میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مہنگی ملک بدری یا سیاسی پیغام؟

مہنگی ملک بدری یا سیاسی پیغام؟

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۳ فروری ۲۰۲۵

شیئر کریں

سمیع اللہ ملک
انڈیاکے مقامی وقت کے مطابق(بدھ)تقریبا3بجے صبح امریکانے205غیرقانونی انڈین تارکینِ وطن کوملک بدرکرتے ہوئے فوجی طیارے”سی17”کے ذریعے ریاست ٹیکساس کے سین اینٹونیوایئرپورٹ سے انڈین ریاست پنجاب کے شہرامرتسر کیلئے بھیج دیا گیا ہے۔واضح رہے کہ یہ اقدام انڈین وزیرِاعظم نریندرمودی کے متوقع امریکی دورے سے قبل سامنے آیاہے،جس کے باعث قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ آیاامریکااورانڈیاکی مضبوط دوستی میں کوئی دراڑپیداہورہی ہے؟
انڈیاکے معروف وکیل اورایوان بالاکے رکن کپل سبل نے سوشل میڈیاپلیٹ فارم”ایکس”پرانڈین وزیراعظم کومخاطب کرتے ہوئے لکھا:”مودی جی،ٹرمپ205غیرقانونی تارکین وطن کوانڈیاواپس بھیج رہے ہیں۔بظاہرانہیں انڈیاجانے والے طیارے میں بٹھانے سے پہلے ہتھکڑیاں لگائی گئی ہیں،مودی جی کچھ توبولیے۔”ٹرمپ نے حالیہ صدارتی انتخابات میں امریکا میں مقیم غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف بڑے پیمانے پرکریک ڈان کاآغازکرنے کے نام پرکامیابی حاصل کی تھی اورجب سے وہ وائٹ ہاس کے مکین بنے ہیں تب سے اس فیصلے پرپوری شدت کے ساتھ عملدرآمدکیاجارہاہے۔
امریکی امیگریشن قوانین میں سختی گزشتہ کچھ سالوں سے دیکھی جارہی ہے اورجوبائیڈن انتظامیہ بھی غیرقانونی تارکینِ وطن کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے میں سنجیدہ نظرآتی تھی۔ امریکامیں غیرقانونی طورپرداخل ہونے والے انڈین شہریوں کی تعدادمیں بھی اضافہ ہواہے،اورامریکی حکومت ان تارکینِ وطن کی واپسی کیلئے سخت اقدامات کررہی ہے۔امریکا کیلئے غیرقانونی امیگریشن ایک بڑامسئلہ بن چکاہے،جس کی وجہ سے وہ تمام ممالک کے تارکینِ وطن کے خلاف یکساں پالیسی اختیارکررہاہے۔تارکین وطن کوفوجی طیاروں میں لادے جانے کے مناظراس پیغام کاحصہ معلوم ہوتے ہیں کہ ٹرمپ ایسے”جرائم”کے خلاف انتہائی سخت ہیں۔ تارکین وطن کوطیاروں میں لادتے ہوئے انہیں بیڑیوں سے باندھنا اورہتھکڑیاں لگانابھی اسی حکمت عملی کاحصہ لگتاہے۔
امریکامیں رہنے والے دنیابھرکے غیرقانونی تارکین وطن کوکمرشل اورفوجی طیاروں کے ذریعے ان کے وطن واپس بھیجاجارہا ہے۔تاہم امریکامیں غیرقانونی تارکین وطن کی ملک بدری کیلئے فوجی طیاروں کااستعمال غیرمعمولی ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فوجی ٹرانسپورٹ طیارے کی فلائیٹ عام کمرشل پروازکی نسبت بہت مہنگی پڑتی ہے۔یادرہے کہ حال ہی میں کولمبیااور میکسیکونے اپنے اپنے غیرقانونی تارکین وطن کولانے والی امریکی فوجی پروازوں کوقبول کرنے سے انکارکردیاتھااورکولمبیاکے صدرگستاوپیٹرونے کہاتھاکہ وہ صرف سویلین طیاروں کے ذریعے آنے والے ہی اپنے شہریوں کوقبول کریں گے لیکن امریکاکی جانب سے سی17فوجی طیارے کے ذریعے غیرقانونی انڈین تارکین وطن واپس انڈیا بھیجے جانے کے اعلان کے بعدسے حکومت ہند کی جانب سے اس نوعیت کاکوئی ایسابیان سامنے نہیں آیا۔
ماضی میں انڈین حکومت کی یہ پالیسی رہی ہے کہ وہ اپنے ڈی پورٹ ہونے والے شہریوں کوان کی شناخت کے بعدقبول کرلیتے ہیں۔ گزشتہ سال بھی بہت سے غیرقانونی تارکین وطن کویورپی ممالک سے انڈیاواپس بھیجاگیاتھا۔بزنس سٹینڈرڈکی رپورٹ کے مطابق امریکانے18ہزارغیرقانونی انڈین تارکین وطن کوفوری واپس انڈیابھیجنے کی نشاندہی کی ہے اوراب205تارکین وطن پرمشتمل پہلی کھیپ امریکاسے انڈیاپہنچ چکی ہے۔انڈیامیں سوشل میڈیاپرٹرمپ کے ساتھ ساتھ مودی کوبھی تنقیدکانشانہ بنایاجارہاہے اورپوچھاجارہاہے کہ ان کی”دوستی میں یہ کیسا مرحلہ آگیاہے”۔بہت سے صارفین انڈین تارکین وطن کوہتھکڑیوں میں امریکابدرکرنے پربھی غم وغصے کااظہارکررہے ہیں۔
امریکی اداروں کی رپورٹس کے مطابق،امریکامیں سائبرکرائمزمیں ملوث افرادکی ایک بڑی تعدادانڈین تارکینِ وطن پرمشتمل ہے۔ کئی کیسزمیں انڈین شہریوں پرمالیاتی دھوکہ دہی ،شناختی چوری،اورآن لائن فراڈجیسے الزامات عائدکیے گئے ہیں۔اس کے باعث امریکی حکام سائبرسیکیورٹی قوانین کومزیدسخت بنارہے ہیں اوران مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افرادکے خلاف کارروائی کر رہے ہیں۔یہ پہلوبھی غیرقانونی انڈین تارکینِ وطن کی ملک بدری کے حالیہ فیصلے میں ایک اہم عنصرہوسکتاہے۔
پیوریسرچ سینٹرکے تخمینے کے مطابق2022تک امریکامیں سات لاکھ سے زیادہ مکمل اورقانونی دستاویزات نہ رکھنے والے انڈین رہ رہے تھے۔یہ میکسیکواورسلواڈورکے بعد امریکا میں غیرقانونی تارکین وطن کاتیسراسب سے بڑاگروپ ہیں۔”نیویارک ٹائمز”کی ایک رپورٹ کے مطابق ان میں سے بہت سے انڈین قانونی طورپرامریکامیں داخل ہوئے لیکن ویزے کی مدت ختم ہونے کے بعدبھی وہ مناسب دستاویزات کے بغیروہیں قیام پذیرہیں۔اس کے علاوہ بہت سے ایسے بھی ہیں جوبغیردستاویزات کے غیرقانونی طریقے سے مختلف ممالک کی سرحدیں عبورکرتے ہوئے امریکامیں داخل ہوتے ہیں۔امریکی حکومت کے اعدادوشمارکے مطابق صرف دوسال قبل یعنی2023میں تقریبا90ہزار انڈین شہریوں کوامریکامیں غیرقانونی طورپرداخل ہونے پرگرفتارکیاگیاتھا۔
گذشتہ ماہ24جنوری کووائٹ ہاس کی پریس سکریٹری کیرولین لیویٹ نے سوشل میڈیاپلیٹ فارم ایکس پرہتھکڑیوں اوربیڑیوں میں جکڑے تارکین وطن کی ایک ساتھ بندھے ہوئے ایک فوجی طیارے کی طرف جاتے ہوئے تصویریں پوسٹ کی تھیں۔ان کی پوسٹ میں لکھاتھاکہ”ملک بدری کی پروازیں شروع ہوگئی ہیں۔صدرٹرمپ پوری دنیاکوایک مضبوط اورواضح پیغام دے رہے ہیں:اگرآپ غیرقانونی طورپرامریکامیں داخل ہوئے ہیں توآپ کوسنگین نتائج کاسامناکرناپڑے گا”۔
یادرہے کہ ٹرمپ غیرقانونی تارکین وطن کوحراست میں لینے اوراپیل کیلئے وقت دینے کے بجائے انہیں گرفتاری کے بعدجلدازجلد ملک بدرکرنے کی پالیسی پرعمل پیراہیں۔انہوں نے دسمبر2024میں کہاتھاکہ”میں نہیں چاہتاکہ وہ اگلے20سالوں تک(امریکامیں موجود)کیمپوں میں پڑے رہیں۔میں انہیں باہرنکالناچاہتاہوں،اوران کے ممالک کو انہیں واپس لیناہوگا۔اگرچہ ٹرمپ کی پہلی مدت کے دوران تارکین وطن کے معاملے پرباتیں ہوئی تھیں لیکن اب ان کی وائٹ ہاس میں دوبارہ آمدتارکین وطن کیلئے بڑاچیلنج بن گئی ہے۔ یادرہے کہ امریکی صدرٹرمپ نے گوانتاناموبے میں غیرقانونی تارکینِ وطن کیلئے ایک حراستی مرکزبنانے کاحکم دیاہے جہاں30ہزارافرادکورکھاجاسکے گا۔
کیوبامیں امریکی بحریہ کے اڈے پربنایاجانے والاحراستی مرکزوہاں موجودہائی سکیورٹی جیل سے الگ ہوگاجہاں ان”بد ترین جرائم پیشہ غیرقانونی تارکینِ وطن کورکھاجائے گاجوامریکی عوام کیلئے خطرہ ہیں”۔یادرہے کہ ایک طویل عرصے سے گوانتاناموبے کو غیرقانونی تارکین وطن کورکھنے کیلئے استعمال کیاجاتارہاہے جس کی انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے مذمت کی جاتی رہی ہے۔ٹرمپ انتظامیہ میں سرحدی امورکے سربراہ ٹام ہومن کاکہناہے وہاں پہلے سے موجودمرکزکی توسیع کی جائے گی۔ان کے مطابق اس کا انتظام امیگریشن اینڈکسٹمزانفورسمنٹ(آئی سی ای)سنبھالے گی۔تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ اس مرکزکی توسیع پرکتنی لاگت آئے گی یایہ کب تک مکمل ہوسکے گالیکن کیوباکی حکومت نے ٹرمپ کے اس اعلان کی مذمت کی ہے۔
صدرٹرمپ کی جانب سے ملک سے دس لاکھ افرادکے قریب ایسے تارکین وطن کونکالنے کابھی اعلان کیاہے جن کے پاس قانونی دستاویزات نہیں ہیں لیکن اس منصوبے کے راستے میں امریکاکے وہ شہررکاوٹ بن سکتے ہیں جنہیں”تارکین وطن کی پناہ گاہیں”قراردیاجاتاہے۔ان میں لاس اینجلس،نیویارک،ہیوسٹن،شکاگواوراٹلانٹاجیسے شہرشامل ہیں،جہاں بناقانونی دستاویزوالے تارکین وطن کی ایک بڑی تعدادموجود ہے اوران شہروں کی مقامی پالیسیاں بھی ملک کے دیگرحصوں کی نسبت نقل مکانی کیلئے زیادہ دوست نوازہیں۔یاد رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے شکاگوشہرسے بغیردستاویزات والے تارکین وطن کوحراست میں لینے اورملک بدرکرنے کاآغازکیا اوراس کیلئے چھاپے مارے جارہے ہیں۔گزشتہ ہفتے کے آخرتک اسی قسم کی کارروائیاں اٹلانٹا،ڈینور،میامی اورسان انتونیومیں بھی شروع ہوگئیں لیکن کسی شہرکااپنے آپ کو”پناہ گاہ”کہنے کامطلب کیاہے اوریہ بغیردستاویزات والے تارکین وطن کوکیسے فائدہ پہنچا سکتاہے؟ان شہروں میں استعمال”پناہ گاہ”کی اصطلاح عہدوسطیٰ سے لی گئی ہے۔اس زمانے میں سرائے اورخانقاہیں یاموناسٹریزہوتی تھیں جومسافروں کیلئے ایک پناہ گاہ یاتحفظ فراہم کرنے کاکام کرتی تھیں۔وہ ایسے لوگوں کوپناہ دیتی تھیں جوخودکومجرموں سے بچانا چاہتے تھے یاپھران غلاموں کی پناہ دی جاتی تھی جوظلم ستم کاشکارتھے لیکن امریکامیں اس کااستعمال 20ویں صدی کے آخرمیں ہوناشروع ہوا۔
واشنگٹن ڈی سی میں قائم امریکن یونیورسٹی میں امیگریشن لیبارٹری اورسینٹرفارلیٹن امریکن سٹڈیزکے ڈائریکٹرارنیسٹوکاستانیدانے کے مطابق1980اور1990کی دہائیوں میں اسے روایت کوکچھ مذہبی اراکین اورسماجی کارکنوں نے زندہ کیاجنہوں نے ایل سلواڈور یاگوئٹے مالاسے آنے والے تارکین وطن کوآمرانہ حکومتوں سے بچنے اورامریکامیں داخل ہونے اورلاس اینجلس،سان فرانسسکویا واشنگٹن جیسے شہروں میں محفوظ کمیونٹیزمیں رہنے میں مددکی۔اس زمانے میں جاری تارکین وطن کے حقوق کی تحریک،جوفرانس اوردیگر ممالک میں ہونے والی جدوجہدسے متاثرتھی،کے کچھ کارکنوں نے امریکامیں ان شہروں کاپناہ گاہ کے طورپرحوالہ دیناشروع کیاجہاں بغیردستاویزات والے افرادکی بڑی آبادی تھی۔دراصل یہ ایک علامتی اعلان ہے۔اس کی کوئی قانونی تعریف نہیں ہے،کوئی وفاقی”سینکچوئری”(پناہ گاہ)کاقانون نہیں ہے جویہ کہے کہ کیا قانونی ہے،کیاغیرقانونی ہے لیکن یہ وہ شہرہیں جہاں غیرملکیوں،اقلیتوں اوربغیردستاویزات والے تارکین وطن کیلئے رواداری دیکھی جاتی ہے۔
بہرحال سوشل میڈیا پراس حوالے سے گرماگرم بحث جاری ہے اور”سی 17”ٹرینڈکررہاہے جس کے تحت طرح طرح کے میمزبھی
شیئرکیے جارہے ہیں۔جبکہ انڈیاکے اس حلقے کو بھی نشانہ بنایاجارہاہے جوٹرمپ کی حمایت میں اوران کی جیت کیلئے انڈیامیں پوجا پاٹ کروارہے تھے اوران کی جیت کی دعائیں مانگ رہے تھے۔انڈین میڈیامیں یہ بھی رپورٹ ہورہاہے کہ”امریکاملک بدری کیلئے ”سی17”فوجی طیارے استعمال کررہاہے حالانکہ یہ کام سستے سویلین طیاروں کے ذریعے بھی کیاجاسکتاتھا۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ امریکا اس ملک کودہمکانہ اورفوجی طاقت کاپیغام دیناچاہتاہے جہاں وہ غیرقانونی تارکین وطن کوبھیج رہاہے”۔
ایک صارف نے کپل سبل کے ٹویٹ کے جواب میں لکھاکہ”ہتھکڑیوں میں؟یہ انتہائی ناانصافی ہے”۔وزارت خارجہ اورجے شنکرنے گزشتہ ہفتے امریکاکے دورے کے دوران اس عمل پراتفاق کیاہوگا۔اس کاانڈین عوام پراچھااثرنہیں ہوگا۔”دی انڈین ایکسپریس”کاکہنا ہے کہ فوجی طیاروں کے ذریعے ملک بدرکیے گئے غیرملکی تارکین وطن کوان کے ممالک بھیجناعلامتی ہے لیکن ٹرمپ نے اکثر غیرقانونی تارکین وطن کو”ایلین”اور”مجرم”قراردیاہے اوروہ انہیں”امریکاپرحملہ کرنے والے”کہتے ہیں،ان الفاظ پرغورکرناہوگا۔
ماضی میں جوکچھ ہواہے ابھی تک اس سے بہت مختلف پیمانے پرکچھ بھی نہیں ہواہے یہاں تک کہ وائٹ ہاس میں ڈیموکریٹک انتظامیہ کے دورمیں بھی۔نقل مکانی کے ماہرکہتے ہیں کہ”جوبائیڈن اوراوباماسمیت ہردورمیں ملک بدریاں ہوئی ہیں،جوبڑے پیمانے پرتھیں لیکن ان روزمرہ جلاوطنیوں کی میڈیاکوریج کم تھی اورفی الحال تعداد ویسی ہی ہے لیکن کیاہو رہاہے اوریہ کیسے ہورہاہے اس طرح کی باتوں پربہت زیادہ عوامی توجہ ہے لیکن ایسالگتاہے کہ وہ(ٹرمپ)زیادہ جارحیت کے ساتھ،تیزرفتاری سے اوربڑے پیمانے پرکچھ کرنا چاہتے ہیں۔امریکاغیرقانونی تارکین وطن کی ملک بدری کیلئے عموماکمرشل طیارے استعمال کرتاہے اوریہ طیارے امریکی کسٹمزاینڈامیگریشن انفورسمنٹ(آئی سی ای)کی نگرانی میں روانہ کیے جاتے ہیں۔امریکاسے ملک بدری کاعمل برسوں سے جاری ہے لیکن ماہرین کا کہناہے اب جبکہ یہی کام بڑے جنگی جہازکے ذریعے کیاجارہاہے تواس کانوٹس لیاجا رہا ہے اوراس کے اخراجات بھی زیادہ ہیں۔
سی17طیارے کی ایک ایسی ہی پروازکے گواٹیمالاجانے کاتخمینہ لگایاہے کہ ہرمسافرپرکم ازکم4675امریکی ڈالرکاخرچ آرہاہے جبکہ ایک مسافرطیارے یاکمرشل پروازمیں یہ کام محض853ڈالرمیں ہوسکتاہے اوروہ بھی فرسٹ کلاس میں۔امریکی کسٹمزاینڈ امیگریشن انفورسمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹرٹائی جانسن نے امریکی قانون سازوں کوایک سماعت کے دوران بتایاتھاکہ ان کے ادارے کی نگرانی میں چلنے والی ڈپورٹیشن فلائٹس(فوجی طیاروں پرنہیں بلکہ کمرشل مسافرطیاروں پر)فی گھنٹہ17ہزارامریکی ڈالرکاخرچ اٹھتا ہے جبکہ دوسری جانب سی-17طیارے کی فی گھنٹہ پروازکی لاگت28،500ڈالرہے۔اب تک ایسی پروازیں کولمبیا، میکسیکو،گواٹیمالا،پیرو،ہونڈوراس اورایکواڈورکیلئے روانہ کی گئی ہیں۔
انڈین میڈیاکی رپورٹس میں مزیدکہاگیاہے کہ انڈین تارکین وطن کولے کرامریکاسے روانہ ہونے والی سی17فلائیٹ کوانڈیاپہنچنے میں24گھنٹے لگیں گے کیونکہ یہ پروازگوام کے اڈے پررکے گی۔تاہم انڈیاکی تازہ رپورٹ کے مطابق 36گھنٹے سے زائد وقت کے بعدسری گرورام داس انٹرنیشنل ایئرپورٹ پرلینڈکیاہے لیکن اگر ہم صرف24گھنٹے کاہی تخمینہ لگائیں تواس پر684000امریکی ڈالر کاخرچہ آرہاہے اوراگراسے205لوگوں پرتقسیم کیاجاتاہے تویہ خرچ3336امریکی ڈالرآتاہے جوکہ عام کمرشل فلائٹ سے تین گنا زیادہ
ہے۔
انڈیا اورامریکاکے تعلقات گزشتہ دودہائیوں میں نمایاں طورپرمستحکم ہوئے ہیں،اوردونوں ممالک اسٹریٹیجک پارٹنرکے طورپر عالمی سطح پرتعاون کرتے رہے ہیں۔خاص طورپردفاع، معیشت،اورٹیکنالوجی کے میدانوں میں ان کے تعلقات نہایت قریبی رہے ہیں تاہم حالیہ واقعہ نے اس تعلق پرسوالات کھڑے کردیے ہیں۔ادھرانڈیاپہلے سے ہی صدرٹرمپ کی خوشنودی چاہتاہے۔اگرچہ سرکاری طورپراس ملک بدری پرکوئی تبصرہ نہیں کیاگیاہے لیکن یکم دسمبرکوپیش کیے جانے والے سالانہ بجٹ سے یہ اشارہ ملتاہے کہ انڈیاامریکاکواپنانرم رویہ دکھاناچاہتاہے۔گزشتہ ہفتے انڈیانے لگژری موٹرسائیکلوں پردرآمدی ڈیوٹی میں مزیدکمی کرتے ہوئے1600سی سی سے زیادہ انجن والی ہیوی ویٹ بائیکس پرمحصول کو50 ٪ سے کم کرکے30فیصداورچھوٹی گاڑیوں پر50فیصدسے40فیصدکردیاتھا۔ماہرین کاکہناہے کہ یہ کٹوتیاں ہارلے ڈیوڈسن کی درآمد کومزیدآسان بنانے کیلئے کی گئی ہیں جوکہ محصول کے امریکی حملے سے انڈیاکوبچانے کاپیشگی اقدام ہے۔
حالیہ ملک بدری کے باوجود،مودی دونوں ممالک کے تعلقات میں کوئی بڑی دراڑپڑنے سے گریزاختیارکررہے ہیں اوران کی کوشش ہے کہ امریکاانڈیاکوایک اہم اتحادی کے طورپر دیکھتارہے،خاص طورپرچین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے پیش نظر دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون،تجارتی معاہدوں،اورٹیکنالوجی کے شعبے میں مشترکہ کوششیں جاری رہیں۔اس کے علاوہ مودی کے مجوزہ امریکی دورے میں دونوں ممالک کے درمیان نئے معاہدے ہونے کی بھی توقع ہے۔امریکا کی جانب سے انڈین تارکین وطن کی ملک بدری کودوطرفہ تعلقات میں دراڑکے طورپردیکھنا قبل از وقت ہوگا۔ اگرچہ یہ ایک حساس معاملہ ہے لیکن مودی کادورہ امریکااس بات کا تعین کرنے میں مدددے گا کہ آیاحالیہ اقدام محض ایک معمولی واقعہ تھایااس کے طویل مدتی اثرات ہوں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں