میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
چلیں مچھر چھانتے ،اونٹ نگلتے ہیں!

چلیں مچھر چھانتے ،اونٹ نگلتے ہیں!

ویب ڈیسک
منگل, ۱۳ فروری ۲۰۲۴

شیئر کریں

اب یہ ایک پامال فقرہ ہے، بار بار دُہرایا گیا۔ مگر بار بار سچ ثابت ہوا۔ تاریخ کا سبق ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ نوازشریف کے باب میں معاملہ کچھ زیادہ وکھڑا ہے۔ یہ تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے بلکہ تاریخ کو سبق سکھانے پر تُلے رہتے ہیں۔ چشم ساعت اُن سے روٹھ گئی، مگر وہ دست ِوقت پر بیعت ِشوق کیے ہوئے ہیں۔ بڑھتے بڑھتے اپنا دست ِ ہوس بڑھاتے ہی گئے مگر شاعر کی زبان میں گھٹتے گھٹتے دست ِ دعا رہ گئے ۔ اقتدار کی ہوس ایسی ہے کہ سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔ افسوس راندۂ درگاہ ہونے کے باوجود درگاہ کے باہر پڑے ہیں۔ کوئی اُن کے کان میں سرگوشی کرے کہ صفر، صفر کے ساتھ مل کر ہندسہ نہیں بناتے۔ اقتدار کا جادوئی ہندسہ اگر آپ کا اپنا نہ ہوتو مسند ِ اقتدار بھی آپ کی نہیں ہوتی۔ بجوکا میں روح نہیں گھاس پھوس ہوتی ہے۔ یہ دھوکا دینے کے لیے ہوتا ہے ، خود دھوکے میں آنے کے لیے نہیں۔ نوازشریف تُلے ہیں کہ اقتدار سنبھالا جائے۔ اعداد وشمار اکٹھے کر لیے گئے، بھان متی کا کنبہ تیار ہے۔دھوکا تیار ہے، بجوکا سمجھتا ہے کہ وہ گھاس پھوس کا نہیں، سمعی بصری فیتوں کی روح سے اپنے آپ میں جان ڈال دے گا۔ حکومت کر لے گا۔
نوامیس ِ فطرت بدلتے نہیں۔ بشری طاقت کتنی ہی بھیانک ہو، قانونِ فطرت سے بڑی نہیں ہو سکتی۔ انسان، انسان کے لیے خوف پیدا کر سکتا ہے، مگر تاریخ کے جبر کے سامنے وہ منہ کے بل گرتا ہے۔ کیا عجب ماجرا ہے۔ ہر وہ الزام جو عمران خان پر لگایا گیا، وہ غلط ثابت ہوا۔ اور الزام لگانے والے اُسی الزام کے بمصداق ثابت ہوئے۔ سفاکیت دیکھیے! لمحہ موجود میں اپنی کارگزاری کو دوسرے کے خلاف چارج شیٹ بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔ نواز لیگ ہمیشہ سے اس میں ماہر تھی۔ سموچے اونٹ نگلتے تھے مگر ہمیشہ دوسروں کے مچھر بھی چھانتے تھے۔ اونٹ کے نوالے میں شریک ذرائع ابلاغ جرائم میں بھی اُن کے شراکت دار تھے۔ مگر تحریک انصاف پر الزام تھا کہ وہ پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ زیادہ وقت نہیں گزرا۔ یہ ٢٠١٨ کے انتخابات تھے، زرداری کے برخوردار نے عمران خان پر آوازا کسا ”سلیکٹڈ وزیراعظم”۔  پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نے ”لاڈلے” کی سُر میں” سلیکٹڈ” کی بھنبھناہٹ جاری رکھی۔ شریف برادران کو تو اللہ نے کب توفیق دی کہ کوئی درست بات کرتے مگر صداقت کے الہامی فرمودات سے منبر و محراب گرمائے رکھنے والے اصحاب جبہ و دستار بھی جھوٹ کی دُکان بڑھاتے رہے۔ کبھی عمران خان پر دھرنے کا الزام تھا، دھرنا اُس کے خلاف دیا گیا۔ لباس نہیں تب دلائل تبدیل کر لیے گئے۔ بے شرم ذرائع ابلاغ نے عمران خان کے دھرنے کے خلاف جو شور مچایا وہ عمران خان کے خلاف دھرنے میں قومی مسائل کی موسیقی میں بدل گیا۔ سلیکٹڈ وزیراعظم اور لاڈلے کے الزامات سہنے والا عمران خان جب ایوان وزیراعظم سے نکلا تو کہا: کوئی رہ تو نہیں گیا۔ کوئی نہیں رہا تھا۔ مگر سلیکٹڈ اور لاڈلے کی جگالی کرنے والے ہیر پھیر کے اس چکر میں جب اپنے پرانے منصب ِ دلبری پر بحال ہو ئے تو کسی نے ”سلیکٹڈ اور لاڈلے” کے الفاظ کی جگالی نہیں کی ۔ بے شرم ذرائع ابلاغ کو ایک مرتبہ پھر یاد کریں۔ یہ پی ڈی ایم کی حکومت تھی۔ دُہری سلیکٹڈ، دُہری لاڈلی۔ اسے یہاں سے ہی نہیں، دنیا بھر میں حکومتیں گرانے والے امریکا کی پسندیدگی کی سند بھی میسر تھی۔ بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے بے ضمیر دانشور کبھی پاکستان میں امریکی مداخلتوں پر کتابیں لکھا کرتے تھے، دائیں بازو کے نظریات رکھنے والے دانشوروں اور سیاست دانوں کو امریکا کے طفیلیے کہتے تھے۔ اچانک جی بہلا دینے والی کسی گمراہ کن شب میں نوازشریف کے ہو رہے۔ یہ تمام کے تمام کسی ہچکچاہٹ کی شکار بنت حوا کی مصالحانہ مزاحمت کی کیفیت کے شکار ہوئے۔ نواز شریف کے بیش قیمت مہنگے سیاسی کمبل پر سرمائے کی گوٹا کناری نے طبقات کی بحث سے نکال کر انہیں میٹھی نیند دی۔ یہ بیش قیمت کمبل اوڑھنے والے کسی ایک نظریے کے نہ تھے۔ دائیں بائیں سارے ہی اس کمبل کے نیچے ایک دوسرے کو سازگار ہوئے۔ دائیں بائیں کی بحثیں لپٹ گئیں، ہر چیز نوازشریف کی ”ذات ِوالاصفات ” کے گرد گھومنے لگی۔ دربارِ سرمایہ میں جاہ پسند اور راحت پسند اصحاب جبہ و دستار سے لے کر رندانِ خرابات تک سب ہی ایک صف میں کھڑے نظر آئے۔ وہ شخص جسے ڈھنگ کے چار فقرے بھی روانی سے بولنے نہیں آتے، اس میں سے اچانک ایک مدبر برآمد ہوا۔ کسی کو اس میں سقراط کی جھلک دکھائی دی، کوئی اُن کی سیاسی قلابازیوں پر ابن خلدون کے نظریہ ٔ تاریخ کے زرق برق ورق چڑھاتا رہا۔ کچھ عرصہ قبل عمران خان یوٹرن خان تھا۔ یہ بحث بھی ختم ہوگئی، اِ دھر ”استعفیٰ نہیں دوں گا” سے ٹائپسٹ بننے تک، ”اقتدار نہیں اقدار” سے لے کر پی ڈی ایم سرکار تک ،”ووٹ کو عزت دو” سے لے کر گھوڑوں گدھوں کی خرید وفروخت اور چمگاڈروں کے جاگنے کے اوقات میں چپکے چپکے ، چھپ کے چھپ کے ملاقاتوں تک کہیں کسی یوٹرن کا گمان تک پیدا نہیں ہوا۔ دائیں بازو کے منافق اور ریاکار دانشوروں سے لے کر بائیں بازو کے فریبی اور ڈھونگی خرد مندوں تک سب کتاب الحیل کھولے بیٹھے رہے۔ حیلے تراشتے رہے۔ کسی نے ان قلابازیوں کو یوٹرن نہیں کہا۔ عمران خان کے باب میں سلیکٹڈ سے لے کر یوٹرن تک ہونے والی یہ بحث بھی ختم ہوئی۔
ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا۔ نون لیگی زبانیں دراز تھیں، لفنگوں کی زبان میں اُن کے دانشورعمران خان کی راتوں کو زیرِلب مسکراہٹوں کے ساتھ ہدف بناتے تھے۔ اُنہیں عمران خان کے باب میں توبہ کی فضیلتیں یاد نہ رہیں، تبدیلی کی آرزو پر یہ نیتوں کے پہرے دار بن گئے۔ مگر وہ نواز شریف کو ہدف بنانے والے موضوعات میں اُس خاتون گلوکارہ سے لے کر مصنفہ کم بارکر تک سب کچھ فراموش کر بیٹھے تھے، جس پر شرمندگی کا کوئی لفظ تھا، نہ توبہ کی کوئی گواہی۔ بس یہ خدائی فوجدار شریف عورتوں سے لے کر معزز رشتوں تک ہر ایک پہ پِل پڑے تھے۔ لے پالکوں کو چھوڑیں مگر یہ دانشوربھی عمران خان کو ایک سلیبرٹی کے رنگ وروپ میں کسی نشئی کی مانند دیکھتے اور دکھاتے تھے، جس کے متعلق یہ رائے مستحکم کر دی گئی کہ صرف ایک رات اِ سے حوالۂ زنداں کر کے دیکھیں، کیسے اس کے اعصاب چٹختے ہیں؟ اس کے لیے عون چودھری کے مجہول حوالے گردش کرتے رہے۔ پروپیگنڈے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ جھوٹ کے کاروبار ایسے ہی چلتے ہیں۔ میڈیا کے دانشور گاہے کسبی جتنی حیا بھی نہیں دکھاتے۔ نون لیگ سے تعلق واسطے کی زیادہ سے زیادہ قیمت تو پتہ نہیں کیا دینا پڑتی ہو، مگر اس کی ادنی قیمت کردار کی دِنائی سے ادا کی جاتی ہے۔ وہ دی اور دی جاتی رہی، یہاں تک کہ اُسے گرفتار کر لیا گیا۔ مگر یہ کیا سال گزشتہ اگست سے گرفتار عمران خان نئے سال کے ماہ فروری میں داخل ہے، مگر نہ خود ترحمی اور خود ترسی کی فریادیں ہیں۔ نہ بے خودی کی مجبوریوں سے پھوٹنے والی بیمار آوازیں ہیں۔ نہ اعصاب چٹخنے کے دور دور تک آثار ہیں۔ دانشوروں نے عمران خان کو نوازشریف پر قیاس کر لیا تھا۔ چند روز میں بیماری کے بہانے، پلیٹ لیٹس گرنے کا شور شرابہ ، جیل سے نکلنے کی درخواستیں۔ مگر دانشوروں نے نوازشریف کے بیماری کے بہانے لندن فرار کو بھی تقدیس عطا کی اور عمران خان کی جیل میں استقامت کو بھی تحقیر کا ہدف بنائے رکھا۔
عمران خان کو جیل میں ڈال کر مقاصد حاصل کرنے کے دماغ نے بھی 8 فروری کو شکست کھائی۔ ابھی احمقوں نے تجزیہ نہیں کیا کہ طاقت کا مقابلہ طاقت سے نہیں کردار سے کیا جاتا ہے۔ عمران خان نے کردار سے کیا۔ طاقت اپنے استعمال سے خرچ ہو کر ختم ہوتی ہے اور کردار اپنے ظہور سے اعتبار پا کر باعث ِبرکت بنتا ہے۔ اڈیالہ کا قیدی ، قید کہاں ہے؟ اُسے حوالۂ زنداں بنا کر انتخابات میں اپنے مقاصد کے خواہاں ناکام رہے۔ وہ اپنے ہی پیدا کردہ حالات کے قیدی بن گئے۔ انتخابات میں اگر کسی مہم نے عوام پر اپنا اثر چھوڑا تو وہ قیدی نمبر 804 کی استقامت ہے۔ اب ”بجوکے” حکومت کریں گے۔ چند ہفتے یا چند ماہ۔ دھاندلی مینڈیٹ کا مقابلہ کرے گی، چند ہفتے یا چند ماہ ۔ مگر یہ برقرار نہ رہ پائیں گے۔ جس طرح انتخابات کے منصوبے ناکام ہوئے ، بعد از انتخابات یہ کھیل بھی برباد ہو جائیں گے۔ ابھی یہ فیصلہ بھی ہونا ہے کہ جنہیں ایک پارٹی کے انتخابات میں خرابیاں نظر آئی تھیں، اُنہیں عام انتخابات میں بھی کچھ نظر آیا ہے یا نہیں؟ ابھی یہ فیصلہ ہونا ہے کہ حضرت عیسیٰ نے جو اپنی قوم کے لیے کہا تھا کہیں ہم وہاں تک تو نہیں پہنچ گئے، انجیل میں حضرت عیسیٰ کا اپنی قوم کی اشرافیہ کے متعلق یہ ارشاد ملتا ہے کہ ”تمہارے اندر خیانت بھری ہے، تم مچھر چھانتے ہو اور سموچے اونٹ نگل لیتے ہو”۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں