بلدیہ عظمی اور ٹاؤنز کے درمیان رسہ کشی شدت اختیار کرگئی
شیئر کریں
( رپورٹ :جوہر مجید شاہ) مئیر کراچی کی کاوشیں خود اُن کی اپنی ہی جماعت کے لوگوں کو اب کھٹکنے لگی ہے، بلدیہ عظمیٰ کراچی اور ٹاؤنز میں رسہ کشی شدت اختیار کر گئی ، ایس ایل جی او 2001ء کے تحت کامیابی سے چلنے والا بلدیاتی نظام خطرے میں پڑ گیا۔ سندھ حکومت کے عجلت اور مخصوص ایجنڈے کے تحت کئے گئے متعدد فیصلے اپنے ہی گلے میں آگئے ۔ ذرائع نے بتایا کہ ’ وزیر اعلیٰ ہاؤس سندھ ‘ کے سامنے شکایات کے انبار لگ گئے جبکہ دوسری طرف ’میئر کراچی ‘ اپنی ہی پارٹی کے چیئر مینوںکے نشانے پر آگئے ، گروپ بندیاں بلدیاتی امور و ترقی میں حائل مئیر کراچی کے بلدیہ عظمیٰ کے حق اور آمدنی میں اضافے کے لئے اقدامات انکے لئے بڑا چیلینج بن گئے۔نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی کا بلدیاتی تصور سندھ حکومت کے حالیہ فیصلوں سے بُری طرح مجروح ہوا ہے۔ مختلف محکموں کو ٹاؤنز کے ماتحت رکھنے اور کمشنری سمیت ای ڈی او اور ڈی سی او کے متوازی نظام کو برقرار رکھتے ہوئے اختیار ات کو نچلی سطح پر سونپنے کے اس عمل نے لوگوں میںایک زبردست احساس شرکت پیدا کی تھی۔ مگر تازہ حالات می ٹاؤنز میونسپل کارپوریشن کا نظام ناکام ہوچکا ہے ، تنخواہوں کی ادائیگیاں بھی مشکل ہو رہی ہیں جبکہ محض تنخواہوں کے علاوہ کچھ باقی نہیں بچا ۔ترقیاتی امور نام نہاد رہ گئے ہیں۔ بڑے منصوبوں کا کوئی پتہ نہیں۔ شہریوں کو لالی پاپ دیا جارہا ہے، فنڈز دستیاب نہیں۔ ریکوریز صفر ہیں۔ کے ایم سی اور ٹی ایم سیز میں تصادم کی کیفیت ہے۔ ملچنگ پلانٹ اور مویشی منڈی سمیت کئی ’کے ایم سی ‘ کے اہم ریکوری ریسورسز ختم ہو چکے ہیں۔ جس کے باعث بلدیہ عظمیٰ اور ٹاؤنز میں ایک رسہ کشی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔