میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کائنات اپنی پیچیدگی میں فزکس کا موضوع ہے اور اپنی سادگی میں میٹا فزکس کا

کائنات اپنی پیچیدگی میں فزکس کا موضوع ہے اور اپنی سادگی میں میٹا فزکس کا

ویب ڈیسک
پیر, ۱۳ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں

سب سے پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ پیچیدگی سے کیا مراد ہے؟ پیچیدگی جدید سائنس کا ایک اہم موضوع ہے۔ کائنات عالمِ صورت ہے اور اشیا پر یعنی اجزا پر مشتمل ہے اور یہ اجزا کثیر ہیں۔ جز ہونے سے مراد ہے نسبتوں کا محل ہونا۔ اگر اجزا ساکت ہوں، تو ان کی باہمی نسبتیں “پیچیدہ” نہیں ہوتیں۔ کائنات کی دوسری صفت حرکت ہے۔ اجزا کی باہمی غیرمستقل اور متحرک نسبتوں کا حالتِ حرکت میں متعین کرنا پیچیدگی ہے۔ علم کی ایک پرانی تعریف تھی صورت کا ذہن میں حاصل و وصول ہو جانا۔ یہ سادہ تعریف جدید علوم سے نہ صرف غیرمتعلق ہے بلکہ انہیں سمجھنے میں شدید مضر ہے۔ جدید علم کی ایک تعریف یہ ہو سکتی ہے کہ صورتوں کا اپنی غیرمستقل اور متحرک نسبتوں کے ساتھ میکانکیت میں مجرد ہو کر ذہن میں قائم ہونا۔ اجزا کا اپنی غیر مستقل اور متحرک نسبتوں کے ساتھ اصول حرکت میں معلوم ہونا میکانکس ہے۔ اجزائی صورتیں اپنی متحرک نسبتوں کے ساتھ ذہن سے خارج میں میکانکی ہیں اور ذہن میں تجریدی۔ میکانکس میں صورت، نظامِ حرکت کا خام مال بن کر ضمنی ہو جاتی ہے۔ اجزا کے میکانکی نظام حرکت، یعنی ساخت اور فعل کو بیک آن ذہن میں قائم کرنا پیچیدگی ہے۔ کائنات کو اجزا اور صورتوں میں ان کی حرکیات کے ساتھ مطالعہ کرنے والا علم چونکہ فزکس ہے اس لیے اس کا موضوع کائنات اپنی پیچیدگی کے ساتھ ہے۔ پیچیدگی تجرید ہے اور یہ فطری طور پر ذہن کی خاصیت نہیں ہے، بلکہ ارادی طور پر اس میں پیدا کرنا پڑتی ہے، جیسے ورزش سے پٹھے بنائے جاتے ہیں۔ سائنسی علوم کائنات میں چونکہ اجزا کی اسی میکانکس کو موضوع بناتے ہیں، اسی لیے پیچیدہ ہیں، اور فزکس کا خاص یہی موضوع ہے۔ کائنات پر اس کی ہیئت وضعی میں غور کرنا تدبر ہے، اور کائنات کی صورتوں کو ضمنی بنا کر ان کی میکانکس پر غور کرنا فرکس ہے۔ تدبر معروضی ہے اور تجرید موضوعی۔ فرکس نے کائنات کی میکانکس کو جاننے کے لیے کئی طرح کے تناظر قائم کیے ہیں، کیونکہ وسعت، واقعیت اور مادی “ہویت” کو بیک وقت ایک تناظر میں سمجھنا ممکن نہیں رہا۔ اجزا کے تعاقب میں خود جدید علم حصوں میں بکھر گیا ہے، اور اس میں کوئی وحدانی اصول باقی نہیں رہا۔ کنواٹم میکانکس کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ جو جس کے دھیان میں آئے وہی ہے۔ یہاں ”جس“ سے مراد طبیعات دان ہے۔ یعنی جس طرح ایمان کا mode of containment ہر صاحبِ ایمان میں مختلف ہوتا ہے، اسی طرح کنواٹم میکانکس کا mode of contaiment بھی ہر صاحبِ فرکس میں مختلف ہے۔
مکانی تناظر میں اجزا صورتیں ہیں، اور زمانی تناظر میں اجزا واقعات ہیں۔ فزکس مادی عالم میں صورتوں اور واقعات کو بیک وقت جاننے کا علم ہے۔ فزکس کی رِیس اور اس کے ماڈل پر جدید انسانی، عمرانی اور تاریخی علوم نے بھی اپنی تشکیلِ نو کی ہے۔ اسی باعث سماجی اور تاریخی علوم میں بھی پیچیدگی مرکزی حیثیت اختیار کر گئی ہے، اور یہ علوم اور ان کا اسلوبِ اظہار بھی ازحد پیچیدہ ہو گیا ہے۔ ان علوم کا حتمی مقصود بھی ”واقعات“ کا حصول یا تعین نہیں بلکہ فرد، معاشرے اور تاریخ کو دیے گئے زمانی اور مکانی فریم ورک میں رکھ کر ان کی میکانکس کو سمجھنا ہے، اور سمجھ ہمیشہ آلاتی ہوتی ہے۔ اشیا اور واقعات سے انسان کا تعلق ملکیت اور معلومیت وغیرہ کا رہا ہے، اور ان کی میکانکیات کو زیر بحث لانا اور انہیں ان کی میکانکس میں سمجھنے کی کوشش کرنا جدید سائنسی اور عمرانی علوم کا اصل دائرہ کار ہے تاکہ اس میکانکیات کو اپنے مادّی فائدے کے لیے برتا جا سکے۔ ان علوم میں پیشرفت اور میکانکس پر دسترس کی وجہ سے فی نفسہ اشیا اور واقعات غیر اہم ہو گئے ہیں، کیونکہ سائنسی علوم کثیر اشیا خود پیدا کرنے اور انہیں بیک آن مندرس کر دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اسی طرح عمرانی اور تاریخی علوم بھی واقعات کے تابع اور ان کے خالق بیک وقت ہیں۔ عالم امر میں علم الٰہی‘کن” سے اشیا کا خالق ہے، اور عالم شہود میں جدید علم بھی چیزوں کا خالق ہے۔ پہلی حالت میں خلق وجودی ہے اور دوسری حالت میں میکانکی یعنی التباسی۔ علم الٰہی، قدرت سے متعلق ہو کر اشیا کا خالق ہے اور جدید علم، سیاسی طاقت سے متعلق ہو کر اشیا اور واقعات کا خالق ہے، اور یہ جعلی مشابہت کی ایک مثال ہے۔
ہم عصر مسلم ذہن اس قدر پسماندہ ہے کہ میکانکس تو دور کی بات ہے، وہ اشیا اور واقعات کے درست ادراک کے قابل بھی نہیں رہا ہے۔ اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ اس نے نیچر اور تاریخ میں در آنے والی پیچیدگی کا ایک نئے خطرے یا موقعے کے طور پر ادراک نہیں کیا، جس کا براہ راست تعلق انسانی بقا سے ہے، بلکہ اسے ایک شرعی عیب سمجھا، اور اپنے ذہن کے ہر روزن پر تختے لگا کر اسے میخوں سے ٹھونک دیا۔ اس میں تختے پرانی دفتین سے بنائے گئے تھے، اور میخیں درآمد شدہ تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان جدید عالمِ پیچیدگی میں ایک “شے” بن گیا ہے اور مسلم ذہن ایک “مندرس” واقعہ۔ اب ہم پیچیدگی کو ایک اور زاویے سے دیکھتے ہیں۔ درد یا تکلیف ایک جسمانی ”واقعہ“ ہے جو گزر جاتا ہے۔ یہ انسان میں چھٹکارے کا داعیہ پیدا کرتا ہے اور اکثر قوتِ حیات میں اضافے کا باعث ہوتا ہے۔ لیکن اگر درد یا تکلیف ایک پراسث بن جائے تو اسے ایذا یا ٹارچر کہتے ہیں۔ یہ جسم، ارادے اور نفس انسانی کو لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ کوئی انسانی رسپانس اس سے نکلنے کا راستہ نہیں دیتا، اور یہ قوتِ حیات کو آخر فنا کر دیتا ہے۔ معمہ، پہیلی وغیرہ انسانی ذہن کے لیے وہی حیثیت رکھتی ہے جو درد یا تکلیف کی جسم کے لیے ہے۔ اگر معمہ یا پہیلی ایک پراسث بن جائے تو اسے پیچیدگی کہتے ہیں۔ پورے شعور میں عقل کی حیثیت جسم میں حس سے مماثل ہے۔ پیچیدگی کی انسانی ذہن کے لیے وہی حیثیت ہے جو ٹارچر کی انسانی جسم کے لیے ہے۔ پیچیدگی سے انسانی ذہن پھانک ہو جاتا ہے اور آخرکار انسانی شعور اپنی انٹگرٹی/سالمیت کو باقی نہیں رکھ سکتا۔ جدید انسانی شعور نے اپنی تشکیل شے اور حرکت کی شرط پر کی ہے۔ دوسرے لفظوں میں جدید شعور کا اینکر خارج از ذہن اجزا کی غیرمستقل اور متحرک نسبتیں ہیں۔ جدید معاشرے اور تاریخ میں مشہود فطرت ایک میکانکی نظام بن کر انسانی شعور پر اپنا غلبہ مکمل کر چکی ہے اور جدید انسانی شعور اب صرف خارج کی شرائط پر باقی ہے، اور اپنی کسی بھی انسانی شرط پر یہ بقا کی جنگ ہار چکا ہے۔ انسانی شعور کی شرطِ بقا غیب ہے خارج نہیں ہے، کیونکہ خارج جسم کی بقا کے لوازم و شرائط کا حامل ہے۔ جدید علوم میں خارج از ذہن ایک ہی سطح وجود پر معلوم اور ”غیب“ (Unknown) فرض کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حقیقی یا مفروضہ غیب کے بغیر نہ انسانی ذہن فعال ہو سکتا ہے اور نہ علم ممکن ہوتا ہے۔
مشین “شے” اور “واقعے” کو انسانی ارادے کے تابع کر کے انہیں ایک مجموعے کی شکل دینے کا نام ہے۔ اس میں شے فطری نہیں رہتی، اور واقعہ تاریخی نہیں رہتا، یعنی شے کا فطری مکاں سے اور واقعے کا تاریخی زماں سے تعلق منقطع ہو جاتا ہے۔ اسی باعث مشین بیک وقت نیچر اور تاریخ کو بدل دیتی ہے یا انہیں displace کر دیتی ہے اور زمان و مکاں کا ایک نیا فریم ورک تشکیل دیتی ہے، جس میں مرکزی حیثیت خود اسے حاصل ہوتی ہے، انسان کو نہیں۔ مشین زمان و مکاں کا ایک نیا اور ایسا فریم ورک ہے جس میں زمان اور مکان کی کھپت بھی ہے اور پیداوار بھی۔ کبھی انسان تاریخ اور نیچر کے فریم ورک میں رہنے والی مخلوق ہوا کرتا تھا، اب انسان مشین کے بنائے ہوئے نئے زمان و مکاں میں منتقل ہو چکا ہے۔ نیچر اور تاریخ شکست کھا کر پیچھے ہٹ چکے ہیں۔ نیچر اور تاریخ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ اگر ایسا ہی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک “نیا جہان”، ایک “نئے خدا” کے ساتھ معرض وجود میں آ چکا ہے۔ لیکن یہ خام خیالی نہیں، خوش فہمی ہے۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ نیچر اور تاریخ پیچھے ہٹ کر گھات میں ہیں، اور ان کی واپسی خارج از امکان نہیں۔
اس قول زریں کا دوسرا حصہ سادگی کے بارے میں ہے۔ ہمارا ذہن سادہ خوراکی میں سادگیوں کے مختلف ذائقوں کو بھول گیا ہے، اور علم حقائق کی طرف پیش قدمی سادگیوں میں امتیازات کو قائم کرنے سے آغاز کرنی چاہیے۔ سادگی ویسے بھی اتنی بہتات میں ہے کہ فی الوقت اس کا ذکر بھی ضروری نہیں۔
(قول:جناب احمدجاوید….تشریح: محمددین جوہر)
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں