انسان خسارے میں ہے ؟
شیئر کریں
ایم سرورصدیقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے آس پاس قدم قدم پر اللہ کی ظاہر نشانیاں موجودہیں ۔۔سوچ و فکرکے در بھی کھلے ہیں۔نعمتیں ہیں اس کا حساب ہے نہ شمار۔ اس کے باوجود کسی کو مطلق احساس تک نہیں عام آدمی پر کیا بیت رہی ہے۔ اس حال مست ۔مال مست بے نیازی کو کیا نام دیجئے لیکن اس کو خود فریبی سے تعبیر بھی کیا جا سکتاہے۔ شاید اشرافیہ یہ سمجھتی ہے کہ ان تمام نعمتوںپر صرف انہی کا حق ہے۔مال و دولت ، وسائل کی بہتات،لاکھوں،کروڑوںکی پراپرٹی ،بینک بیلنس اوراچھے حالات ان کا کوئی کمال ہے جو قدرت انہیں اس قدر نواز رہی ہے سچ جانئے! یہ سب کچھ امتحان بھی ہو سکتاہے۔پاکستان پر ہی موقوف نہیں تیسری دنیا کے بیشتر ممالک میں غربت،دہشت گردی ،بے روزگاری،مہنگائی ،جسم فروشی اور چوری ،ڈکیتی،راہزنی دیگرمسائل کا بڑا سبب دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے ۔ جس نے مسائل در مسائل کو جنم دے کر عام آدمی کی زندگیاں تلخ بنادی ہیں غریب جن چیلنجز سے نبرد آزما ہیں، ان کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وسائل چند خاندانوںتک محدودہوکر رہ گئے ہیں۔ یہی لوگ اس وقت عام آدمی کی تقدیرکے مالک بنے ہوئے ہیں۔ اپنے دلوںکو خواہشات کا قبرستان بنانے والوںکیلئے لمحہ ٔ فکریہ ہے۔
اخبارات اٹھاکر دیکھ لیجیے! تیسری دنیا بالخصوص جنوبی ایشیاء میں غربت کی بناء پر خودکشی کرنے والوںکی تعداد میں خوفناک حد تک اضافہ ان حکومتوں، سماجی تنظیموں اور صاحب ِ ثروت حضرات کیلئے تشویش کا باعث ہونا چاہیے ۔اب تو فاقوں سے تنگ آکر والدین میں اپنے بچوں کو قتل کرنے کا رحجان پیداہورہاہے حالانکہ ہربچے کی پیدائش اس بات کا برملا اعلان ہے کہ پروردِگار ابھی انسان سے مایوس نہیں ہوا ۔ہمارے آس پاس سینکڑوں ایسے افرادیقینا موجود ہیں جو یہ سمجھتے ہیں ان کی زندگی کااب کوئی مقصد نہیں رہا جتنی تیزی سے مادہ پرستی اخلاقی اقدارکو نگل رہی ہے۔ ایسے لوگوںکی تعداد برابر بڑھ رہی ہے جس معاشرے میں والدین کااحترام بھی کم ہورہاہو۔مطلب کے بغیرکوئی سلام لینے کو روادارنہ ہو۔ جہاںدولت اور ہوس کے معانی برابرہو جائیں۔ حکمرانوںکو اپنا پیٹ اور سیاستدانوںکو صرف مراعات عزیزہو جائیں۔ جہاں مذہب کو بھی مفادات حاصل کرنے کا ذریعہ بنا لیا جائے۔ جہاں گھٹ گھٹ کر، سسک سسک کر جیناغریبوں کا مقدر بن جائے ۔پھر بھی یہ ہمارے لئے خوشی کی بات نہیں کہ ہربچے کی پیدائش اس بات کا برملا اعلان ہے کہ پروردِگار ابھی انسان سے مایوس نہیں ہوا ۔ ایک عالمی ادارے نے دل ہلا دینے والی رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح میں دن بہ دن اضافہ ہوتاجارہاہے۔75فیصد سے زائد شہری خط ِ غربت سے بھی نیچے زندگی بسر کررہے ہیں جبکہ بھارت میں صورت ِ حال اس سے بھی سنگین ہے ۔ بنگلہ دیش، مالدیپ، بھوٹان اور درجنوں افریقی ممالک میں عام آدمی زندگی کی ہر قسم کی بنیادی سہولتوں سے محروم غربت کے مارے اپنے لخت ِجگر فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ سینکڑوں لوگ اپنے گردے بیچ چکے ہیں جبکہ اب گردوںکی خرید و فروخت نے ا یک کاروبار کی صورت اختیارکرلی ہے جس میں بعض ڈاکٹر بھی ملوث ہیں۔ یہ بھی کہاجارہاہے کہ ان ملکوں میں جسم فروشی میں خوفناک اضافہ ہوتا جارہاہے۔ یہ سب غربت جیسی لعنت کی وجہ سے ایسا ہورہاہے ۔وسائل کی کمی،طبقاتی پریشانی اورذہنی الجھائو کے باعث بھی عام خاندان کے نوجوان منشیات کی طرف راغب ہوکر اپنے والدین کو مزید غربت میں دھکیل رہے ہیں۔ مسائل کی وجہ سے ہم دل گرفتہ ،پریشان اور مایوس رہتے ہیں۔ سوچنے کیلئے یہی کافی نہیں کہ پروردِگار ابھی انسان سے مایوس نہیں ہوا ۔لوگ مایوس تو اس بات پر بھی ہورہے ہیں کہ مہنگائی ،لوڈشیڈنگ،دہشت گردی اوربیروزگاری کم کیوں نہیں ہورہی ؟ حکمرانوںکو سوچنا چاہیے کہ معاشی چکی میںپسے عوام موجودہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے متحمل نہیں ہیں۔ حکمران عوام کی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے ایسی پالیسیاں تیار کریں جس سے عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف مل سکے ۔
صاحب ِ اقتدارطبقہ کی بات نہ ہی کریں ،ان کو تو کچھ فکر ہی نہیں کسی معاملے میں کوئی منصوبہ بندی ہے نہ کوئی حکمت ِ عملی ۔ گوداموں میں پڑے اناج کو کیڑے پڑ جاتے ہیںلیکن بھوک سے مرتے لوگوںکو ایک دانہ بھی فراہم کر نا گناہ سمجھ لیا گیا ۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ امریکا جیسی سپرپاور ہر سال لاکھوں ٹن اناج سمندر میں غرق کردیتاہے ۔ لیکن اس اناج کی بھوکوں تک رسائی نہیں جنگ، خانہ جنگی اور عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کے سبب افغانستان، شام، عراق، لیبیا سمیت نہ جانے کتنے ملکوں میں لوگ اناج کے ایک ایک دانے کو ترس رہے ہیں۔ عالمی طاقتوں کا وطیرہ رہا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ سارا زور گا ۔ گے ۔گی پر لگایاہے ۔ یہاں کے لیڈر وںمیں جو جتنے پر جوش اندازمیں دلفریب نعرے لگاتاہے، اتنا ہی کامیاب سمجھا جاتاہے۔غربت سے عاجز مائیں اپنے بچوںکے گلے کاٹنے پرمجبورہو جائیں یا نئے کپڑے مانگنے پر باپ اپنی لاڈلی بیٹی کوقتل کرڈالے تو سوچنا چاہیے ایسا کیوںہورہاہے؟ حیف ہے ترقی پزیرممالک کی حکومتیںغربت ختم کرنے کی بجائے غریب ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔ حالانکہ ہربچے کی پیدائش اس بات کا برملا اعلان ہے کہ پروردِگار ابھی انسان سے مایوس نہیں ہوا ۔ ہمارے بیورو کریٹ، تاجر،حکمران،سرمایہ دار، سیاستدان۔سرکاری افسران جو لکڑ ہضم ،پتھر ہضم کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے،رشوت ، کرپشن،منتھلیاں جن کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہیں اور تو اور پاکستان جیسے ملک میں آصف زرداری ،سید یوسف رضا گیلانی ،میاں نوازشریف فیملی،شہبازشریف خاندان جیسے بے ضرر اور ’’معصوم ‘‘رہنمائوں پر بھی جب کرپشن کے الزامات لگے تو ان اسلاف کا کردار یاد آجاتاہے ۔ وہ بھی کیا لوگ تھے جنہیں اپنی شخصیت پر ایک جھوٹا بھی الزام گوارا نہیں تھا لیکن ہمارے اردگرد بیشتر مال بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ بے شک پورا دامن داغدار ہی کیوں نہ ہو جائے، اب تویہ حال ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں بیشترکیلئے حتیٰ کہ حلال ،حرام کی تمیز ختم ہوگئی ہے ۔ ہمارے آس پاس قدم قدم پر اللہ کی ظاہری نشانیاں بھی موجودہیں ۔ لیکن ہم ان کی طرف توجہ نہیں دیتے ۔شاید اسی لیے انسان خسارے میں ہے۔ قدرت ہمیں موقع پر موقع ،رعایت پر رعایت اور مسلسل درگزرکرتی جارہی ہے اور ہم سمجھتے ہی نہیں کہ ہربچے کی پیدائش اس بات کا برملا اعلان ہے کہ پروردِگار ابھی انسان سے مایوس نہیں ہوا لیکن بے شک وہ خسارے میں ہے ۔کیا اصلاح کے لیے اب ہمیں قیامت کا انتظارہے؟
٭٭٭