پنجاب کا پہلا جدید طرز کا قبرستان
شیئر کریں
لاہور کے مضافات میں قائم ’’شہرِ خموشاں‘‘میں کفن دفن کے تمام مراحل کے لیے سہولتیں ایک ہی چھت تلے فراہم ہوسکیں گی
پنجاب حکومت کے تحت قائم شہرِ خموشاں اتھارٹی صوبہ بھر میں دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کے بڑے شہروں کی طرز پر قبرستان بنا رہی ہے
اپنے پیاروں کو قبرستان چھوڑ کر جانا شاید زندگی کا سب سے تکلیف دہ عمل ہوتا ہے تاہم پاکستان کے بڑے شہروں میں میت کو گھر سے قبرستان تک پہنچانا اکثر اوقات زیادہ تکلیف دہ تجربہ ثابت ہوتا ہے۔میت کو غسل دینے کا انتظام، کفن و تابوت، قبر کی جگہ خریدنا اور پھر میت کو تیار کر کے جنازہ گاہ اور وہاں سے قبرستان تک اس کی ترسیل، سب کا بندوبست مرنے والے کے لواحقین کو سوگواری سے بھی شاید پہلے کرنا پڑتا ہے۔متوسط اور نچلے طبقے کے لوگ ان تمام مراحل سے متعلقہ اخراجات اور لوازمات سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ یا پھر سپورٹ سسٹم کی عدم دستیابی کسی بھی طبقے کے شخص کو مشکل میں ڈال سکتی ہے۔تاہم مرنے والے کا تعلق اگر پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں سے ہو تو ان کوسرکار سے اور بھی کچھ شکایات ہوتی ہیں۔مثال کے طور پر لاہور میں رہنے والی سکھ اور ہندو برادریوں کے لیے شہر میں ایک ہی شمشان گھاٹ ہے۔
سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے لاہور کے رہائشی گوپال سنگھ نے برطانوی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ان کے زیادہ تر لوگوں کو اپنے مردوں کی آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے انہیں پنجاب کے شہر ننکانہ صاحب کے گردوارے میں لے کر جانا پڑتا ہے جو لاہور سے تقریباً اسی کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔اسی طرح لاہور ہی میں عیسائی برادری کے لیے قبرستان مختص ہیں جن میں سے کئی توصدیوں پرانے ہیں۔ لاہور کیتھیڈرل کے ڈین ویری ریورنڈ شاہد معراج کے مطابق ان میں جگہ تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ویری ریورنڈ شاہد معراج کا کہنا ہے کہ ‘وہاں پر جگہ بہت کم ہو گئی ہے بلکہ اب تو نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہم بہت عرصے سے حکومت پنجاب سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں جگہ دی جائے۔اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ سرد خانوں کی کمی کی وجہ سے میتیں رکھنے کو اکثر جگہ نہیں ملتی تاکہ لوگ ملک سے باہر سے آ کر اپنے پیاروں کی آخری رسومات میں شرکت کر سکیں۔’ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے پیاروں کو ایک باوقار تدفین دے سکے اور لوگ دیتے بھی ہیں۔ بگر بعض لوگوں کے لیے اتنے اخراجات اٹھانا یا انتظامات کرنا مشکل بھی ہو جاتا ہے۔’
ان مسائل کے پیشِ نظر پنجاب حکومت نے حال ہی میں شہرِ خموشاں کے نام سے ایک اتھارٹی قائم کی ہے جو صوبہ بھر میں دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کے بڑے شہروں کی طرز پر قبرستان بنا رہی ہے۔اس منصوبے کے تحت تعمیر کیے جانے والا پہلا جدید طرز کا قبرستان لاہور کے مضافات میں بنایا گیا ہے ۔ شہرِ خموشاں کفن دفن کے ان تمام مراحل کے لیے سہولتیں ایک ہی چھت تلے فراہم کرے گا۔
شہرِ خموشاں اتھارٹی کے مینیجنگ ڈائریکٹر سلمان صوفی نے برطانوی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس منصوبے کے تحت نہ صرف ملک کی اکثریتی آبادی بلکہ اقلیتوں کے لیے بھی ان کی ضروریات کے مطابق قبرستان یا آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے جگہیں جدید طرز پر تعمیر کی جائیں گی۔انھوں نے بتایا کہ پنجاب حکومت نے حال ہی میں شہرِ خموشاں کے نام سے ایک اتھارٹی قائم کی ہے جو صوبہ بھر میں دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کے بڑے شہروں کی طرز پر قبرستان بنا رہی ہے۔اس منصوبے کے تحت تعمیر کیے جانے والا پہلا جدید طرز کا قبرستان لاہور کے مضافات میں بنایا گیا ہے ،شہرِ خموشاں کفن دفن کے ان تمام مراحل کے لیے سہولیات ایک ہی چھت تلے فراہم کرے گا۔مْردوں کو غسل دینے کے لیے جدید طرز کے خانے جات موجود ہوں گے جبکہ وضو کرنے اور انتظار کرنے کی جگہیں علیحدہ سے موجود ہوں گی۔قبرستان میں جدید کیمرے بھی نصب کیے جا رہے ہیں جن کی مدد سے لوگ ملک کے کسی بھی حصے سے یا ملک سے باہر سے بیٹھ کر بھی آن لائن اپنے پیاروں کی قبریں دیکھ سکیں گے۔
میتوں کی تدفین کاتمام بندوبست شہرِ خموشاں میں ہوگا۔ میت کی تیاری سے لیکر جنازہ گاہ اور قبر کی جگہ سب ایک ہی مقام پر ہو گا۔‘ قبرستان میں جدید طرز کا ایک سردخانہ بھی موجود ہے جہاں بیک وقت 40 میتوں کو رکھنے کی گنجائش ہے قبرستان میں آٹھ ہزار قبروں کی گنجائش موجود ہے۔ تمام قبریں بلا تفریقِ طبقہ ایک ہی سائز اور طرز کی ہوں گی اور ان کو ترتیب سے بلاکوں کی صورت میں بنایا جائے گا۔ قبر کھودنے کے لیے مشینری کا استعمال کیا جائے گا۔ہم فروری 2018 تک ایسے 20 سے 25 قبرستان بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں جو اگلے 10 سے 15 سال کی ضروریات کو پورا کر سکیں گے۔
شہرِ خموشاں کیسے کام کرے گا؟’آپ کو محض ایک ٹیلیفون کال کرنی ہے، کفن دفن کا تمام بندوبست شہرِ خموشاں میں ہوگا۔ میت کی تیاری سے لیکر جنازہ گاہ اور قبر کی جگہ سب ایک ہی مقام پر ہو گا۔ یہاں تمام ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہوگا اور سب سے بڑی بات یہ کہ لوگوں کو کوئی پیسہ دینے کی ضرورت نہیں ہو گی۔’ایمبولینس کے ذریعے میت قبرستان لائی جائے گی۔ اس کے لواحقین فون پر پہلے ہی سے جنازہ اور تدفین کا وقت اور قبر کی جگہ کا تعین یہاں کاؤنٹر پر بیٹھے شخص کے پاس کروا چکے ہوں گے۔
لاہور میں فیروزپور روڑ پر بننے والے پہلے قبرستان میں آٹھ ہزار قبروں کی گنجائش موجود ہے۔ قبر کھودنے کے لیے ایکسکویٹر یعنی مشینری کا استعمال کیا جائے گا جبکہ لواحقین اپنے پیاروں کی قبریں باآسانی کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ کی مدد سے تلاش کر سکیں گے۔اس قبرستان میں جدید طرز کا ایک سردخانہ بھی موجود ہے جہاں بیک وقت 40 میتوں کو رکھنے کی گنجائش ہے۔ اسی طرز کے لاہور میں چار مزید قبرستان بنائے جائیں گے جبکہ ملتان، فیصل آباد اور سرگودھا میں ایسے قبرستانوں کی تعمیر جاری ہے۔
سلمان صوفی نے بتایا کہ ‘وہ جب لوگوں کو دیکھتے تھے کہ کس طرح ان کو مردوں کو غسل دینے میں یا میت کو تیار کرنے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو میں نے سوچا کہ ایسا ایک قبرستان بنایا جائے جہاں لوگوں کو ایسے مشکل وقت میں کچھ نہ کرنا پڑے اور جگہ جگہ نہ جانا پڑے۔شہرِ خموشاں میں آنے والوں سے پیسے نہیں مانگے جائیں گے۔ یہ تمام سہولت مکمل طور پر حکومتِ پنجاب فراہم کرے گی جس کے لیے سلمان صوفی کے مطابق ایک ارب روپے پہلے ہی سے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں مختص کر دیے گئے ہیں۔ 10 لاکھ کا فنڈ اور دو ایمبولینس گاڑیاں مخیر افراد کی طرف سے عطیہ کیے جا چکے ہیں۔سلمان صوفی کا کہنا تھا کہ ایسے مزید قبرستان پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی تعمیر کیے جائیں گے۔ فروری 2018 تک وہ ایسے 20 سے 25 قبرستان بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں جو اگلے 10 سے 15 سال کی ضروریات کو پورا کر سکیں گے۔ ان میں اقلیتوں کے لیے قبرستان اور سہولتیں بھی شامل ہوں گی۔ان کاکہناتھا کہ’ہمیں اقلیتوں کے مسائل کا پوری طرح ادراک ہے اسی لیے ہم نے شہرِ خموشاں قانون میں یہ شق رکھی ہے کہ پاکستان میں بسنے والی ہر اقلیت کے لیے قبرستان اور آخری آرام گاہیں اسی جدید طرز پر تعمیر کی جائیں گی۔”ان کا کہنا تھا کہ ہندوؤں اور سکھوں کے لیے شمشان گھاٹ بنائے جائیں گے۔ اسی طرح اتھارٹی عیسائیوں کے لیے اسی طرز کے قبرستان تعمیر کرے گی جو بنانے کے بعد ان کے حوالے کر دیے جائیں گے۔