ اور زرد رنگ بھی ثابت ہے ۔امام ابن حجر ؒفتح الباری جلد ششم صفحہ نمبر:126پر اس اختلاف کی وجہ مختلف حالات کا پیش آنا بیان کرتے ہیں ۔مجھے اس بات پر بھی حیرت ہوتی ہے کہ داعش شیعہ حضرات سے شدید نفرت کے باوجود کالے جھنڈے اور کالے لباس پر کیوں بضد ہے، کل تک اہل سنت انہیں کالے جھنڈے اور کالے لباس پر طعنوں سے نوازتے تھے اور آج اپنی سنیت پر فخر کرنے والے خوارج نے انہی کے رنگ کو اپنا رنگ بنا لیا ۔خراسان کی سلطنت کالے رنگ سے وجود میں نہیں آئے گی بلکہ اس کے لیے جو بشارتیں احادیث میں موجود ہیں ان کی عملی صورت میں ظہور ہونے سے پہلے اس کے لیے ایک ’’لیڈر اور امام‘‘کا ظہور ہوگا اور تائید یزدانی سے عالم اسلام ان کے سامنے جھک جانے پر مجبور ہوگا ۔انھیں کسی مخصوص لباس اور جھنڈے کی حاجت نہیں ہوگی اور نا ہی انہیں اپنی امامت پر قسمیں کھانے کی ضرورت ہوگی ۔ان کا ظہور سورج کے مانند ہوگا جس کی روشنی سے عالمِ دنیا کا کونا کونا روشن ہوتا ہے جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مہدی کے عدل سے روئے زمین کے کونے بھر جائیں گے ،دولت کی فراوانی اس قدر ہوگی کہ کوئی لینے والا باقی نہیں بچے گاالخ۔ اب جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے وہ بلاشبہ اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ایسا ملک ہے جہاں اسلام نافذ نہیں ہے مگر کیا جس سرزمین میں اسلام کا سورج طلوع ہوا اس میں اقامتِ صلوٰۃ اورحدود و تعزیرات کے سوا خلافت اسلامیہ کی کوئی چیز نظر آتی ہے تو پھر پاکستان پر ہی سوالات کھڑا کرکے اس کے وجود کو کفر و طاغوت سے جوڑنے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ ہماری نئی نوجوان نسل کو یہ تک نہیں معلوم ہے کہ اس سب کے باوجود فقہائِ اسلام نے ان ممالک کودارالاسلام کے دائرے میں شامل رکھا ہے اس لیے کہ حاکم کے فاجر اور فاسق ہونے سے کوئی مسلمان ملک دارالکفر نہیں بن سکتا ہے اور فردیاافراد کے اعمال کتنے ہی قبیح کیوں نا ہوں ان سے ملکوں کی تقسیم تب تک عمل میں نہیں آسکتی ہے جب تک نہ وہ ملک اعلاناََ دین کا چولا نہیں پھینک دیتا ہے ۔
جہاں تک اقوام متحدہ اور اس کی کی قراردادوں کا تعلق ہے یہ ایک بین الاقوامی ادارہ ہے۔ جہاں غیر مسلم ممالک کے ساتھ ساتھ مسلمان ممالک بھی بعض قابل اعتراض دفعات کے باوجود ممبر ہیں ۔اس میں بھی دو رائے نہیں ہے کہ اس ادارے پر غیر مسلموں کا غلبہ ہے اور یہ ادارہ عملاََ امریکہ ،روس،چین،برطانیہ اور فرانس کی لونڈی کا کردار ادا کرتا ہے ۔ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ادارے کی پاس کردہ قراردادوں سے متعلق کشمیری قوم کا کیا تعلق ہے ؟غلط فہمی یہ ہے کہ شاید کشمیری مسلمان اور ان کے دینی اور سیاسی رہنما اللہ کے برعکس اس ادارے سے حل کی امید لگائے بیٹھے ہیں نعوذ باللہ من غضب اللہ ۔المیہ یہ ہے کہ بعض لوگوں کو اپنی عقل اور دینداری کا بخار چڑھنے لگتا ہے اور خبطِ عظمت کے اس بھوت کا کوئی علاج دستیاب نہیں ہے ۔کوئی بھی عقلمند اور باشعور مسلمان اس طرح کا عقیدہ نہیں رکھے گا کہ وہ اللہ کے برعکس بتوں سے امیدیں وابستہ کرے ۔مگر قابل غور مسئلہ یہ ہے کہ خود بھارت یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں یہ کہہ کر لے گیا کہ جوں ہی ریاست میں حالات ٹھیک ہوں گے ہم عوام سے حق خود ارادیت کے تحت پوچھیں گے کہ وہ اپنا مستقبل کس کے ساتھ وابستہ کرنا چاہتے ہیں ؟اب غیر مسلم قابض بھارت’’ تسلیم شدہ بین الاقوامی غیر مسلم ادارے ‘‘میں جا کر دنیا کے لیڈران کو گواہ بنا کر کشمیری مسلمانوں سے ان کے مستقبل کے متعلق ان کی رائے پوچھنے کا وعدہ کرتا ہے تو اس سلسلے میں مسلمانان کشمیر سے کون سی ناقابل معافی غلطی سرزد ہوئی ہے کہ انہیں گنہگار ، فاسق ، فاجر ،استمداد غیر اللہ یا استعانت لغیر اللہ کا مجرم قرار دیا جائے ۔ایک غیر مسلم ادارہ اگر آپ کے مذہب کو چھیڑے بغیر کسی بھی طرح کی مددکرنا چاہے تو اس میں اس کا یا مسلمانوں کا کیا قصور ہے ؟اور اگر کسی کو اس میں کفر و شرک کی آمیزش نظر آتی ہے تو برائے کرم وہ ہمیں بھی با خبر فرما کر احسان فرمائے ۔نہیں تو عام سا انسان بھی چیخ چیخ کر پوچھ سکتا ہے کہ سات ارب کی آبادی میں ڈیڑھ ارب آبادی کی مسلم دنیا کو ایسے ہزاروں مسائل درپیش ہیں جہاں اشتراکِ عمل کے سوا کوئی صورت نہیں ہے ۔کیا نبی پاک ﷺ اور پھر صحابہؓ اور ان کے بعد تابعین اور تبع تابعین کے دور میں جب ایک حد تک دنیا فتح ہوئی تو انھوں نے غیر مسلم ممالک میں آنے جانے کو حرام قرار دیدیا؟ کیا اس کے بعد دعوت اور تجارت کے سلسلے میں حرام کا فتویٰ صادر ہوا ؟کیا نبی پاکﷺ نے خود مدینہ طیبہ میں آنے والے غیر مسلم وفود پر پابندی لگائی ؟کیا ہجرت ثانی ایک کافر ملک کی طرف نہیں ہوئی ؟کیا صحابہؓ نے نبی پاک ﷺ کی اجازت سے حبشہ میں قیام نہیں کیا؟ تو پھر ایک غیر مسلم طاقتور ادارے کو اگر اس کا کیا ہوا وعدہ یاد دلایا جائے تو اس میں کفر و شرک کی کون سی بات ہے ؟شرک یہ ہے کہ آپ کسی بھی چھوٹے بڑے مسئلہ میں اگر اللہ کو چھوڑ کر کسی بھی طرح کی امید وابستہ کریں جبکہ ہم سب کا یہ اعتقاد ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل اللہ کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں ہے وہ جب چاہیے گا تبھی یہ مسئلہ حل ہو جائے گااور اللہ بغیر جدوجہد اور محنت کے کسی کے جھولی میں ڈالنے کی طاقت کے باوجود کچھ بھی نہیں ڈالتا ہے ۔مسئلہ کشمیر کی جدوجہد میں اقوام متحدہ کو کوئی نہ خدا سمجھتا ہے اور نا ہی حاکم بلکہ ایک دنیاوی ادارے میں مسئلہ کشمیر سے متعلق پاس کی گئی قرارداد کی یاد دہانی کراتا ہے تو یہ شرک و کفر کیوں اور کیسے ہے ؟
کشمیر کی نوجوان نسل کو داعش کے وجود میں آنے سے بہت پہلے ہم نے اپنی تحریر و تقریر سے باخبر کیا تھا کہ مسلکی تشدد کی تیزی کے ساتھ پھیلتی آگ کشمیر کی طرف بڑھ رہی ہے ۔یہاں بعض زرخرید ایجنٹ غیر ملکی ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے صدیوں پرانے بھائی چارے کو فنا کرنا چاہتے ہیں ۔ہم نے بارہا یہ عرض کیا ہے اہل اسلام کے بیچ اختلافات بالکل اسی طرح موجود ہیں جس طرح دوسرے تحریف شدہ سماوی مذاہب کے پیروکاروں کے بیچ پائے جاتے ہیں ،اختلافات بری چیز نہیں اگر اس کو اپنے حال پر چھوڑ کر مشترکات کو دیکھ کر ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہو ئے آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا کیا جائے ۔اختلافات تو درکناراتفاقات بھی لعنت بن جاتے ہیں جب انہیں غلط رنگ میں پیش کیا جاتا ہے ۔جیسا کہ ارشاد الہٰی ہے ’’وہ اللہ کا کلام سن کر اس میں جان بوجھ کر تحریف کرتے تھے ‘‘(سورۃ بقرۃ: آیت۔75) علمائِ بنی اسرائیل اللہ تعالیٰ کے کلام میں جان بوجھ کر تحریف کرتے تھے یعنی اس کا معنی و مفہوم حسب منشا تبدیل کرتے تھے آج کل بعض علماء کا حال بعینہ یہی ہے کہ وہ ایک دوسرے کی تحریرات اور تقاریر کو غلط انداز میں پیش کرتے ہو ئے نوجوان نسل کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکاتے ہیں ۔یہی نوجوان پھر کسی موقع پر حکومتوں کے خفیہ ایجنڈے کے لیے دین کے نام پرایندھن بن کر اپنی زندگیاں ’’خود کش بمباروں کی صورت ‘‘میں فنا کردیتے ہیں ۔شام و عراق اس کی سب سے افسوسناک اور خوفناک مثالیں ہیں ۔لہذ ا ابھی بھی وقت ہے کہ ہم سوادِ اعظم کے ساتھ جڑتے ہوئے جمہورکے تصور اورعقائد کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں جو ثابت شدہ حق ہے۔ہمارے اسلاف نہ کم علم تھے نا ہی گمراہ ،انھوں نے ایک ایک چیز کو باریکی کے ساتھ جانچا اور پرکھا اورانھوں نے صحابہ کبارؓ کے چھوڑے ہوئے نقوش کو براہ راست یابیچ کے ایک ہی واسطے کے بعد دیکھا ،انہی اسلاف کی قیادت و سیادت جن بزرگوں نے کی وہی جمہور کہلائے ۔وہ قرآن و حدیث میں علم کے پہاڑ وں کے مانند اور عمل و تقویٰ میں آفتاب کی طرح تھے ۔ان سے بے نیاز ہو کر یاالگ رہ کر خطرہ اس بات کا ہے کہ ہم کم علمی اور کوتاہ نظری کے سبب جہلا کے ہتھے چڑھ کر حسین نعروں پر قربان ہوکر اپنی دنیا بھی تباہ کردیں گے اور آخرت بھی ۔ابھی بھی وقت ہے کہ ہم خود بھی سنبھلیں اور اللہ سے ڈر کر نئی نسلوں کو اپنے حقیر مقاصد پر قربان کرنے کے بجائے انہیں اپنے بھائی یا بیٹے سمجھ کر’’دین کے نام پر ‘‘ تباہ کن اور اسلاف و جمہور بیزار راستے سے بچاکر جدید خارجیت کے ہتھے چڑھنے سے بچائیں ۔