افغانستان میں امریکا کا چھوڑا ہوا ورثہ
شیئر کریں
(مہمان کالم)
تھامس گبنز نیف
افغانستان میں بگرام ایئر بیس تقریباً 20 سال تک امریکی جنگ کا مورچہ رہی ہے، اس کے جڑواں رن وے سے اڑنے والے جنگی جہاز طالبان پر بمباری کرتے تھے، امریکی فوجی اور زخمی بھی یہیں سے اڑ کر امریکا پہنچتے تھے مگر سالہا سال کی تیاریوں کے باوجود امریکی فوج وہاں سے کسی جوش و خروش کے بغیر خاموشی سے روانہ ہو گئی۔ بظاہر افغان حکومت بھی اس امر سے بے خبر تھی کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے۔ کئی ہفتوں سے طالبان کے حملے جاری ہیں جن میں افغان سکیورٹی فورسز کے لوگ مارے گئے ہیں اور سینکڑوں فوجی ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ ملک بھر کے جنگجو سردار اور نئے ملیشیا کمانڈرز اپنے ہم وطنوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ ملک بچانے کے لیے ان کے ساتھ شامل ہو جائیں۔ سرکاری فوج، طالبان جنگجو، وار لارڈز اور شہری ملیشیا کی ممکنہ محاذ آرائی شدید تشدد اور غارت گری کی نشاندہی کر رہی ہے۔ صدر جو بائیڈن کے بقول امریکی فوج اپنی تاریخ کی طویل ترین جنگ ختم کرنے کے لیے 31 اگست تک افغانستان کو مکمل طور پر خالی کر دے گی۔ بگرام کے نئے مکین افغان فوجی ہوں گے جنہیں امریکا کی شروع کردہ جنگ ورثے میں ملے گی۔ اس کے علاوہ انہیں فوجی ہتھیار، گاڑیاں اور اسلحہ بھی ملے گا جس سے افغانستان کا مستقبل غیر یقینی صورتِ حال کا شکار ہو جائے گا مگر اس میں سے اتنا امریکی اسلحہ چوری ہو کر طالبان کے ہاتھ لگ چکا ہے یا انہوں نے اس پر قبضہ کر لیا ہے کہ اگر وہ یہ کہیں کہ ان کے پاس روسی کلاشنکوف سے زیادہ امریکی M16 ہیں تو ان کی بات کو جھٹلانا آسان نہیں ہوگا حتیٰ کہ افغانستان کی جنگ کی نگرانی کرنے والے امریکی انسپکٹر جنرل بھی یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ گزشتہ بیس سال کے دوران افغان فورسز کو مضبوط کرنے کے لیے امریکا نے کتنا اسلحہ وہاں بھیجا ہے۔ امریکا جو کچھ پیچھے چھوڑ کر گیا ہے اس سے کئی دہائیوں کے نقصان کا اندازہ ہو رہا ہے کہ افغان سویلین سمیت دونوں طرف کتنا جانی نقصان ہوا ہے اور کتنے لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ امریکی جرنیلوںکی بار بار ناکام ہونے والی سٹریٹیجی بھی اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہے‘ جو کہتے تھے کہ ہر چیز شیڈول کے مطابق اور بہترین انداز میں ہو رہی ہے۔
حشمت اللہ گل زادہ‘ جو امریکی فوج کے ساتھ بطور ٹرک ڈرائیور کام کرتا رہا ہے‘ بگرام ایئر بیس پر ایک سال پہلے کھولی گئی اپنی دکان کے کائونٹر پر بیٹھا تھا۔ فرش سے چھت تک دکان انواع و اقسام کی اشیا سے بھری ہوئی تھی۔ بگرام‘ جو انگوروں کی بیلوں سے لدا ہوا قصبہ ہے اور جس کی معیشت پچھلے 40 سال سے 2 سپر پاورز کی چھوڑی ہوئی اشیا پر چلتی رہی‘ میں گل زادہ جیسے دکانداروں کے صبر اور برداشت کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ جون کے آخر میں جب امریکی فضائیہ کے آخری کارگو جیٹ یہاںسے اڑانیں بھر رہے تھے گل زادہ جیسے لوگوں کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ امریکی واقعی ہمیشہ کے لیے یہاں سے چلے جائیں گے۔ وہ کہتا تھا ’’اگر امریکی چلے گئے تو یہاں کاروبار مندا پڑ جائے گا‘‘۔ کھڑکی کے پاس ریڈ رپ جیسا ہائی کیفین والا انرجی ڈرنک پڑا تھا جس نے ہزاروں امریکی اور نیٹو فوجیوں کو گشت کے دوران اور بکتر بند گاڑیوں کے اندر طویل عرصے تک جگائے رکھا جاتا تھا۔
گل زادہ کہتا ہے کہ 2001ء میں افغانستان پر امریکی جارحیت کے بعد ریڈ رپ افغان نوجوانوں میں مقبول ہونے والا واحد انرجی ڈرنک تھا جو 120 افغانی یا 1.5 ڈالر کا مل جاتا تھا۔ کابل میں لگے ہوئے بل بورڈ سے بھی اس انرجی ڈرنک کی مقبولیت عیاں تھی۔ دکان کے فرش پر بسکٹس، کیکس، شیمپو کی بوتلوں کی قطاریں پڑی تھیں اور ان کے ساتھ ویلسرو کی پٹیوں کے ڈھیر تھے جو زخموں سے خون کے بہائو کو روکنے کے لیے باندھی جاتی ہیں۔ جو بھی امریکی فوجی یا کنٹریکٹر یہاں سے گزرتا ہے‘ ایک پٹی ضرور خریدتا ہے۔ ان کا استعمال بہت آسان ہے اور ان کی مدد سے بہت سی قیمتی جانیں بچائی گئی ہیں۔ افغان جنگ میں امریکا کے بیس ہزار سے زائد فوجی زخمی ہوئے تھے (جبکہ 1897 امریکی فوجی براہ راست طالبان کے ساتھ جنگ میں اور 415 دیگر وجوہات کی بنا پر مارے گئے) شریان بند پٹیوں سے سڑک کنارے نصب بم پھٹنے سے یا باقاعدہ حملوں میں زخمی ہونے والوں کی جان بچانے میں بڑی مدد ملی۔ اسے بازو یا ٹانگ پر باندھ کر کستے جاتے ہیں حتیٰ کہ خون بہنا رک جاتا ہے۔ گل زادہ اپنی دکان پر یہ پٹی ریڈ رپ انرجی ڈرنک سے بھی25 سینٹ کم قیمت پر فروخت کرتا ہے۔ عام طور پر ادویات سپلائی کرنے والے ہی یہ پٹی خریدتے ہیں۔ دکاندار بتاتے ہیں کہ اس کے علاوہ امریکی فوج کے زیر استعمال سٹریچرز بھی فروخت ہوتے ہیں جنہیں میدان جنگ سے مرنے یا زخمی ہونے والے فوجیوں کو لانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
چھٹیوں کے موقع پر ایئر بیس میں قائم ا سٹاف آفس کے کارنر کو سجایا جاتا تھا۔ بگرام ایئر بیس پر ہزاروں فوجی مقیم تھے اس لیے یہاں کئی فاسٹ فوڈ ریستوران اور شاپس تھیں۔ یہاں ایک بدنام زمانہ فوجی جیل بھی تھی جسے بعد میں افغان حکومت کے حوالے کر دیا گیا تھا؛ تاہم جوںجوں امریکی فوج میں کمی ا?تی گئی بگرام ایئر بیس کے کئی حصوں کو آہستہ آہستہ منہدم کیا جاتا رہا۔ جب اخری امریکی فوجی دستہ یہاں سے روانہ ہوا تو انہوں نے بکتر بند گاڑیاں اور 15 ہزار سے زائد ایسے فالتو آلات تلف کر دیے جن کے بارے میں انہیں یقین تھا کہ افغان شہری انہیں منافع کمانے کے لیے فروخت کر دیں گے؛ تاہم ہر چیز کو تلف یا تباہ نہیں کیا گیا۔ ایک دکان پر فوجیوں کے زیر استعمال رہنے والے بوٹوںکا جوڑا پڑا تھا۔ یہ ان 80 ہزار فوجیوں کی نشانی تھی جو گزشتہ دو عشروں سے افغان سرزمین پر گشت کرتے رہے تھے۔ ان کے نمایاں پرنٹس سے طالبان کو جنوبی افغانستان کے صحرائی علاقے میں پٹرولنگ کرنے والے امریکی فوجیوںکا پتا چل جاتا تھا۔ کارنیگل جیسی خطرناک وادی میں مشکل چڑھائیاں چڑھنے اور برفیلے پانی والی ندیوں میں سے گزرنے کی وجہ سے یہ بوٹ پھٹے ہوئے تھے۔ امریکی فوجی یہ بوٹ پہن کر ہمیشہ اپنی نظریں زمین پر ہی رکھتے تھے۔ پٹرولنگ کرتے ہوئے ایک کے بعد دوسراقدم اٹھاتے ہوئے امریکی فوجی نیچے دیکھتے تھے کہ کہیں ان کے قدموں کے وزن سے زمین میں نصب کوئی بم یا بارودی سرنگ پھٹ نہ جائے۔
آخرکار سالہا سال کی جنگ کے دوران امریکی فوجی جن جن مقامات پرگھومے تھے‘ ان میں سے کئی ایک اب طالبان کے قبضے میں ہیں۔ آج کل طالبان ایک ایک انچ آگے بڑھتے ہوئے کابل کی طرف گامزن ہیں اور اپنی فوجی طاقت سے ایک ایک کرکے کئی اضلاع فتح کرتے جا رہے ہیں؛ اگرچہ افغان سکیورٹی فورسز نے ان میں سے کئی پر دوبارہ بھی قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے مگر ابھی تک ان کے حملوں کی شدت کو توڑا نہیں جا سکا۔ اب جبکہ افغان طالبان بگرام ایئر بیس سے پچاس میل سے بھی کم فاصلے پر رہ گئے ہیں‘ بگرام ایئر بیس کے قریب قائم ان دکانوں میں خوف کا ایک خاص احساس جاگزیں نظر ا?تا ہے۔ جسم کے دفاع کے لیے استعمال ہونے والی بلٹ پروف پلیٹس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دکان دار نے بتایا کہ اب یہ پلیٹس برائے فروخت نہیں ہیں۔ یہ ہمارے اپنے لیے ہیں کیونکہ ا?نے والے دنوںمیں یہاں شدید جنگ ہونے والی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔