بہاولنگر واقعہ کے حقائق
شیئر کریں
حمیداللہ بھٹی
آجکل سوشل میڈیا پر بہاولنگر واقعہ کے حوالے سے بڑے تبصرے ہو رہے ہیں۔ واقعہ کوکوئی اختیارات کا شاخسانہ قرار دیتا ہے تو کوئی پولیس کے بدکرداراوربدعنوان افسران کو زمہ دارتصورکرتا ہے لیکن چند ایک بغض میں فوج پر کیچڑ اُچھال رہے ہیں ستم ظریفی یہ کہ یہ سب اصل حقائق جانے بغیر ہورہاہے حالانکہ حقائق سے آگاہی لیے بغیر درست تبصرہ کرنا ممکن ہی نہیں اور جتنی بھی احتیاط کرلی جائے بہرحال تبصرے میںغلطی کااحتمال رہتا ہے۔ البتہ یہ درست ہے کہ واقعہ پولیس کوحاصل لامحدود اختیارات اور بدعنوان سوچ کی وجہ سے پیش آیا جسے اب معمولی کہہ کر دبانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ حالانکہ جب تک اختیارات کی خماری اور بدعنوانی کا خاتمہ اور پولیس کا رویہ بہتر نہیں ہوتا تو مجھے کہنے دیجئے کہ ایسے واقعات کو مستقبل میں بھی روکنا مشکل ہے۔
چک مدرسہ کی طرف جاتے ہوئے راستے میں ایک پولیس ناکہ آتا ہے جہاں سے ہونے والی آمدن کے درست اعدادو شمار تو دستیاب نہیں البتہ یہ طے ہے کہ یہ ناکہ آمدن کے حوالے سے بے مثال تصورکیا جاتا ہے۔ اسی لیے اِس پرہر ڈی پی او سے لیکر ایس ایچ او کی خاص نظر ہوتی ہے۔ ہر ڈی پی او کی کوشش ہوتی ہے کہ اِس تھانہ میں تعیناتی کرتے ہوئے کوئی ایسا بااعتما د بندہ لگایا جائے جو وصولی میں ڈنڈی نہ مارے۔ اسی طرح ایس ایچ او بھی ناکے پر ایسے اہلکار لگاتا ہے جو وصولی کا درست حساب کتاب دیں ۔یہ سوچ کئی بار نہ صرف ڈی پی اوز کے تبادلے کا باعث بنی ہے۔ بلکہ ایس ایچ او زکے لیے بھی مسائل کا موجب بن چکی ہے لیکن وصولی کا چسکا پھربھی ختم نہیں ہو رہا ۔شاید افسران سمجھتے ہیں تعیناتی تو پھربھی کسی سفارش سے حاصل کر ہی لیں گے، مالداربننے کادستیاب نادر موقع کیوں ضائع کریں۔ اسی لیے ڈی پی اوز،ڈی ایس پیز اور ایس ایچ اوز تبادلہ کرالیتے ہیں لیکن وصولی کی سرپرستی و طرفدار ی میںتساہل نہیں کرتے ،یہاں کی وصولی کا روزانہ کی بنیاد پر حساب کتا ب ہونے کی وجہ سے اِس ناکے پر ادائیگی نہ کرنے والوں کی چھترول ایک معمول ہے۔ 2016میں بھی مارپیٹ کاایک واقعہ بہت مشہور ہوا جبکہ دوبرس قبل اسی ناکے پر ایک ممبر پنجاب اسمبلی کے اہلِ خانہ کی زبردست پٹائی کی جاچکی جس کی پاداش میں ڈی پی او بہاولنگر کاتبادلہ ہوا۔یہ سب کچھ بتانے کامقصد یہ ہے کہ بہاولنگر واقعہ کے حقائق آپ کو سمجھنے میں آسانی رہے اور مجھے سمجھانے میں۔
پولیس کی طرف سے قرار دیئے گئے معمولی واقعہ کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ ناکے پر عید الفطر سے قبل پولیس کی طرف سے وصولی کی زوردار مُہم جاری تھی اِس دوران کوئی گاڑی پر ہے یا موٹرسائیکل سوار یا پیدل گزرنے والا کوئی فرد،ناکے پر سب کی تفصیلی جامہ تلاشی ہورہی تھی۔ اِس دوران تھپڑ،مُکا ،بازو مروڑنا،کان پکڑانا،مرغابنانااورگالی گلوچ کا مظاہرہ جاری تھا ۔لوگ بے عزتی اور تشدد کے ڈرسے مُک مُکا کر رہے تھے ہوا کچھ یوں کہ آٹھ اپریل کو ناکے پر ایک موٹر سائیکل سوار کو روکا گیا جس پرپہلے تو روایت کے مطابق تشدد کیا گیا اور پھر گلوخلاصی کے لیے تگڑی رقم کا مطالبہ کیا گیااور عدم ادائیگی کی صورت میں ڈکیتی کا مقدمہ بنانے کی دھمکی دی گئی جیسا کہ بعد میں تشہیر کی گئی لیکن موٹر سائیکل سوار کے پاس پیسے بہت کم تھے۔ اِس دوران ایک لاکھ پرجب معاملہ تصفیے کے قریب تھا، وہ موٹر سائیکل سوار کسی طرح ناکہ سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیاجس کاناکے پر موجود پولیس ملازمین اور ایس ایچ او رضوان نے سخت بُرامنایا۔ بُرامنانے کی دو وجوہات تھیں اول۔ ناکے پر کڑی نگرانی کے باوجودایک موٹر سائیکل سوارکا کچھ دیے بغیرزندہ بچ کرنکل جانا ۔دوم ۔متوقع رقم کی وصولی سے محرومی نے غصے کو دوچند کردیاجس پر سبھی تپ گئے کہ ایک موٹر سائیکل سوارکی یہ جرأت کہ وہ پولیس ملازمین کو جُل دے کر نکل جائے۔ اِس پر تعینات عملے کا ایک دوسرے سے خوب بحث مباحثہ بھی ہوا۔ خیر موٹر سائکل سوار سے ملنے والی معلومات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اسی رات کو ہی کسی ایف آئی آر یا گرفتاری کا ورانٹ لیے بغیر اُس کے گھر چھاپہ مارا گیا تاکہ سبق سکھا کر تگڑی رقم وصول کی جا سکے مگر ہوا کچھ یوں کہ مطلوبہ موٹر سائیکل سوار گھر پر نہ مل سکاجس پر دھاوابولنے والی پولیس مزیدغصے میں آگئی ۔
مطلوبہ موٹر سائیکل سوار کے دوفوجی بھائی راولپنڈی اور وزیرستان سے جو چھٹی منانے گھر آئے ہوئے تھے، پولیس کے ہتھے چڑھ گئے۔ مزید خرابی یہ ہوئی کہ چھٹی منانے آئے فوجیوں نے بغیر ورانٹ اور قانونی جواز چھاپہ مارنے کی بات کردی جس سے بات بگڑ گئی اور پھر پولیس کی مزید نفری منگواکر شیر جوانوں نے آئو دیکھا نہ تائو ،بلکہ جو بھی سامنے آیا تشدد کانشانہ بنانا شروع کر دیا نہ صر ف مردوں بلکہ خواتین کوبھی شدید زدوکوب کیااور ڈنڈوں سے خوب پٹائی کی۔ اِس دوران ایک لڑکی تشدد کی وجہ سے بے ہوش ہو گئی لیکن پولیس کے بپھرے شیر جوانوں کو رحم نہ آیا خواتین کے کپڑے تک پھاڑ دیے (واقعہ کی ویڈیوسوشل میڈیاپر موجودہے )۔مطلوبہ بندے کی جگہ مارتے پیٹتے اُس کے دونوں بھائیوں کو گرفتار کر لیا اور تھانے لے آئے جن پر رات بھر اِس قدر تشددکیاگیا کہ دونوں گرفتار اشخاص کی حالت خراب ہو گئی۔ خون بہنے کے بعد ہڈیاں ٹو ٹنے کا ادراک ہونے پرانھیں بے ہوشی کی حالت میں ڈی ایچ کیوپہنچا دیا گیا اور ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر کو یہ بتایا گیا کہ ایکسیڈنٹ میں زخمی ہوئے ہیں لیکن یہ کون ہیں ہمیں کچھ معلوم نہیں کیونکہ بے ہوشی کی حالت میں سڑک کنارے ملے ہیں۔ اِس لیے نام و پتہ معلوم نہیں آپ اِن کا علاج معالجہ کریں مگر کئی گھنٹے زیرِ علاج رکھنے کے بعد جب ایک زخمی کو ہوش آیا اور ڈاکٹر کو اصل حقائق معلوم ہوئے تو متعلقہ فوجی اِدارے کو آگاہ کر دیا گیا جب اِدارے نے معلومات لیں تو پتہ چلا کہ گرفتارافرادکا تھانے میں اندراج ہی نہیں جس پر پولیس سے شفاف تفتیش کرنے اور ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیاگیا ۔راز فاش ہوتے ہی ایس ایچ او رضوان اور کچھ دیگر ملازمین پر مقدمہ درج کرنے اور معطل کرنے کے بعد ایک اور تھانہ کی حوالات میں بظاہر بند کر دیا۔ یہ واقعہ کو دبانے کی دانستہ کوشش تھی۔
ذرائع کے مطابق گیریژن کمانڈر بہاولنگر نے زخمی ملازمین کی عیادت کرتے ہوئے معالجین کو زخمیوں کابہترین علاج کرنے کی ہدایت دی اورزخمی ملازمین کو یقین دلایا کہ ملوث افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرائیں گے۔ عید کی نماز کے بعد ڈی ایچ کیو بہاولنگر میں زیرِ علاج دونوں اہلکاروں کی دوبارہ تیمارداری کی گئی اور ڈی پی او نصیب اللہ خان سے ٹیلی فون پر اب تک ہونے والی کارروائی کا احوال پوچھا گیاجواب میں بے نیازی سے بتایا گیا کہ ملوث افراد گرفتار ہیں اور اُن پر سخت دفعات لگا کر مقدمہ درج کرلیاگیاہے مگر ابھی تک مکمل حقائق جاننے کے لیے تفیش کا عمل جاری ہے۔ شک ہونے کی وجہ سے گیریژن کمانڈر خود تھانہ اے ڈویژن چلے گئے تاکہ حالات کا جائزہ لیاجاسکے۔ تھانہ میں ڈی پی او کے موقف کے بالکل برعکس دیکھنے کو ملا ۔ایس ایچ او کی کرسی پر واقعہ کا اصل مجرم رضوان عباس بیٹھا پیٹ پوجا میں مصروف تھا جبکہ تھانہ کا اصل انچارج ساتھ والی کرسی پر بیٹھ کرتابعداری کررہا تھا۔ مزید یہ کہ دیگر تین گرفتار پولیس ملازمین بھی ایس ایچ او
کے کمرے میں کھانا کھانے کے بعد چائے اور مٹھائی سے لطف اندوز ہو تے ہوئے خوش گپیوں میں مصروف تھے جب کہا گیا کہ تھانہ ایس ایچ او کا دفتر حوالات نہیں اور یہ کہ اِس طرح پروٹوکول دیکر درست تفتیش بھلا کیونکر ہو سکتی ہے؟تو کوئی معقول جواب دینے کے بجائے نہ صرف بدتمیزی کی گئی بلکہ گالی گلوچ کرتے ہوئے پوچھ تاچھ کی پاداش میں دھکے دیکر تھانے سے نکال دیا گیا۔خراب رویے اور صورتحال کے باوجود کمانڈر نے کمال تحمل کا مظاہرہ کیا۔ یہاں تک کہ ساتھ آئے ماتحت اہلکاروں کو بھی کسی قسم کا ردِ عمل دینے سے روک دیا اور مسلسل ملوث ملزمان کو حوالات میں بند کرنے اور تفتیش کرنے کا مطالبہ کرتے رہے لیکن ایس ایچ اونے آخرکارنہ صرف اپنے پیٹی بھائی کے خلاف کارروائی سے ہی صاف انکار کر دیا بلکہ اِرادہ ظاہر کیا کہ اُسے میں نے بے گناہ لکھ دیناہے جس نے جو کرنا ہے کرلے جس کی سی سی ٹی وی بنتی رہی جو ابھی تک موجود ہے لیکن جب یہی بات ڈی پی او کے علم میں لائی گئی تو انھوں نے تھانے کی یقین دہانی پر ایسا کوئی واقعہ ہونے کی بات کو ہی مستردکر دیا جس پر گیریژن کمانڈرنے حکامِ بالا کو بتایا جواب میں مزید کارروائی کے لیے تھانہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج کی کاپی لینے کی ہدایت کی گئی جس کے متعلق باقاعدہ تحریر پولیس کوبھی ارسال کی گئی۔ تحریر کی کاپی لیکر دوبندوں کی ٹیکنیکل ٹیم جب تھانے آئی تو تعاون کی بجائے اُس ٹیم کے ساتھ جو ہواوہ بھی بیان سے باہر ہے۔ اگرکوئی مجھ سے اِس و اقعہ کے بارے میں پوچھے کہ کیا نتیجہ اخذکیاہے تومیں اتنا کہوں گا کہ اگر غصے میں بندہ رُک جائے اور غلطی پر نادم ہوکر جھک جائے تو زندگی بڑی پُرسکون گزر سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔