بھارت کا جنگی جنون، اسلحہ جمع کرنے کا خبط دنیا پر واضح کرنے کی ضرورت ہے
شیئر کریں
فرانس بھارت کے درمیان دفاع اور ایٹمی توانائی سمیت 14 معاہدوں پر دستخط ہوگئے۔ فرانس اور بھارت کے درمیان بحرہند میں تعاون کا معاہدہ بھی طے پا گیا۔ دونوں ملک ایک دوسرے کے جنگی جہازوں کے لیے اپنے بحری اڈے کھول دیں گے۔ بھارت کو ری یونین جزائر اور جبوتی کے فرنچ فوجی اڈوں تک رسائی ملے گی۔ مشترکہ بحری و فضائی نگرانی اور دہشت گردی کے خلاف تعاون پر بھی اتفاق کیا گیا۔ سپائس جیٹ سپلائی، واٹر سسٹم اور گیس کمپنیوں کے درمیان بھی معاہدے طے پاگئے۔ فرانسیسی کمپنی بھارت میں 3 میٹرو فرموں کو پاور سپلائی کرے گی اس سلسلے میں 92 ملین ڈالر کا معاہدہ ہوگیا ہے۔ بھارت کی طرف سے کہا گیا کہ بحیرہ جنوبی چین میں چین کے عزائم نے کئی ملکوں کو تشویش میں مبتلا کردیاہے اور اس کی بحرہند میں سرگرمیوں سے تشویش میں اضافہ ہواہے۔ فرانسیسی صدر میکرون نے کہا ہے کہ فرانس یورپ کا دروازہ ہے اور ہم یورپ میں بھارت کے بہترین شراکت دار بننا چاہتے ہیں جبکہ بھارتی وزیراعظم نریندرامودی نے کہاہے کہ فرانسیسی صدرمیکرون کے دورے سے انڈیا اور فرانس کے درمیان دفاعی شراکت داری کو بڑی تقویت ملے گی۔ مودی نے پروٹوکول کے برعکس چاپلوسی کے لیے میکرون کا ہوائی اڈے پر استقبال کیا اور اپنے روایتی انداز میں ان سے بغل گیر ہوئے۔دریں اثناء پاکستان نیوی نے ساحلی علاقے میں کی جانے والی تربیتی مشق کے دوران سطح زمین سے فائر کیے جانے والے اینٹی شپ میزائل کا کامیاب تجربہ کیا۔ میزائل نے مقررہ راستے سے گزرتے ہوئے سمندر میں موجود اپنے ہدف کو پوری کامیابی سے نشانہ بنایا۔غیر ملکی سربراہان یا اعلیٰ سطح کے وفود جب بھی کسی ملک کا دورہ کرتے ہیں تو تجارتی و دفاعی معاہدے اور یادداشتیں ایسے دوروں کا حصہ ہوتی ہیں مگر بھارت کے ہاں کوئی غیر ملکی سربراہ یا اعلیٰ سطح کا وفد آئے یا بھارت کی حکومتی و فوجی قیادت غیر ملکی دورے پر جائے ان کا سارا زور دفاعی معاہدوں اور جدید ترین روایتی و غیر روایتی اسلحہ کی خریداری پر ہوتا ہے۔ اس نے کئی ممالک سے سول نیو کلیئر توانائی کے معاہدے کیے ہیں ان میں امریکا، روس، برطانیا، فرانس، ہالینڈ بھی شامل ہیں۔ ایک عالمی رپورٹ کے مطابق بھارت سول نیو کلیئر ٹیکنالوجی کو دفاعی مقاصد کے لیے بھی استعمال کر رہا ہے جبکہ پاکستان کے لیے سول نیو کلیئر توانائی کے معاہدے شجرِ ممنوعہ قرار دیئے گئے ہیں۔
بھارت کی طرف سے یہ کہنا خلافِ حقیقت ہے کہ بحیرہ چین میں چین کے عزائم نے کئی ممالک کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایسی بیان بازی چین کا جارحانہ چہرہ دنیا کو دکھا کربھارت ہمدردیاں اورمزید دفاعی قوت حاصل کرنا ہے۔ امریکا بھارت کو چین کے مقابل لانے کے لیے اس کو تھپکی اور جدید دفاعی ٹیکنالوجی بھی دے رہا ہے۔ بھارت کے ایک سابق آرمی چیف جنرل دیپک کپور نے جنگی جنون اور دفاعی ٹیکنالوجی اور روایتی و غیرروایتی ہتھیارات کے انباروں کے زعم میں دم پر کھڑے ہو کر چین اور پاکستان کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی فوج بیجنگ اور اسلام آباد کو 96گھنٹے میں زیر کر سکتی ہے۔ موجودہ آرمی چیف جنرل پین رادت بھی پاکستان اور چین کا مقابلہ کرنے کی بڑھک مار چکے ہیں حالانکہ چین اور پاکستان کے مشترکہ تو کیا انفرادی طور پر بھی کسی ملک کے خلاف کبھی جارحانہ عزائم نہیں رہے البتہ جارحیت مسلط کرنے میں دونوں ممالک نے اپنے اپنے طور پرسخت جواب ضرور دیا ہے۔بھارت امریکا و عالمی طاقتوں کی ہمدردیاں اور امداد حاصل کرنے کے لیے چین کو ہّوا بنا کر پیش کرتا ہے۔ اس کا دراصل ٹارگٹ چین سے زیادہ پاکستان ہے۔بھارت کے ساتھ فرانس کے حالیہ دفاعی معاہدے سے قبل فرانس کے تعاون سے دو ایٹمی ا?بدوزوں کی تیاری جاری ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ بھارت خود بھی دو ایٹمی آبدوزیں بنا چکا ہے۔ دوماہ قبل بھارت کی دو ایٹمی آبدوزوں میں سے ایک حادثے کا شکار ہو کر تباہ ہو چکی ہے۔ امریکا کے تعاون سے انڈوپیسفک میں بحری بیڑے کی تعیناتی بھی روبعمل ہے۔ امریکا بھارت کو جیٹ انجن بنانے میں بھی تعاون فراہم کر رہا ہے۔ امریکی جریدے فورسز کا کہنا ہے کہ بھارت نے جیٹ انجن بنانے کی صلاحیت حاصل کر لی اور اسے امریکا سے ڈرون ٹیکنالوجی مل گئی تو اس سے پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کو ضرب لگ سکتی ہے۔ بھارت دراصل امریکا، فرانس، برطانیا اور دیگر ممالک سے دفاعی معاہدے پاکستان کو نشانہ بنانے کے لیے ہی کر رہا ہے۔گزشتہ سال ‘اسٹریٹجک پارٹنرشپ ماڈل کے منصوبے کو حتمی شکل دی گئی جس کے تحت جنگی جنون میں مبتلا بھارت نے 60ہزار کروڑ روپے کی مزید چھ آبدوزیں تیار 50ہزار کروڑ روپے کے 57 جنگی طیارے دو ارب ڈالر کے ملٹی بیرل راکٹ لانچر کے چھ رجمنٹس اور دو لاکھ کاربائنز ( جنگی بندوقیں)خریدنے کا فیصلہ کرنے کے علاوہ 60ہزار کروڑ روپے کی لاگت سے مزید چھ آبدوزوں کی تیاری کے پروگرام کا آغاز کردیا تھا یہ آبدوزیں ان فرانسیسی ساختہ آبدوزوں کے علاوہ ہیں جو ممبئی کے ڈاکیارڈ میں تیاری کے مراحل میں ہیں۔
بھارت روس کے تعلقات میںد فاعی معاملات میں ہمیشہ سے قربت رہی ہے مگر افغانستان میں شکست کے بعد روس کوشکست و ریخت کے عمل سے بھی گزرنا پڑا تو بھارت امریکا کے قدموں میں جا بیٹھا مگر روس سے مکمل لاتعلقی اختیار نہیں کی۔ بھارت آج بھی روسی ساختہ اسلحہ استعمال کر رہا ہے جس کے سپیئر پارٹس ماضی کی طرح روس سے درآمد ہوتے ہیں۔ روس بھی بھارت کی طوطا چشمی پر خاص معترض نظر نہیں آتا۔دو ماہ قبل بھارت نے روس کے ساتھ ایس400دفاعی نظام خریدنے کے لیے مذاکرات کیے اس معاہدے کو ا?ئندہ سال حتمی شکل دینے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ اس سسٹم کی خریداری کی مد میں بھارت روس کو ساڑھے پانچ ارب ڈالر ادا کرے گا۔ بھارت کے اسلحہ جمع کرنے کے خبط کو اسٹاک ہوم بین الاقوامی امن تحقیقاتی ادارے نے یہ انکشاف کرکے بے نقاب کیا کہ بھارت دنیا میں2012ء سے 2016ء تک دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ کا خریدار رہا ہے۔ بھارت کی یہ درآمدات دنیا کے ہتھیاروں کی تجارت میں13فیصد تھیں اور یہ امر بھی حیران کن ہے کہ بھارت نے جہاں امریکا اور روس سے اسلحہ خریدا وہیں اسرائیل سے بھی اس کے معاہدے بروئے کار رہے۔ بھارت کے جنگی جنون اور اسلحہ جمع کرنے کے خبط نے خطے میں طاقت کا توازن بری طرح بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔
بھارت کو صرف اسلحہ کے ڈھیر لگانے ہی کا جنون ہے اس کے معیار اور حفاظت سے شائد کوئی سرو کار نہیں ہے۔اس کا ایٹمی مواد چوری ہو چکا ہے۔ مناسب حفاظت نہ ہونے سے خوفناک آتشزدگی کے واقعات بھی پیش آ چکے ہیں۔ اس نے گو خطرناک اور طویل رینج کے میزائلوں اور راکٹوں کے تجربات کیے مگر کئی اڑان بھرتے ہوئے ٹھس بھی ہو چکے ہیں۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر تنقید کرنے والی عالمی طاقتوں کو پاکستان اور بھارت کے حفاظتی انتظامات کا جائزہ بھی لینا چاہئے۔ خود امریکی ادارے بھارت کے حفاظتی انتظامات کو ناقص قرار دے چکے ہیں۔ مقابلے میں پاکستان کے حفاظتی انتظامات اب تک فول پروف ثابت ہوئے ہیں۔ پاکستان کے پاس بھارت کے مقابلے میں اسلحہ کے ذخائر تو نہیں ہیں مگر جو روایتی اور غیر روایتی اسلحہ ہے وہ معیاری و دفاعی ضروریات کے مطابق ہے جس کو ضرورت کے مطابق اور فی زمانہ ٹیکنالوجی میں جدت کے تقاضوں کے تحت اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے۔ گزشتہ روز اینٹی شپ میزائل کا کامیاب تجربہ پاکستان کی اسی دفاعی سٹریٹجی کا حصہ ہے۔ گزشتہ ہفتیبحری مشق رباط کے دوران پاک بحریہ اور پاک فضائیہ کی جانب سے لانگ رینج اینٹی شپ کروز میزائل کی فائرنگ کا کامیاب تجربہ کیا گیا میزائل JF-17 تھنڈر ائر کرافٹ اور پاک بحریہ کے F-22P فریگیٹ پی این ایس سیف سے فائر کیے گئے۔
پی این ایس سیف نے سطح سمندر سے سطح سمندر پر مار کرنے والا میزائل C-802 فائر کیا جبکہ پاک فضائیہ کے JF-17 تھنڈر نے ہوا سے سطح سمندر پر مار کرنے والا میزائل C-802AK فائر کیا۔ دونوں پلیٹ فارمز سے فائر کیے گئے ان اینٹی شپ میزائلوں نے اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا۔ رباط بحری مشق کا بنیادی مقصد ابھرتے ہوئے کثیر الجہتی خطرات کے تناظر میں جنگی تصورات اور طریقہ کار کی جانچ کرنا تھا۔جس میں توقعات کے مطابق کامیاب حاصل ہوئی۔آج پاکستان کا ایٹمی پروگرام کم از کم ڈیئرنس کی سطح پر ہے جبکہ بھارت اسلحہ کے انبار لگا رہے لیکن حفاظتی انتظامات انتہائی ناقص ہیں عالمی برادری پربھارت کا جنگی جنون اس کے اسلحہ جمع کرنے کے خبط اور ناقص حفاظتی انتظامات واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ (تجزیہ)