ناقابلِ تسخیر کاتاثر اورخدشات
شیئر کریں
حمیداللہ بھٹی
اپنے دونوں ادوار میں ناقابلِ تسخیرکاتاثردیے رکھاحالیہ انتخاب سے قبل مینج کیے تمام ایگزٹ پول بھی مودی کے دعوے اب کی بار چار سوپار کی تصدیق کررہے تھے مگر سوشل میڈیا پر موجود غیرجانبدارحلقوںکا غیرمبہم لفظوں میں کہنا تھے حالات حکومت کی بجائے اپوزیشن کے لیے بہتر ہیں لیکن حکمران حلقہ اور ہمنوا میڈیا ایسے کسی خطرے کی پُرزور نفی کررہا تھا اسی لیے چارجون کے نتائج حکومتی حلقوں اور ہمنوا میڈیا کے لیے چونکانے کا باعث البتہ غیر جانبدار حلقوں کی توقعات کے عین مطابق ہیں خود راقم نے گزشتہ ماہ بائیس مئی کو بھارت میں تبدیلی کی ہموار ہوتی راہ کے عنوان سے اپنی تحریرمیںلکھ دیا تھا کہ تیرہ مئی کے چوتھے انتخابی مرحلے تک صورتحال اتنی بدل چکی ہے کہ چار سوپار کامودی دعویٰ کھوکھلا لگتا ہے اورحکمران جماعت کو غیرمتوقع نتائج کا سامنا ہو سکتا ہے جس کی وجہ یہ تھی کہ ہندوتوا کے فروغ کے باوجود کئی اقدامات سے مودی کی مقبولیت کودھچکالگاہے مثال کے طورپر مودی کے گزشتہ دونوں ادوار میں بھارتی معیشت نے تیز رفتار ترقی کی اِس دوران جی ڈی پی 8.5فیصدتک پہنچ گئی اسی بناپر دعویٰ کیا جارہا تھا کہ دنیا کی پانچویں معیشت بنانے کے بعد تیسرے دور میں ملک کو تیسری بڑی معیشت بنایاجائے گا مگر دولت کی منصفانہ تقسیم پرتوجہ نہ دی گئی جس سے امیر اور غریب کے درمیان خلیج بڑھتی گئی حالانکہ ریاستی ڈھانچے کو قابو کرنے کے ساتھ میڈیا کی آزادی بھی سلب کر لی گئی تاکہ تنقید کا کوئی امکان نہ رہے لیکن مودی اور اُس کے حواری سوشل میڈیا کی طاقت اور اپروچ کادرست اندازہ لگانے سے قاصر رہے اور انتخابی نتائج سے قبل چار سوپارکا راگ الاپتے رہے اسی نظراندازہونے والے سوشل میڈیا نے مودی عزائم کو شکست دینے میں فیصلہ کُن کردار ادا کیا ہے اوراب مودی کے تیسری مدت کے قتدارکو کھوکھلا کہا جارہاہے رام مند ر کے افتتاح سے شروع ہونے والا انتخابی سفر ایودھیامیں شکست کی صورت میں ختم ہوگیا ہے حالانکہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانا اور پھر افتتاحی پوجا کی براہ راست نشریات سے بی جے پی کو یقین تھا کہ ہندواکثریت کا ووٹ مل جائے گا اسی لیے جیت کے بعدسیکولر آئین میں ترامیم کا اِرادہ ظاہر کیا جارہا تھا تاکہ ملک کو ہندوستان بنایا جا سکے مگر بھارت جو کہ ایک کثیر لسانی اور مزہبی ملک ہے میں ایسی کوئی کوشش اگر کرتاہے تو ملکی وحدت کاپارہ پارہ ہونا یقینی ہے اسی خیال اور سوچ پر اپوزیشن نے زوردار انتخابی مُہم چلائی اور عوام کو باور کرانے میں کامیاب رہی کہ مودی کواگر دوتہائی اکثریت ملتی ہے تویہ ملکی سالمیت کے لیے نقصان کا موجب ہو گی جس سے ہندواکثریتی ووٹر بی جے پی سے کسی حدتک بدظن ہوا۔
بھارت میں مسلمان ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہیں جولوک سبھا کے سو حلقوں کے نتائج پر اثر انداز ہونے کی طاقت رکھتے ہیں جنھیں بی جے پی نے ہمیشہ تقسیم کرنے اور خوفزدہ رکھنے کی کوشش کی گجرات کی طرح دہلی کے فسادات میں بھی ریاستی ڈھانچے نے نہ صرف بلوائیوں کی حوصلہ افزائی و رہنمائی کی تاکہ زیادہ سے زیادہ جانی نقصان کی منصوبہ بندی پر عمل ہو بلکہ اپنے دفاع کی کوشش کرنے والے مظلوم مسلمانوں کو واقعات کا زمہ دار ثابت کرنے کی بھی پوری کوشش کی آسام میں طلاق کا مسلہ ہو یا اترپردیش میں گوشت بیچنے کا،احتجاج کی پاداش میں درجنوں مسلمان مار دیے گئے ملک کی سب سے بڑی اقلیت بُری طرح خوفزدہ ہوچکی ہے اوراپنے بچائو کے لیے بی جے پی کے مخالف اپوزیشن اتحادکی طرف متوجہ ہوئی ہے بظاہر حالیہ عام انتخابات میں اپوزیشن نے بھی مسلمان امیدواروں کو ٹکٹ دینے میں احتیاط کی اسی بناپر پورے ملک سے چوبیس مسلمان ہی لوک سبھا میں پہنچ سکے ہیں لیکن یہ نہیں بھولناچاہیے کہ تمام کامیاب مسلمانوں کا تعلق اپوزیشن سے ہے مگر بھارتی آبادی کے چودہ فیصد مسلمانوں کی لوک سبھا میں نمائندگی محض پانچ فیصد بھی نہیں رہی یہ حقیقت ہے کہ حالیہ عام انتخابات میں مسلمانوں کاووٹ بی جے پی کے سواہر جماعت کوگیاجوانتخابی نتائج میں بڑے پیمانے پر ردوبدل کا باعث بن گیا ایودھیا میں مسلمانوں کے ووٹ نے ہی رام مندر تک کے سفر کوشکست سے دورچار کیالیکن مودی اِس نفرت سے لا علم رہااوربددستورمسلمانوں کو گھس بیٹھیے اور بچے پیداکرنے والی مشین کہتا رہا اور احمقانہ حرکات و اظہارسے اپنی جماعت کو لے ڈوبا اب تو ایسی قیاس آرائیاں بھی گردش کرنے لگی ہیں کہ شاید ہی مودی تیسری مدت پوری کر سکیں بلکہ عین ممکن ہے جلد ہی امیت شاہ یا کسی اور معتمدخاص کو اپنی مسند سونپ کر اقتدارسے الگ ہو جائیں کیونکہ مودی کے ناقابلِ تسخیر ہونے کا تاثرتو ختم ہو چکا حالیہ نتائج ایسی سرزنش ہیں جو مودی کو سیاسی انجام تک بھی لیجا سکتے ہیں۔
ایک دہائی تک ناقابلِ تسخیرہونے کاتاثر بنائے رکھنے والے مودی کے بارے اندازہ ہے کہ حالیہ اقتداربااختیارنہیں ہوگا اِس اندازے کی وجہ یہ ہے کہ بظاہر بی جے پی کو اقتدار مل گیا ہے اور یہ واحدبڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے مگرتیسری مدت کے لیے سادہ اکثریت حاصل نہیں کر سکی لوک سبھاکے 543 کے ایوان میںسادہ اکثریت کے لیے 272نشستیں درکارہیں مگر یہ جماعت صرف240 تک محدود ہوچکی ہے حالانکہ پہلے دونوں ادوار میں کم ازکم سادہ اکثریت حاصل کرتی رہی ہے اب اتحادیوں کے رحم وکرم پر ہے ماضی میں جنتادل یونائیٹڈکے سربراہ نائیڈو کھلے عام مودی کو دہشت گرد کہتے رہے اسی بناپر خدشہ ہے کہ پنڈت جواہرلال نہرو کے بعدمودی تیسری بار وزیرِ اعظم کا منصب حاصل کرنے کا ریکارڈقائم کر چکے لیکن مستقبل تابناک نظر نہیں آتاخیر حاصل ہونے والااقتدار مضبوط یا دیرپا ثابت ہوتا ہے یا نہیں اِس کابہتر جواب تو وقت ہی دے سکتاہے بظاہرحالات اچھے نہیں مخدوش ہیںبی جے پی کی زیرِ قیادت اتحاد کی مجموعی طور پر 293 جبکہ کانگرس کی قیادت میں انتخابی میدان میں اُترنے والے اپوزیشن اتحاد انڈیا کی لوک سبھامیں 232 نشستیں ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ مشاورت اور شراکتِ اقتدار پر یقین نہ رکھنے والے آمرمزاج مودی کب تک اتحادی حکومت قائم رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں کیونکہ اب کی بار ایک مضبوط اپوزیشن کمزور حکومت کے مدِ مقابل ہوگی۔
مودی کو حاصل ہونے والے اقتدار کو کھوکھلے قرار دینے کے ساتھ کچھ تجزیہ کار اُن کے طرز سیاست میں کسی حدتک تبدیلی کی قیاس آرائیاں کرتے ہیں کہ ممکن ہے نفرت پر مبنی بیانیہ ترک کردیں اورعام بھارتی ووٹرزکا دل جیتنے کے لیے کارکردگی دکھانے کی کوشش کر یں مگر اکثریت متفق ہے کہ انتخابی نتائج سے زخمی مودی مستقبل میں زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں سنگھ پریوارجو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آرایس ایس) کی قیادت میں عسکریت پسند ہندو تنظیموں کا مجموعہ ہے کمزور اقتدارسے فائدہ اُٹھاکر بھارت کو ہندوراشٹر بنانے کے لیے زیادہ سرگرمی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں اور اپنی کھوئی مقبولیت دوبارہ حاصل کرنے کے لیے مودی بھی اُن کا ساتھ دے سکتے ہیں جس سے نہ
صرف سیکولرازم اور جمہوریت کے لیے خطرات میں اضافہ ہو گا بلکہ مسلمان مزید غیر محفوظ ہو جائیں گے خدشہ تویہ بھی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حثیت ختم کرنے کے بعد اقتدار کو مضبوط بنانے کے لیے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تنازعات بڑھانا بھی خارج ازمکان نہیں جس سے خطے میں امن و سلامتی کے امکانات معدوم ہو سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔