نئی دنیا کی خوراک
شیئر کریں
افسوس! ہماری حرماں نصیبیوں کے سیاہ بادل ختم ہونے میں نہیں آرہے۔ کورنا وبا کے ہنگام پارلیمان کی کارروائیاں دیکھ کر لگتا ہے کہ مغل بادشاہوں کے آخری دور کی درباری بحثیں چل رہی ہیں۔ دنیا بدل رہی ہے، دنیا کی تشکیلِ نو ہو رہی ہے۔ قومی ریاستوں کی طاقت ٹیکنالوجی کے ذریعے سلب کی جارہی ہے۔ ریاستوں کے مزاحمتی قوت کے معروف طریقے تاریخ کے حاشیوں میں جارہے ہیں۔ عالمی قوت کا نیا متن گلوبل نگرانی کے نئے دور میں جاکر نئے حروف سے نئے معانی ڈھونڈ رہا ہے۔ سخت ترین نگرانی کے نظام کو ٹیکنالوجی کے لبادے میں اس طرح پیش کیا جارہا ہے کہ خود ریاستیں آگے بڑھ کر اسے گلے لگانے پر مجبور ہوں۔ یہ ریاستوں کے اقتداراعلیٰ کو چھین کر چند ہاتھوں میں دنیا کی قوت کے ارتکاز کا بھیانک ترین دور ہے۔ یہ گلوبل ماتھا ہے جس کی سرخی ٹیکنالوجی ہے۔ جس میں انسان بیماریوں اور ویکسین سے کنٹرول کیے جارہے ہیں۔ اگلے دور میں جب آج کی تاریخ لکھی جائے گی تو اسے تاریخِ انسانی کا بھیانک ترین دور کہا جائے گا۔اس کی مزاحمت کرنے والے ہی مورخ کی نظر میں اشرف المخلوقات کہلائیں گے۔ یہ وقت اپنی قومی ریاست کے تحفظ، اقتدار اعلیٰ کے بدلتے سرچشموں، طاقت کے بدلتے مراکز اور توازنِ طاقت کی بین الریاستی تفہیم کے بدلتے تیوروں پر غوروفکر کا ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہم ہر سطح پر ایسے سیاسی قائدین کے جمگھٹوں میں کھوئے ہیں جن کے مباحث وہی گھسے پٹے ہیں۔ جن کے جھگڑوں کا من وتو ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ جن کی انائیں وطنِ عزیز سے زیادہ بڑی ہیں۔ جن کے حرص کی کوئی تھاہ ہی نہیں۔ جن کے مفادات کی سرحدیں سکڑتی ہی نہیں۔ کیا یہ انگڑ کھنگڑ مستقبل کے نئے خطرات کو بھانپ کر ہمیں تحفظ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ کیا ان کے ہاتھوں میں ہمارا آج اور اگلی نسلوں کا آئندہ ہونا چاہئے۔
درحقیقت دنیا کو گلوبل سطح پر لے جا کر جس منہج پر قومی ریاستوں کی اُٹھان ہوئی ہے، وہ بعض حوالوں سے قومی ریاستوں کو اندرون ملک چند لوگوں کے آگے مجبورِ محض رکھتی ہیں اور پھر اُن چند ہاتھوں کے چاک میں گردش کرنے والی ریاستوں کو عالمی قوت کے چند ہاتھ اپنی ڈھب پر ڈھالے رکھنے کی غیر معمولی قوت پا چکے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ریاستی اقتدارِ اعلیٰ اندرون ملک چند لوگوں کے جیب کی گھڑی بنتا جارہا ہے اور وہی اقتدار اعلیٰ بیرونِ ملک عالمی قوتوں کے ہاتھ کی چھڑی ہوتا جارہا ہے۔ تیسری دنیا کے اکثر ممالک اسی نمونے کی ریاستیں بن چکی ہیں۔ ان ریاستوں میں چند ممالک ایسے ہیں جو اپنی قومی قوت کے کچھ غیر معمولی اور غیر روایتی پہلو رکھتے ہیں۔ اگر اُنہیں زندہ اور تابندہ رکھا جائے تو ان سازشوں کا مقابلہ آسان ہو سکتا ہے۔پاکستان بھی ایک ایسی ہی ریاست ہے جس کے پاس اپنی قوت کے کچھ غیر روایتی اور غیر معمولی مراکز ہیں۔ (مگر یہ الگ موضوع کے طور پر پھر کبھی زیرِ بحث لائیں گے)۔ یہاں کورونا وبا کے اس ہنگامے میں وہ خطرات موضوع ہیں جو تازہ دم ہو کر ہمیں آئندہ درپیش ہوں گے، اور جن کے بارے میں ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ پارلیمان اور قومی قوت کے مراکز مناسب حکمتِ عملی ابھی سے طے کرلیں۔ یہ چھچھوڑی لڑائیوں کا وقت نہیں۔
سب سے پہلے یہ نکتہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ جو لڑائیاں واشنگٹن، نیویارک، روم، سوئیڈن، ٹوکیو، میونخ اور تائیوان میں لڑی جارہی ہیں، وہی لڑائیاں کراچی اور دہلی میں بھی لڑی جائیں گی۔جب ایجنڈا گلوبل ہوگا تو جدوجہد کا چہرہ بھی گلوبل بن جائے گا۔ انسانوں کو کورونا وائرس کے خوف میں مبتلا کرکے جن آزادیوں سے دستبردار کرانے کی کوشش کی جارہی ہے، وہ کورونا وبا کے اصل پہلو ؤں کے بے نقاب ہونے کے بعد اب دنیا بھر میں نئی کشمکش پیدا کرنے کا موجب بن رہی ہے۔ کچھ سرپھرے میدانوں میں آنے لگے ہیں۔
پاکستان کو سب سے پہلے اپنی طبی سائنس کو ٹھیک خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم دیگر ریاستوں کے رحم وکرم پر نہ رہیں۔ بدقسمتی دیکھیے۔ ہماری جان کی دشمن ریاست بھارت سے ہم جان بچانے والی ادویات درآمد کرتے ہیں۔ اس پر کسی کا قومی ضمیر نہیں جاگتا۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہم یہاں تک کیسے پہنچے؟ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی ایک بدعنوان ترین ادارہ ہے جس کی مکمل تشکیلِ نو کی ضرورت ہے۔ یہ ادارہ فارما مافیا کا حاشیہ بردار بن چکا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی وزارت صحت کا ہر ذمہ دار اس کھیل کا حصہ بن چکا ہے۔ جو ہمیں چندگھٹیا، ادنیٰ اور ارذل واسفل مفادات کے لیے بھارت کے رحم وکرم پر چھوڑنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ پاکستان کو ادویات اور علاج کے جملہ معاملات میں نئی تحقیقات، نئے فارما اداروں اور اس پر زبردست پہرے داری کی ضرورت ہے۔ تاکہ ہم کسی علاقائی یا عالمی ایجنڈے کے رحم وکرم پر نہ رہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ کورونا وبا کے دوران میں ہم نے کسی اعلیٰ ذہانت کا مظاہرہ نہیں کیا اور اپنا قومی مستقبل طاقت ور ریاستوں کی پیروی میں ڈھونڈا۔ چنانچہ پاکستان کے مشکوک مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا ایک طرف پاکستان میں کورونا کے علاج کی مقامی کوششوں کی حوصلہ شکنی کرتے رہے تو دوسری طرف بھارت سے درآمدہونے والی ادویات کی فہرست میں اضافہ کرنے کے لیے خاموشی سے فارما مافیا سے تال میل کرتے رہے۔ ڈاکٹر ظفر مرزا وفاقی کابینہ میں رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تو انہوں نے اپنے رنگین چشمے کو ٹھیک کرتے ہوئے فوراً ہاتھ اُٹھا لیے کہ اس فہرست کی تیاری میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں۔ وفاقی کابینہ سے ہاتھ کرتے ہوئے اُنہیں اس کاتو جواب دینا چاہئے تھا کہ جب اس فہرست کی تیاری میں اُن کاکوئی ہاتھ ہی نہیں تو پھر وہ فہرست وفاقی کابینہ میں اپنے ہاتھوں سے کیوں لے گئے؟ درحقیقت بھارت سے کسی بھی جان بچانے والی ادویات کی درآمد کی آڑ میں جاری دھندے میں فارما مافیا نے اپنی جڑیں انتہائی مضبوط کرلی ہیں۔ وزراء اس کھیل میں ان کے شریک رہتے ہیں۔ چنانچہ گزشتہ روز فارما انڈسٹری اپنے مفادات کے محافظ وفاقی وزیر کی بالواسطہ مدد کو پہنچی اور غلط سلط اعدادوشمار کے ذریعے بھارت سے ادویات کی درآمد کی اجازت کا مقدمہ ایک پریس کانفرنس کے ذریعے لڑا۔ بھارت میں کسی بھی نوعیت کی ادویات یا اس کا خام مال ایسا نہیں جو ہمیں باقی دنیا سے نہ مل سکتا ہو۔مگر یہ قیمتوں کے غلط اعدادوشمار پیش کرکے اپنے جعلی مقدمے کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ اُنہیں جان بچانے والی ادویات کی درآمدکی اجازت مل جاتی ہے اور پھر وہ اس فہرست میں اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ دوسری طرف جس قیمت کا بہانا کیا جاتا ہے، اس کا فائدہ صارف کوبھی نہیں پہنچایا جاتا۔(اس ضمن میں سنگین حقائق اور قیمتوں کے اصل موازنہ کو اسی اخبار کی مختلف اشاعتوں میں پیش کردیا جائے گا، یہ پہلو کالم کے موضوع میں نہیں آتا)۔ یہاں صرف اس نکتے کو پیش کرنا مقصود ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب دنیا حیاتیاتی جنگ کے سنگین خطرات کی دہلیز پر کھڑی ہے تو پاکستان میں کیا کھیل چل رہے ہیں؟ کیا ہم دشمن سے جنگ لڑتے ہوئے دشمن کی ہی ادویات پر انحصار کریں گے، جو پاکستان کو حیاتیاتی دائرے میں نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہو، تو ایک لمحہ بھی اس میں تاخیر نہیں کرے گا۔ حیاتیاتی لڑائیاں اگلے دور کے جنگ کا نیا میدان ہیں جس میں انسانوں کی پوری پوری بستیاں بغیر کسی بڑے الزام کو سر پر لیے صفحہئ ہستی سے نابود ومعدوم کی جاسکتی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ٹکے ٹکے کی فارما کمپنیاں ہماری قومی پالیسیوں کو دباؤ سے تبدیل کرنے کی صلاحیت حاصل کرچکی ہیں۔ہم کسی بڑے منچ پر ریاستوں کی لڑائیوں میں کیا مزاحمت کرسکیں گے؟ فارما مافیا دنیا بھر میں قومی ریاستوں سے کھیل رہی ہیں۔ یہ کبھی نہ سمجھئے گا کہ پاکستان میں یہ نہیں ہوسکتا۔ درحقیقت کورونا وبا کے حوالے سے ویکسین کا کھیل کھیلنے والی گلوبل فارما مافیا پاکستان سے کسی مزاحمت کی کوئی توقع ہی نہیں رکھتی۔ ہماری بصیرت وبصارت کا یہ حال ہے کہ بل گیٹس نے وزیراعظم عمران خان کو ایک فون کیا اور وزیراعظم اگلے روز فرما رہے تھے کہ دنیا اب کورونا سے تب سکون میں آئے گی جب ویکسین آئے گی۔ دنیاکے ماہرین ویکسین کو ایک بکواس کہتے ہیں۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ایک شخص بھی رک کر یہ سوچنے کو تیار نہیں کہ ہمیں کسی ویکسین کی کیوں ضرورت ہے؟ جب کورونا وائرس سے ننانوے فیصد لوگ پہلے سے ہی بغیر کسی پریشانی اور اسپتال میں جائے بغیر ہی دنیا بھر میں صحت یاب ہورہے ہیں تو پھر دنیا کے سات بلین لوگوں کو ویکسین کی دو دو خوراکیں دینے کے لیے چودہ ارب ویکسین کی خوراکیں تیار کرنے کی باتیں کیوں ہو رہی ہیں؟ اس سوال کو اپنی آئندہ تحریروں کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں۔ یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ ویکسین نئی دنیا میں ٹیکنالوجی کے شکار انسانوں کی خوراک ہے کورونا وائرس کا علاج نہیں۔ نئی دنیا کا گلوبل شہری کیسا ہوگا، یہ تعین ٹیکنالوجی، دوائیاں اور ویکسین کریں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔