جلدبازی کی لکیر
شیئر کریں
جلد بازی میں جو بھی کام کیا جائے اس کا نتیجہ عموما تر خراب ہی نکلتا ہے۔ تمناؤں اور چاہتوں کی جلد از جلد تکمیل انسان کی فطری آرزو ہے، سورہ الانبیاء میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا، انسان کو جلد باز پیدا کیا گیا ہے۔ جلدبازی بنی نوعِ آدم کے خلاف شیطان کا ہتھیار ہے، جلد بازی کے نتائج نقصان اور پشیمانی کی صورت میں نکلتے ہیں ۔ جلد بازی میں کوئی کام ممکن نہیں تو ملکوں کی تقسیم جلد بازی میں کہاں ممکن ہوسکتی ہے۔ برطانوی راج کو برصغیر کو تقسیم کرنے کی اتنی جلدی تھی کہ اس نے تقسیم کے معاملے میں مسلمانوں کے خدشات کو رد کیا، ان کے حقوق کو پامال کیا، ان کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا۔ یہ سب کچھ جلدبازی میں کیا گیا، سب سے پہلے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تقسیم کی تاریخ جون 1978سے پہلے15اگست 1947کر دی۔ سوال یہ ہے کہ انگریز نے کیوں طے کیا کہ سب کچھ جلدبازی میں کیا جائے۔
دوسرے یہ کہ تقسیم کی لکیر کھینچنے کے لیے برطانیا میں جس وکیل سر سِرل ریڈکلف کو منتخب کیا گیا وہ اس سے پہلے کبھی ہندوستان آیا تھا نہ اس کو ہندوستان کی سیاسی سماجی یا مذہبی مسائل اور مشکلات میں کوئی دلچسپی تھی۔ سر ریڈ کلف کو وسیع و عریض برصغیرکا بٹوارہ کرنے کے لیے صرف سات ہفتے دیے گئے، یہاں تو معمولی جائیداد کی تقسیم میں کئی سال لگ جاتے ہیں ۔ ریڈ کلف کی غیر جانبداری اور مسلمانوں سے بغض پہلے دن سے صاف ظاہر تھا۔ ریڈکلف کو وائسرائے ہند اور اس کے دفتری عملے سے رابطہ رکھنے سے منع کیا گیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ جب تک ہندوستان میں رہا، وائسرائے ہاؤس سے مسلسل رابطے میں رہا۔ رازداری کے دعوے کے باوجود ریڈ کلف نے کچھ فیصلے کانگریس کے کہنے پر بھی بدلے۔ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں پنجاب کے کچھ مسلمان اکثریت کے علاقے بھارت کو مل گئے۔
ایسی کیا جلدی تھی کہ انگلستان واپس جاتے ہی ریڈکلف نے اپنے سارے کاغذات ضائع کردیے۔ایسا کیوں ہوا؟ کہاگیا کہ اس کا طریقہ یہی تھا کہ جن کاغذوں کی ضرورت اسے نہ ہوتی تھی وہ کام ختم ہوجانے کے بعد انہیں ضائع کردیتا تھا۔ لیکن تقسیم کے وہ کاغذات جو ریڈکلف نے ضائع کیے وہ اس کے ذاتی نہ تھے بلکہ دونوں نئی حکومتوں بھارت اور پاکستان کی مشترکہ ملکیت تھے۔ ریڈکلف کے واپس جاتے وقت وہ کاغذات اس سے واپس کیوں نہ لے لیے گئے؟ اس سے شک پیدا ہوتا تھا کہ تقسیم کے کچھ فیصلے عام دیانت داری پر بھی مبنی نہ تھے۔ جہاں جلدی کرنی تھی وہاں ماؤنٹ بیٹن نے جان بوجھ کر دیر کی، ماؤنٹ بیٹن نے ریڈ کلف کے فیصلے پندرہ اگست1947کے بعد کیوں شائع کیے اور کیوں اس نے انھیں مہینوں دبائے رکھااور عوام کی بڑی تعداد کو اپنی تقدیر کے بارے میں شک میں مبتلا رکھا؟ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پْرتشدد واقعات میں بیس لاکھ افراد مارے گئے، کم وبیش ایک کروڑ افراد کو اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑی،تقسیم ہند کے وقت ہونیوالی ہجرت کو انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت قرار دیا جاتا ہے۔
تقسیم سے پہلے ہی کشت و خون بڑے پیمانے پر شروع ہو گیا تھا لیکن وائسرائے نے اس کے تدارک کے لیے کوئی موثر کارروائی نہ کی، سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ سر ریڈ کلف نے کس دباؤ کے تحت ،اتنے کم وقت میں اور ناقص معلومات کی بنیا د پر سرحد سازی کاکام کیوں قبول کیا،جب کہ اسے اس کام کا کوئی ارداک اور تجربہ بھی نہیں تھا۔ جلد بازی ہمیشہ افسوس اور ندامت پر ختم ہوتی ہے، اسی لیے جب ریڈکلف نے اپنی تقسیم کا نتیجہ ایک ایسے انسانی المیے کی صورت میں دیکھا جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی تو اس نے اپنے کام کی فیس جو چالیس ہزار روپے تھی سرکار برطانیہ کو واپس کردی تھی۔