میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سی پیک کے تحت 17100 میگا واٹ کے منصوبے

سی پیک کے تحت 17100 میگا واٹ کے منصوبے

منتظم
منگل, ۱۳ مارچ ۲۰۱۸

شیئر کریں

شہزاد احمد
سی پیک کے تحت17100 میگاواٹ کے منصوبے مکمل ہونا تھے۔تاہم حکومت پاکستان نے گزشتہ سال مئی میں ہی اس بات کا فیصلہ کرلیا تھا کہ گیارہ ہزار ایک سو میگاواٹ کے منصوبے مکمل ہونے کے بعد بجلی کے بحران پر بڑی حد تک قابو پالیا جائیگا۔اس لیے اگلے مرحلے میں چھ ہزار میگاواٹ بجلی پانی کے ذریعے پیدا کی جائیگی۔اسی دوران فریقین اس بات پر متفق ہوگئے کہ سی پیک انرجی پلاننگ ایکسپرٹ گروپ کی سفارشات کی روشنی میں منصوبوں کی فہرست کو حتمی شکل دی جائیگی۔اسی دوران پنجاب حکومت نے 13سو میگاواٹ کا ایل این جی منصوبہ تریموں جھنگ کا بھی انتظام کرلیا۔اس لیے پاکستان دریائے سندھ پر پانی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کو ترجیح دے رہا ہے۔ مارچ میں بیجنگ میں ایک اجلاس کے دوران ان منصوبوں کو حتمی شکل دی جائے گی۔اجلاس میں بھاشا دیامر ڈیم پر بھی بات چیت کی جائیگی۔

سی پیک کے تحت دیگر کمپنیاں اوریکل پاور شنگھائی الیکٹرک تھل نووا پاور اور حبکو تھر پاور کے بجلی منصوبوں پر بھی کام تیزی سے جاری ہے۔اینگرو کا تھر میں کوئلے سے بجلی پیداوار کا منصوبہ مقررہ وقت سے پہلے بجلی شروع کر دے گا۔ منصوبہ جون 2019میں بجلی پیداوار شروع کر دے گا۔ تھر کے مقامی کوئلے سے بجلی پیداوار کے لیے کوئلے کی مائننگ پر کام تیزی سے جاری ہے۔

چائنہ پاور انٹرنیشنل کمپنی کے سربراہ چھیاو باو پھنگ نے کہا ہے کہ پاکستان میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کا آغاز کر دیا ہے۔ حب میں کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ کی تعمیرجاری ہے۔ اس پاور پلانٹ سے ہر سال 9 ارب کلوواٹ بجلی پیدا ہو گی۔ حب پاور پلانٹ سے پاکستان کے 40 لاکھ شہریوں کے لیے بجلی کی قلت کا مسئلہ ختم ہو جائے گا۔ دی بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ کے تحت چین اور دوسرے ممالک کے درمیان بجلی کے شعبے میں تعاون آگے بڑھ رہا ہے۔

پاکستان نجی شعبہ کی مدد سے دوست ملک چین کے تعاون سے چاروں صوبوں میں شمسی تونائی سے بجلی کی پیداوار کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے جس سے چند ماہ کے دوران قومی گرڈ میں 500 میگاواٹ بجلی شامل ہو جائیگی۔

چین کا کہنا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے فوائد عام آدمی تک پہنچنے شروع ہوگئے اور کئی سماجی واقتصادی مسائل کے حل میں مدد ملی رہی ہے۔پاکستان میں چین کی مدد سے تعمیر کیے جانے والے 10سے زیادہ بجلی گھروں سے پاکستان میں بجلی کی کمی کو مکمل طور پر حل کیا جائے گا۔

گزشتہ سال مئی میں 140سے زیادہ ممالک کے نمائندوں نے دی بیلٹ اینڈ روڈ کے حوالے سے عالمی تعاون کی کانفرنس میں شرکت کی جو عالمی برادری کی جانب سے اس منصوبے پر اعتماد اور حمایت کا اظہار ہے۔اس وقت تک 80سے زیادہ ممالک اور عالمی تنظیموں نے چین کے ساتھ اس ضمن میں تعاون کے سمجھوتوں پر دستخط کیے ہیں اور تعاون کے کافی منصوبے جاری ہیں۔

چین اور پاکستان نے اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت توانائی منصوبوں میں ہونے والی سرمایہ کاری کو پانی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس فیصلے پر11110 میگاواٹ بجلی کے زیر تکمیل منصوبوں کے مکمل ہونے کے بعد عمل کیا جائیگا۔سی پیک کے تحت 17ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی کے منصوبے مکمل ہونا ہیں۔تاہم اب بقیہ چھ ہزار میگا واٹ کے منصوبے آئندہ مرحلے میں پانی سے بجلی پیدا کرنے پر منتقل کردیے جائیں گے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت آج بھی ملکی ضروریات سے قدرے زائد ہے۔ تاہم سرکلر ڈیٹ کی وجہ سے اس سے استفادہ نہیں کیا جا رہا۔ درحقیقت تھرمل منصوبوں سے پیدا ہونیوالی مہنگی بجلی سے اسکی مجموعی پیداواری لاگت میں بھی اضافہ ہوا ہے، جبکہ ہائیڈل کی طرح سورج کی روشنی اور ہوا سے پیدا کی جانیوالی بجلی بھی انتہائی سستی ہے۔حکومتی اعداد و شمار کے مطابق بجلی کی پیداوار کے لیے سالانہ11ارب ڈالر کا تیل منگوایا جاتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں ہوا سے 3 لاکھ40 ہزار، سولر سے 2 لاکھ 90 ہزار جبکہ پانی سے 50 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔

حکومت کم لاگت والے پن بجلی گھروں کے ذرائع کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کے حوالے سے کام کر رہی ہے، جبکہ لوڈ شیڈنگ ختم کرنے اورعوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے داسو منصوبہ حکومتی عزم کا مظہر ہے۔ 4 ہزار 320 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کا حامل داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ واپڈا کی جانب سے دریائے سندھ کے اَپ اسٹریم پر خیبرپختونخوا کے ضلع کوہستان کے ٹاؤن داسو کے قریب بنا یا جا رہا ہے۔منصوبے کو دو مختلف مراحل میں مکمل کیا جائے گا، ہر مرحلے کی تکمیل کے بعد داسو ہائیڈرو پاور 2160 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت حاصل کر پائے گا۔ داسو ڈیم مکمل کر لیا جائے تو پاور ہاؤس کو مرحلہ وار مکمل کیا جا سکتا ہے، جبکہ اس کے ڈیم کی تعمیر اور پاور ہاؤس میں چند یونٹ لگنے سے مختصر میعاد میں دو ہزار میگاواٹ تک بجلی مل سکتی ہے۔حکومت پاکستان کی ضمانت پر تیار ہونے والے اس منصوبے کے پہلے مرحلے کی تکمیل کے لیے کچھ فنڈز عالمی بینک نے فراہم کیے ہیں، جبکہ منصوبے کی تکمیل کے لیے زیادہ تر رقم واپڈا کی جانب سے ادا کی جائے گی، جو اس نے اپنے ذرائع سے حاصل کی ہے۔

نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ سے ہر سال تقریباًپانچ ارب یونٹ سستی پن بجلی حاصل ہوگی جبکہ منصوبے سے سالانہ تقریباً50ارب روپے کی آمدنی ہوگی۔ واپڈا اِس بات کے لیے بھر پور کوشش کررہا ہے کہ ایک سال کے دوران مہمند ڈیم اور دیا مر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے کنٹریکٹ ایوارڈکر دیئے جائیں تاکہ ملک میں پانی ذخیرہ کرنے اور پن بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں خاطر خواہ اضافہ کیا جاسکے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں