![سنجیدہ کاوشوں کی ضرورت](https://juraat.com/wp-content/uploads/2020/10/hameed-ullah-bhatti.jpg)
سنجیدہ کاوشوں کی ضرورت
شیئر کریں
حمیداللہ بھٹی
معاشی بحالی کی جدوجہدمیں کامیابی کے لیے لازم ہے کہ برآمدات میں اضافہ اوردرآمدات میں کمی لائے اِس حوالے سے حکومتی کاوشیں جزوی حدتک کامیابی سے ہمکنارہوتی نظر آتی ہیں لیکن فوری توجہ کے متقاضی کئی ایسے پہلو ہیں جوہنوزنظراندازہورہے ہیں اگر ہم نے معاشی بحالی کا سنگِ میل طے کرنا ہے تو جامع حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی وگرنہ جزوی طورپر حاصل ہونے والی کامیابیاں بھی بے ثمر اوروقتی ثابت ہو سکتی ہیں جس کے نتیجے میں معاشی بحالی کی جدوجہد طویل اور مشکل ہوسکتی ہے۔
افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ایسے ممالک جن کا شمارہمارے قریبی دوست ممالک میں ہوتا ہے اُن سے بھی تجارتی توازن ہمارے حق میں نہیں بلکہ خسارہ ہے مثال کے طورپر ترکیہ جسے ہم اپنا قریبی اور بااعتماد دوست ملک تصورکرتے ہیں اُس کے ساتھ بھی تجارتی توازن پاکستان کے حق میں نہیں ظاہرہے انفرادی کی بجائے حکومتی سطح پرہی مراعات کے حوالے سے گفتگوثمربارثابت ہوسکتی ہے آج بارہ فروری کو صدر رجب طیب اردوان اسلام آباد کے دوروزہ دورے پر ہیں تو حکومت کوچاہیے کہ دو طرفہ تعلقات سمیت باہمی تجارت جیسے پہلوئوں پربھی سنجیدہ بات چیت کرے تاکہ اہم منصوبوں کے زریعے تعاون کا فروغ اور مشترکہ اقدامات سے تجارت کو وسعت حاصل ہو دونوں ممالک کے موجودہ تجارتی تعلقات پر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو ترکیہ نفع میں ہے شاید وہ پاکستان کودوست ملک کی بجائے محض اپنی تجارتی منڈی تصور کرتاہے اگر ایسا نہ ہوتا تو دوست ملک کی معاشی مشکلات کا احساس کرتااور پاکستان کوصرف برآمدات کی نظر سے ہی نہ دیکھتا بلکہ درآمدات میں حائل رکاوٹیں بھی دورکرتا عملی اقدامات نہ کرنے اور دوستی کو باتوں تک محدودرکھنے سے ہی تجارتی توازن مسلسل ترکیہ کے حق میں ہے۔
پاکستانی قیادت کچھ زیادہ ہی چین پر فریفتہ ہے تجارت سمیت ہر حوالے سے چین فائدے میں نظرآتا ہے وہ دنیا کے مہنگے ترین قرضے دیکر پاکستان کو جکڑنے میں مصروف ہے نیز مہنگا اور غیر معیاری سامان بھی پاکستان کوفروخت کررہا ہے اِس کے لیے چینی کمپنیوں کوہمارے بدعنوان عناصر کی پشت پناہی حاصل ہے لیکن چین کو پاکستانی مال کی فروخت میں مسلسل کمی دیکھی جارہی ہے طرفہ تماشہ یہ کہ چینی قرضہ ستائیس ارب ڈالر کے ہندے کو چھونے لگا ہے جوکہ نہایت تشویشناک امرہے کیونکہ آمدن کومدِ نظر رکھیں تو ادائیگی کی سکت کم ہوتی جارہی ہے اِس مشکل ترین صورتحال میں چینی کردارنظرانداز نہیں کیا جا سکتاکیونکہ چین کو برآمدات بڑھائے بغیر ہمارے پاس ایسے زرائع نہیں کہ ستائیس ارب ڈالرجیسی بڑی رقم کی ادائیگی کر سکیں لیکن وہ ہمارے سامان کابہت کم خریدارہے پاکستانی قیادت کو چاہیے کہ چین سے مزید مہنگے قرضے لینے سے گریزکرے اور برآمدات میں اضافے پر توجہ دے تاکہ قرضوں کا انبار کم ہو اور معاشی وتجارتی سرگرمیوں میں بہتری آئے۔
وسطی ایشیائی ریاستیں سنجیدہ کوششوں سے پاکستانی مال کی بہترین منڈی ثابت ہو سکتی ہیں افسوسناک امرتو یہ ہے کہ یہاں بھی تجارتی توازن پاکستان کے حق میں نہیں بلکہ خسارہ بڑھتا جارہا ہے جس کی کئی ایک وجوہات ہیں مگر اِس حقیقت کو مکمل طورپر جھٹلانا بھی ممکن نہیں کہ پاکستانی مال کومحصولات سمیت پچیدہ راہداری جیسی رکاٹوں کا سامنا ہے جنھیں دورکرنا کچھ زیادہ مشکل نہیںحکومتی توجہ سے وسطی ایشیائی ریاستوں کو برآمدات میں اضافہ ممکن ہے مگر شرط یہ ہے کہ حکومت دعوئوں پر انحصار چھوڑ کر عملی اقدامات پر توجہ دے اورمحصولات کم کرانے کے ساتھ محفوظ و آسان راہداری یقینی بنائے ۔
امریکہ ایسا ملک ہے جوپاکستانی مال کی بڑی منڈی اور تجارتی توازن بھی پاکستان کے حق میں ہے جو گیارہ ارب ڈالرکے لگ بھگ ہے مگر ٹرمپ انتطامیہ درآمدات پر محصولات بڑھانے کی روش پر گامزن ہے اب جبکہ امریکہ کو پاکستان کی کچھ زیادہ ضرورت نہیں رہی اور دونوں ممالک کے تعلقات سردمہری کا شکارہیںتو اندیشہ ہے کہ کسی وقت بھی یہ تجارتی منافع بخش منڈی چھن سکتی ہے لہذا بہتر یہ ہے کہ حکومت ایسی نوبت آنے سے قبل ہی ایسے اقدامات اُٹھائے تاکہ پاکستانی مال محصولات کی زَد میں آنے سے محفوظ رہے اِس کے لیے بہترین حکمتِ عملی یہ ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ سے دوطرفہ روابط بڑھائے جائیں چین ہماری دفاعی اور مالی ضرورت سہی لیکن ایک بڑی عالمی اور دفاعی طاقت امریکہ سے بھی بہتر تعلقات ہماری ضرورت ہیں ۔
پورپی یونین بھی پاکستان کی ایک ایسی اہم تجارتی شراکت دار ہے جہاں پاکستانی مصنوعات پر عائد محصولات میں نرمی ہے کیونکہ پاکستان کو Generalized Scheme of Preference )جی ایس پی پلس )کا درجہ حاصل ہے یہ درجہ تبھی بحال رہ سکتا ہے جب پاکستان بنیادی انسانی حقوق،ماحولیاتی تحفظ اور گُڈ گورننس سے متعلق ستائیس بین الا قوامی کنونشنز کی پاسداری کرے جن ممالک کو یورپی یونین نے جی ایس پی پلس کا درجہ دے رکھاہے ُن کی مسلسل نگرانی بھی کرتی ہے ویسے تو اکتوبر2023 میں پاکستان کو اِس حوالے سے حاصل مراعات کی 31 دسمبر2027 تک توسیع کردی گئی تھی جس کے نتیجے میں یورپی یونین کو ٹیکسٹائل برآمدات میں 108 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا مگریورپی یونین کے وفدکا حالیہ دورہ پاکستان کچھ زیادہ خوشگوار نہیںرہاوفدنے فوجی عدالتوں اور انسانی حقوق سمیت کچھ دیگر کنونشنز پر عملدرآمد نہ ہونے کی بناپر تحفظات کا اظہار کیا اِس صورتحال کے زمہ دارپی ٹی آئی کے مغربی ممالک میں متحرک عہدیدار بھی ہیں جنھوں نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کاشورمچایا ہماری زیادہ ٹیکسٹائل مصنوعات امریکہ اور یورپی یونین میں شامل ممالک کوبرآمد کی جا تی ہیں یورپی یونین کی طرف سے تحفظات کا اظہاراب صنعتی شعبے کے لیے سخت پریشانی کا باعث ہے جرمن ٹیکسٹائل میلے میں پاکستانی برآمدکنندگان کو غیر معمولی آرڈر بھی ملے لیکن اگر حاصل ترجیحی درجہ ختم ہو تا ہے تو پاکستانی مصنوعات بھی محصولات کی زَد میں آجائیں گی ایسی صورتحال تجارتی حوالے سے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے یورپی یونین کے تحفظات بروقت دور کرنے سے ترجیحی درجہ برقراررکھا جا سکتا ہے وگرنہ فائدہ مند تجارتی منڈیاں کھونے سے معاشی بحالی کی جدوجہد رائگاں جا سکتی ہے مہنگی بجلی سے پہلے ہی پیداواری لاگت میں بے تحاشہ اضافہ ہو چکا ہے یورپی یونین کی حاصل منڈی چھن جانے کا جھٹکامعاشی بحالی کی حکومتی جدوجہد کوبُری طرح متاثر کر سکتاہے۔
پاکستان کاچاول کی عالمی برآمد میںاہم حصہ ہے لیکن باسمتی چاول کی شناخت کے حوالے سے پاکستان کا بھارت سے مقابلہ ہے حکومتی
کاوشوں سے یورپ میں بھارت باسمتی چاول کوصرف اپنی شناخت ثابت کرنے میں ناکام ہوچکا لیکن اب بھی بھارتی لابی سرگرم ِعمل ہے اِس میں کچھ ہمارے منافع خور تاجراُس کاکام آسان کررہے ہیںجو وعدے کے مطابق معیاری جنس برآمد کرنے کا وعدہ پورا نہیں کرتے ضرورت اِس امر کی ہے کہ بھارتی چالوں کو بروقت ناکام بنانے کے ساتھ نئی منڈیاں بھی تلاش کی جائیں اورجو تاجرملک کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں کو سزا دینے کے لیے مناسب قانون سازی سے ہی تجارتی مقابلہ کیاجاسکتا ہے خوش قسمتی سے بنگلہ دیش جو چاول کا ایک اہم خریدار ہے اُس کی منڈی تک پاکستان کو رسائی حاصل ہو چکی جوکسی حدتک خوش آئندہے معاشی بحالی کے خواب کوپوراکرناہے تو برآمدی پیداوار بڑھانے کے ساتھ نئی تجارتی منڈیوں کی طرف پیش قدمی جاری رکھنا ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔