شکوہ
شیئر کریں
سیاستدانوں کو شکوہ ہے کہ آئینی مدت پوری کرنے نہیں دی جاتی اور یہ شکوہ کسی حد تک غلط بھی نہیں ہے، نوابزادہ لیاقت علی خان کے قتل سے شروع ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ 1951 سے اب تک کسی بھی وزیراعظم نے اپنی آئینی مدت پوری نہیں کی۔ نوابزادہ لیاقت علی خان 14 اگست1947 سے16 اکتوبر1951 تک وزیراعظم رہے اور16 اکتوبر1951 کو راولپنڈی میں قتل کر دیے گئے۔ اس وقت تک آئین کی تشکیل نہیں ہو سکی تھی، نوابزادہ لیاقت علی خان کے بعد خواجہ ناظم الدین17 اکتوبر1951 سے17 اپریل1953 تک محمد علی بوگرہ17 اپریل1953 سے12 اگست1955 تک چوہدری محمد علی12 اگست1955 سے 12 ستمبر1956 تک وزیراعظم رہے۔ اس دوران 1956 کا دستور نافذ ہو چکا تھا جس میں وزیراعظم کی مدت5 سال طے کی گئی تھی ۔یہ ایک علیحدہ موضوع ہے وہ آئین جو وزیراعظم کی مدت کار5 سال طے کر چکا تھا خود 2 سال بھی محفوظ نہ رہ سکا۔ اس آئین کی تشکیل اور نفاذ کے بعد 12 ستمبر1956 کو حسین شہید سہروردی وزیراعظم منتخب ہوئے لیکن وہ17 اکتوبر1957 تک ہی وزیراعظم رہ سکے۔17 اکتوبر1957 کو آئی آئی چندریگر نے وزارت ِعظمیٰ کے عہدہ کا حلف لیا اور صرف2 ماہ وزیراعظم رہ کر استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیے گئے۔ آئی آئی چندریگر کے بعد فیروز خان نون وزیراعظم قرار پائے لیکن ان کے اقتدار کا سورج بھی 7 اکتوبر1958 کو غروب ہو گیا۔ 16 اکتوبر1958 کو اس وقت کے صدراسکندر مرزا نے زمام کار فوج کے کمانڈر انچیف محمد ایوب خان کے حوالے کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا ء لگا دیا تھا اورآئین معطل ہو گیا 24 اکتوبر1958 کو محمد ایوب خان وزیراعظم قرار پائے لیکن28 اکتوبر1958 کو محمد ایوب خان نے اسکندر مرزا کو چلتا کیا اور معطل آئین منسوخ قرار دے دیا ۔یوں جنرل محمد ایوب خان حاضر ڈیوٹی جنرل کے طور پر 5 دن تک وزیراعظم بھی رہے۔
28 اکتوبر1958 کو ایوب خان نے ملک میں مارشل لاء کے ذریعہ تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے اور25 مارچ1969 تک اقتدار پر براجمان رہے۔ اس عرصہ میں ایوب خان نے1962 کا آئین متعارف کرایا جس میں براہ راست کے بجائے بالواسطہ انتخاب کا طریقہ اختیار کیا گیا تھا اور پارلیمانی طرز حکومت ترک کر کے صدارتی نظام حکومت متعارف کرایا گیا تھا۔ 1964 کے انتخابات میں مادرملت ایوب خان کے مقابل صدارتی امیدوار تھیں اور ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کے الیکشن ایجنٹ تھے۔ اسی طرح ” ن” لیگی رہنما خرم دستگیر کے والد غلام دستگیر بھی ایوب خان کے دسترخوان سے فیضیاب ہو رہے تھے۔ یوں تو ایوب خان کے حامیوں نے ہر طرح کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے تھے لیکن غلام دستگیر نے ایوب خان سے وفاداری کی تمام حدیں عبور کر لی تھیں اور انتخابات سے قبل مادر ملت کا انتخابی نشان لالٹین کتے کے گلے میں ڈال کر اپنے کم ظرف ہونے کا ثبوت دیا تھا 1965 میں اختلافات پیدا ہوئے اورجنوری1966 میں تاشقند معاہدہ کے بعد ایوب خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو بھی چلتا کیا تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے صدر جنرل محمد ایوب خان کی جانب سے برطرفی کے بعد تاشقند معاہدہ کو شدید تنقید کا نشانا بناتے ہوئے اس میں پاکستان کے خلاف سازش کا عندیہ دیا تھا اور تاشقند کے تھیلے سے سازش کو برآمد کرنے کا سوانگ رچا یاتھا 1966 کے اوئل میں وزارت سے برطرفی کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے عوام سے رابطہ کا راستہ چنا تھا اور بذریعہ ٹرین کراچی سے پشاور تک سفر کیا تھا ستمبر1965 کی جنگ میں کس کا پلڑہ بھاری تھا اور کس کا زیادہ رقبہ دشمن کے قبضہ میں چلا گیا تھا یہ اصل موضوع نہیں تھا پاکستان نے میڈیا کے میدان میں بھارت کو واضح شکست دی تھی قوم کو زمینی حقائق کا اتنا علم نہیں تھا جتنا میڈیا کے ذریعہ حاصل ہونے والی فتح کا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے تاشقند کے میدان میں جیتی ہوئی جنگ کو مذاکرات کی میز پر ہارجانے کے پروپیگنڈہ میں کشش موجود تھی اس جنگ کے بعد پاکستان بھی جنگ زدہ ممالک کی طرح معاشی کساد بازاری کا شکار ہو چکا تھا اشیاء ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تھا پھر ذوالفقار علی بھٹو کی شعلہ بیانی نے جلتی پر تیل کا کام کیا یوں ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کے لیے مشکلات پیدا کرنا شروع کردیں ایوب خان قبل ازوقت انتخابات کرانے ‘طرز حکومت میں تبدیلی لانے صدارتی کے بجائے پارلیمانی نظام نافذ کرنے پرآمادہ ہو گئے تھے لیکن جمہوریت کے دعویدار اور عوام کی حکمرانی کے علمبرداروں کا مقصد کچھ اور تھا جمہوری پارلیمانی نظام میں مشرقی پاکستان میں مضبوط گرفت رکھنے والی پارٹی کو فوقیت حاصل ہو سکتی تھی مشرقی پاکستان کی آبادی مغرب سے زیادہ تھی ذوالفقار علی بھٹو کی شعلہ بیانی نے ملک میں شدید انتشار پیدا کر دیا تھا ان حالات میں جنرل ایوب خان نے 25 مارچ1969 کو ملک میں مارشل لاء نافذ کرتے ہوئے اقتدار جنرل آغا محمد یحیی خان کے حوالے کر دیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی شعلہ بیانی اوریحییٰ خان کی خواہشِ اقتدار نے سقوط ڈھاکا کی بنیاد رکھی۔ سقوط ڈھاکا کے بعد یحییٰ خان کی خواہش اقتدار حسرت ناتمام میں تبدیل ہو گئی اور ذوالفقارعلی بھٹو نے اقتدار پر قبضہ کر لیا 1971 کی پاک بھارت جنگ کے دوران مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے نورالامین کو 7 دسمبر1971 کو وزیراعظم نامزد کیا تھا اور وہ 20 دسمبر1971 تک وزیراعظم رہے جب ان کے ڈپٹی پرائم منسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار پر قبضہ کرلیا ۔
سیاستدانوں کا شکوہ ہے کہ آمر تو طویل عرصہ اقتدار پرقابض رہتے ہیں لیکن سیاسی حکمرانوں کو مدت کار مکمل نہیں کرنے دی جاتی لیکن اس صورتحال کے ذمہ دار یہی سیاسی حکمران ہوتے ہیں ۔ 1971 میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا اس وقت ان کا کوئی حریف نہیں تھا۔ وہ14 اگست1973 تک سول چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر رہے اور 14 اگست1973 کو آئین کے نفاذ کے ساتھ ہی وزیراعظم بن گئے جس وقت انہوں نے اقتدار سنبھالا تھا اس وقت ان کا کوئی حریف نہیں تھا لیکن کبھی ختم نہ ہونے والے اقتدار کی خواہش کے نتیجے میں بے اثر حزب اختلاف پر وہ مظالم کیے گئے کہ مشرق اور مغرب ایک ہو گئے ۔دین بیزار نیشنل عوامی پارٹی اور دینی سیاست کے علمبردار مفتی محمود ،علامہ شاہ احمد نورانی اور جماعت اسلامی ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے جنوری1977 میں ذوالفقار علی بھٹو کو کسی نے مجبور نہیں کیا تھا کہ وہ قبل ازوقت انتخابات کا اعلان کریں لیکن منتشر حزب اختلاف کو قابو کرنے کی خواہش میں وہ ایسا کر بیٹھے اور پھر حزب اختلاف کے مطالبہ پر غور کرنے کے بجائے طاقت کے ذریعہ عوام کی آواز دبانے کی کوشش کی یوں 4 جولائی1977 کو جنرل ضیاء الحق کو اقتدار پرقبضہ کرنے کا موقع مل گیا اس طرح11 سال ایک ماہ اور14د ن ملک پر مارشل لاء کا عفریت مسلط رہا اگرچہ1985 میں انتخابات کے بعد ایک” منتخب” جمہوری حکومت وجود میں آچکی تھی لیکن عملاً جنرل ضیاء الحق کا فرمان ہی حکم کا درجہ رکھتا تھا۔پھر بہاولپورایئرکریش کے بعد بھی شہراقتدار میں کشمکش جاری رہی حکمرانوں نے کبھی اختلاف کو تسلیم نہ کرنے کی روش برقرار رکھی اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا عمل جاری رکھا اس میں حزب اختلاف سے زیادہ کردار حکمرانوں کا ہے انہوں نے کبھی اختلاف کے حق کو تسلیم نہیں کیا ۔
اگر نااہل نواز شریف عدالت کی جانب سے نااہل قرار دیے جانے اوراقتدار سے بیدخل کیے جانے سے قبل اپنی اہلیت کا مظاہرہ کرنے اور عمران خان کے مطالبہ پر قومی اسمبلی کے 4 حلقہ کھول دیتے تو کیا عمران خان کو عوام میں متحرک رہنے کا جواز حاصل رہتا اورکیا اس طرح وہ پاناما پیپرز کے معاملہ کو اس مقام پر لے جا پاتے جس کے نتیجے میں معاملہ عدالت اعظمیٰ تک پہنچا اور پھر جے آئی ٹی سے ہوتا ہوا نااہلی تک پہنچ گیا سیاستدانوں کو اگر مدت کار مکمل کرنے کا موقع نہیں ملا ہے تو اس کے ذمہ دار کوئی اور نہیں سیاستدان خود ہیں جو اقتدار میں ہوں تو خود کو عقل کل اور مخالفین کو پاگل اور ملک دشمن سمجھتے ہیں ان کا خیال ہوتا ہے کہ وہ ناگزیر ہیں ان کے بغیر ملک نہیں چل سکتا لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اجل کا ایک وقت مقرر ہے اگر دوران اقتدار پروانہ اجل آجائے تو ان کی ناگزیریت کس طرح برقرار رہے گی سیاستدانوں کا شکوہ بجا لیکن کیا ثابت کیا جا سکتا ہے کہ کسی آمر کی اس کے جونیئر نے ٹانگیں کھینچی ہوں ایوب خان 10 سال تک اقتدار میں رہے لیکن انہوں نے فوج کی کمان چھوڑ دی تھی ضیاء الحق 11 سال تک اقتدار اور تقریباً 14 سال تک فوج کی کمان کرتے رہے اس عرصہ میں کئی لیفٹینٹ جنرل ایسے تھے جو آرمی چیف بن سکتے تھے لیکن کسی بھی لیفٹینٹ جنرل نے ضیاء الحق کی ٹانگیں نہیں کھینچیں اسی طرح پرویزمشرف کے دور میں بھی کم از کم 2 لیفٹینٹ جنرل آرمی چیف بنے بغیر ریٹائرہو گئے لیکن ان میں سے کسی نے بھی پرویز مشرف کی ٹانگیں نہیں کھینچیں یوں جب تک ان آمروں نے چاہا یا ان کی مہلت عمل برقرار رہی یہ خود بھی اقتدار کے ایوانوں میں موجودرہے اب بھی وقت ہے کہ سیاستدان عقل کے ناخن لیں اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے بجائے اپنی باری کا انتظار کریں اور اس عرصہ کے دوران اپنے عمل سے عوام کو اپنا ہامی بنانے کی کوشش کریں ورنہ یہ شکوہ ہمیشہ برقرار رہے گا۔