میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کیا آئین کی پابندی ضروری نہیں؟

کیا آئین کی پابندی ضروری نہیں؟

ویب ڈیسک
منگل, ۱۳ جون ۲۰۱۷

شیئر کریں

اب اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ قادیانی فرقہ اسلام کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے۔7ستمبر 1974کوقومی اسمبلی کے اجلاس میںمتفقہ قراردار کے ذریعے اس گروہ کو غیر مسلم اقلیت قراردیا گیا تھاان مرتدین وزندیقین ناسوروں نے آج تک اپنے ووٹ غیر مسلموں کے خانوں میں درج نہیں کروائے بلکہ انہیں غیر مسلم قرار دیے جانے والی قومی اسمبلی کی قرار داد کا مذاق اڑاتے اور صحیح العقیدہ مسلمانوں کا منہ چڑاتے ہیں کہ آپ نے قومی اسمبلی سے ہمیں کا فر قرار دلوا کر ہمارا کیا کرلیا ہے؟عقیدہ ختم نبوت اسلام کا بنیادی اور اساسی عقیدہ ہے، عقیدۂ ختم نبوت قرآن مجید کی ایک سو آیات مبارکہ اور دو سو احادیث سے ثابت شدہ ہے۔ اجماع امت بھی سب سے پہلے عقیدہ ٔ ختم نبوت پر ہوا اور ہماری پوری ملت اسلامیہ کے اتحاد کا مر کزی اور اصل نقطہ عقیدہ ختم نبوت ٹھہرا ۔پوری دنیا کے مسلمان عقیدہ ختم نبوت اور ناموس رسالت کا تحفظ کرنے والے، حضور ﷺ کی ذات مبارکہ ،ان کی شان وشوکت اور عظمت کے نگہبان ،پاسبان اور چوکیدار ہیں۔ہماری نئی نسل کو قادیانی شر انگیزوں سے اپنا ایمان بچانے کے لیے ان ناسوروں کے غلط عقائد کے بارے میں بھی آگاہی ہونی چاہیے ،ہر مسلمان بالخصوص نوجوانوں کو جید علماء سے کم ازکم زندگی میں ایک ماہ عقیدہ ختم نبوت اور قادیانیت سے آگاہی کا کورس کرنا چاہیے ۔چونکہ اپنے غلط عقائد کے مطابق قادیانی ہوں یا لاہوری گروپ یہ پاکستان اور اسلام کے غداروں کے روپ میں ہمارے وطن عزیز کو بدنام کرنے کے لیے اپنی مظلومیت کا رونا روتے اور چیخ و پکار کرتے رہتے ہیں تاکہ اسلام دشمن سامراجی قوتیں بشمول اسرائیل وغیرہ ان کی آہ و بکاسن کر ان کی امداد کرتے رہیں۔تحریک ختم نبوت جو 29مئی 1974کو قادیانی مرتدین کے نشتر میڈیکل کا لج ملتان کے طلباء پر قاتلانہ حملوں سے شروع ہوئی تھی(قبل ازیں 1953کی تحریک ختم نبوت میں تو ایک ہی روز لاہور میں دس ہزار سے زائد مسلمان نوجوانوں ،بوڑھوں خواتین اور بچوں ،بچیوں کو ٹینکوں سے روند ڈالا گیا تھا)سوات کی سیر کو جاتے ہوئے نشترکالج کے طلباء نے 23 مئی 1974 کوچناب نگر( سابقہ ربوہ)کے ریلوے اسٹیشن پر موجود قادیانیوں سے بحث و مباحثہ کے دوران راقم الحروف کا لکھا ہوا پمفلٹ "آئینہ مرزائیت”دکھایا اور اس میں موجود ان کی کتب سے منقول ان کے کفریہ عقائد ،توہین رسالت ،توہین انبیاء،توہین قران مجید، توہین مکہ مدینہ، توہین حضرت امام حسین عالی مقام ،توہین حضرت علی المرتضیٰ شیر خداکی نشاندہی کی تو قادیانی بلبلانے اور منمنانے لگے۔ طلباء تو ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے ریل گاڑی میں روانہ ہوگئے مگراس معمولی بات کا بدلہ لینے کے لیے قادیانیوں نے نشترکالج کے طلباء کی سوات سے واپسی والے دن یعنی29مئی1974کو پورے ملک سے مرتد نوجوانوں کو اکٹھا کرکے باقاعدہ ٹرین پر حملہ کر ڈالا۔ان مسلح قادیانی نوجوانوں نے نشتر کالج کے طلباء کی ریلوے بوگی میں موجود174طلباء کو شدید مجروح و زخمی کرڈالا تھا اس واقعہ پر راقم اور نشتر یونین کے عہدیداروں کی پریس کانفرنس اگلے روز پورے ملک کے اخبارات کی لیڈ اسٹوری بن گئی جس پر ملک بھر کے تمام مسلمان چاہے وہ کسی مسلک،فرقوں یادینی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہوں ،سب نے متحد ہو کر تحریک چلائی اور کامیاب ہو گئے۔ 1974سے لے کر آج تک قادیانی مرتدین اپنے آپ کو آئینی طورپر غیر مسلم اقلیت قرار دے دیے جانے کے بعد اسے تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں، اپنے ووٹ غیر مسلموں کے ساتھ علیحدہ نہیں لکھواتے اور گُھس بیٹھیوں کی طرح اسلام اور پاکستان کے خلاف سازشوں کے جال بنتے رہتے ہیں۔اپنے عقیدے کے مطابق مخصوص مرزاواڑوں میں مردے امانتاً دفن کرتے کہ ہندو پاک کے متحد ہونے پر اکھاڑ کر قادیان (اپنے ہیڈ کوارٹر) لے جائیں گے۔ اس طرح یہ گروہ مسلسل پاکستان کے توڑنے میں مصروف ہے مگر مسلمان اپنے اکابرین، علمائے اسلام، پیران عظام اور سبھی مسلمانوںکی جدو جہد کو قطعاً رائیگاں نہیں جانے دیں گے ۔اور ان کی طرف سے غیر مسلم قرار دیے جانے والی 1974کی آئینی ترمیم کو ختم کرنے کی ناپاک کوششیں قطعاً ناکام ہو جائیں گی۔پاکستان کلمہ طیبہ کی بنیاد پر وجود میں آنے والا ایک نظریاتی ملک ہے جس کا سرکاری مذہب اسلام ہے اور قرار داد مقاصد اس کے آئین کا حصہ ہے اسلام اور آئین پاکستان نے جو اقلیتوں کو حقوق دیے ہیں وہ پاکستان جیسی اسلامی مملکت میں انہیں مکمل طور پر حاصل ہیں اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت نہ سمجھتے ہوئے قادیانی آئین پاکستان کو ماننے سے انکاری ہیںجو کہ کھلم کھلا غداری کے زمرے میں آتا ہے۔حکومت پر لازم ہے کہ تمام اقلیتوں و دیگر پاکستانی شہریوں کی طرح پاکستان میں رہنے والی اس پاکستانی قادیانی اقلیت کو بھی آئین و قانون کا پابند بنائے انھیں ان کے کفریہ عقائد کی وجہ سے غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا تھا۔ انہوں نے 1974کی ان آئینی ترامیم کو نہ مانتے ہوئے اور صدر ضیاء الحق کے دور میں بنائے گئے توہین رسالت کی بابت قوانین پر عملدرآمد سے انکار کرتے ہوئے چناب نگر کے اندر اسکولوں، کالجوں میں کھلم کھلااسلام دشمن عقائد کی تبلیغ شروع کر رکھی ہے ۔چناب نگر کو ریاست کے اندر ریاست بنا رکھا ہے ۔اپنی عدالتیں حتیٰ کہ ہائیکورٹ تک بنا رکھی ہیں، مسلح تنظیمیں قائم کرکے قرب و جوار کے مسلمانوں کو دہشت زدہ کرتے ہیں،کئی مسلمانوں کو قتل کر ڈالا ہے ۔اسلام کے بنیادی عقائد اور محمد عربی ﷺ کو آخری نبی نہ مان کر بھی اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے پھرنے سے یہ گروہ مرتدین و زندیقین کی صفوں میں شامل ہو کر گردن زنی کے قابل قرار پا
چکا ہے۔ پھر بھی اسلامی حکومت سامراجیوں کی دوستیوں کے ناتے ان کی مکمل رعایت کر رہی ہے۔ صحیح اسلامی عقائد کے مطابق اور مسلمانوں کی مملکت کے اندر تو ان کا وجود کسی صورت بھی اسلامی قوانین اور شریعت محمدیہ کے مطابق برادشت نہیں کیا جا سکتا ۔چہ جائیکہ وہ ہمہ قسم لادین اور اسلام دشمن عقائدکی تبلیغ کرتے پھریں اور’’ انا خاتم النبین ولا نبی بعدی‘‘ کی حدیث پرعمل پیرا مسلمانوں کے عقیدہ کے خلاف جعلی نبوت اور جعلی رسول ہونے کے دعوے کرتے پھریں جو کہ ملت اسلامیہ قطعاً برداشت نہیں کرسکتی۔یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ قادیانی1974کی آئینی ترمیم کی بھی خلاف ورزی کریں اور تمام طبقات کی محنتوں کے نتیجے میں قادیانیت کو ناسور اور انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیے جانے والے قوانین میں کوئی ترمیم یا انھیں یکسر ختم کرڈالنے کی مذموم کوشش کریں ؟


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں