ہلدوانی پربلڈوزر کا قہر
شیئر کریں
معصوم مرادآبادی
یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کے بعد اتراکھنڈ کے وزیراعلیٰ پشکر سنگھ دھامی ہلدوانی میں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں۔ یہاں گزشتہ جمعرات کو سرکاری بلڈوزروں نے ایک مسجد اور مدرسے پر قہر ڈھایا تھا۔ الزام ہے کہ دونوں ہی سرکاری زمین پر قبضہ کرکے بنائے گئے تھے ۔ حالانکہ انہدامی کارروائی کا معاملہ عدالت میں زیرسماعت ہے اور 14/فروری کی تاریخ بھی طے تھی، لیکن اس سے پہلے ہی بلڈوزر وہاں پہنچ گئے اور انھوں نے مسجدومدرسہ کو مسمار کردیا۔ اس غیرقانونی کارروائی کے خلاف احتجاج کے لیے جو مسلمان سڑکوں پر آئے ان کے ساتھ وہی سلوک کیا گیا، جوایسے موقعوں پر کیا جاتا ہے ۔ نتیجے میں چھ افراد ہلاک ہوگئے ہیں اور درجنوں زخمی ہیں، ان میں تین کی حالت سنگین بتائی جاتی ہے۔ مرنے والوں کے نام فہیم قریشی، زاہد، محمد انس،شعبان اور پرکاش کمار ہیں۔تشدد کے بعد ہلدوانی میں کرفیو نافذ کرکے دیکھتے ہی گولی ماردینے کے احکامات جاری کردئیے گئے ہیں۔ وزیراعلیٰ دھامی نے اس تشددکو منصوبہ بند سازش قراردے کرخاطیوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کے احکامات دئیے ہیں۔ پانچ ہزار لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہیں اور فساد بھڑکانے والوں پر قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے )کے تحت کارروائی کی جارہی ہے ۔ یہ بتانا ضروری نہیں ہے کہ اس کارروائی کی زد کن لوگوں پر پڑے گی اور کون لوگ برسوں سلاخوں کے پیچھے رہیں گے ۔سب کو معلوم ہے کہ فساد کا نشانہ کون ہوتا ہے اور یک طرفہ کارروائی کس کے خلاف ہوتی ہے ۔ وزیراعلیٰ دھامی نے اس تشدد کو منصوبہ بند سازش قرار دیتے ہوئے اس بات پر قطعی غور نہیں کیا کہ اس کی شروعات کس نے کی اور کیوں لوگ اس قدر مشتعل ہوئے ۔ اگر آپ کسی چڑیا کے گھونسلے میں بھی ہاتھ ڈالیں گے تو وہ چونچ ضرور مارے گی، لیکن یہاں مسلمانوں کی مسجدوں، مدرسوں، مزاروں اور مکانوں کو نیست ونابود کیا جارہا ہے اور امید یہکی جارہی ہے کہ وہ اف بھی نہ کریں۔اس صورتحال پر شاد لکھنوی کا یہ شعر صادق آتا ہے ۔
نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے
گھُٹ کے مرجاؤں یہ مرضی مرے صیاد کی ہے
ہلدوانی سے بلڈوزر کا رشتہ نیا نہیں ہے ۔ گزشتہ برس یہی ہلدوانی اس وقت سرخیوں میں آیا تھا جب ایک مسلم آبادی پر یہ کہہ کر بلڈوزروں سمیت دھاوا بولا گیا تھاکہ یہ آبادی ریلوے کی زمین پر بنی ہے جبکہ مکینوں کے پاس سیکڑوں برس پرانے کاغذات موجود تھے ۔ ابھی تک یہ سمجھ میں نہیں آسکا ہے کہ یہ نئے بلڈوزر کس تکنیک سے بنے ہیں کہ وہ جب بھی حرکت میں آتے ہیں تو ان کا نشانہ مسجدیں، مدرسے اور مسلم بستیاں ہی ہوتی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان میں بھی فرقہ پرستی کاکوئی وائرس ڈال دیا گیا ہو۔ پچھلے دنوں ان ہی بلڈوزروں نے دہلی کی صدیوں پرانی آبادی مہرولی میں ایک 700 سال پرانی مسجد اور مدرسے کو ناجائز تعمیر قرار دے کر مسمار کردیا تھا۔
ہلدوانی اسی اتراکھنڈریاست کا شہر ہے جہاں گزشتہ ہفتہ یکساں سوِل کوڈ نافذ کیاگیا ہے ۔تقریباً ایک کروڑ کی آبادی پر مشتمل اس ریاست میں مسلمانوں کی آبادی 14لاکھ ہے ۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ یکساں سوِل کوڈ نافذ کرنے کے اگلے ہی دن میونسپلٹی نے سب سے گھنی مسلم آبادی کے شہر ہلدوانی میں مسجد اور مدرسے پر بلڈوزر چلاکرانھیں منہدم کردیا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس وقت اسمبلی میں یکساں سوِل کوڈ نافذ کرنے کا بل پیش کیا جارہا تھا تو سب سے زیادہ سیکورٹی فورس ہلدوانی میں ہی تعینات کی گئی تھی۔اسمبلی میں بل کی پیشی کے دوران بی جے پی ممبران نے ‘جے شری رام’اور ‘وندے ماترم’ کے بلند بانگ نعرے لگائے ۔ایسا محسوس ہوا کہ یہاں یکساں سول کوڈ نہیں بلکہ ہندو کوڈ نافذ کیا جارہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بیرسٹر اسدالدین اویسی نے اس کو ‘ہندوکوڈ بل’ قرار دیا ہے ، کیونکہ اس بل میں ہندو غیرمنقسم خاندانوں کو چھوا تک نہیں گیا ہے ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس قانونی مسودے میں کئی مقامات پرمسلم پرسنل لاء اور شرعی قوانین پر زبردست چوٹ کی گئی ہے اور ایسے موضوعات کو چھیڑا گیا ہے جن سے مسلمانوں میں اشتعال پھیلنا لازمی ہے ۔ یہاں تک کہ شوہر کے انتقال یا طلاق کے بعدمسلم خواتین کی عدت پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے ۔یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے بعد اتراکھنڈ کے مسلمانوں میں غم وغصے کی لہر پہلے سے ہی موجود تھی جسے ہلدوانی میں مسجد ومدرسہ پر کئی گئی انہدامی کارروائی نے مزید شہ دی۔
واضح رہے کہ اتراکھنڈ میں نافذ یکساں سول کوڈ میں جائیداد میں عورتوں کو مساوی حصہ دینے کی بات کہی گئی ہے جبکہ شریعت کی رو سے عورتوں کو ایک تہائی حصہ دینے کا اہتمام ہے ، کیونکہ انھیں شوہر کی جائیداد میں بھی حصہ ملتا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ایک سے زائد شادی کرنے پر پابندی لگائی گئی ہے ، جبکہ اسلامی شریعت کے مطابق مرد کچھ پابندیوں کے ساتھ ایک سے زائد شادی کرسکتا ہے ۔ شادی کے لیے لڑکی کی عمر 18سال اورلڑکی کی 21سال طے کی گئی ہے ۔یہ اہتمام ہندو میرج ایکٹ مجریہ 1955کے تحت کیا گیا ہے جبکہ مسلم قانون سن بلوغت(اندازاً 13سال)کو پہنچنے پر شادی کی اجازت دیتا ہے ۔واضح رہے کہ قومی کمیشن برائے خواتین نے کمسنی کی شادی کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ دائرکررکھا ہے ، جوچیف جسٹس کی سربراہی والی بنچ کے سامنے زیرالتوا ہے ۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈ کے مسودے کی تیاری کے دوران مسلمانوں کے عائلی قوانیں سے چھیڑ چھاڑ کی پوری کوشش کی گئی ہے اور غالباً اس کا مقصد بھی یہی ہے ۔ اسی لیے مسلم رہنماؤں اور مسلم پرسنل لابورڈ نے اس پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس قانون سے درج فہرست قبائل کو اس لیے الگ رکھا گیاہے کیونکہ دستور کی دفعہ 366میں انھیں تحفظ فراہم کیا گیا ہے ، جبکہ دستورکی دفعہ 25، 26 اور29میں مسلم پرسنل لاء کو حاصلتحفظ کو خاطر میں نہیں لایا گیا ہے ۔
واضح رہے کہ دفعہ370کے خاتمہ اور رام مندر کی تعمیر کے بعدیکساں سول کوڈ بی جے پی کا تیسرا انتخابی وعدہ تھا جسے پایہ تکمیل تک پہنچایا جا رہاہے ۔ اس طرح ملک گیر سطح پر نہ سہی صوبائی سطح پر ہی اسے نافذ کرنے کا کریڈٹ لینے میں بی جے پی پیچھے نہیں رہے گی۔وہ پارلیمانی انتخابات میں خم ٹھونک کر کہہ سکتی ہے کہ اس نے اپنے تینوں انتخابی وعدے پورے کردئیے ہیں، اس لیے سارے ووٹ اس کی جھولی میں ہی ڈالے جائیں۔ یکساں سول کوڈ کو قومی سطح پر نافذ نہ کرنے کے پیچھے اصل وجہ یہ ہے کہ لاء کمیشن نے اس کے نفاذ کے لیے جو ریفرنڈم کرایاتھا،
اس میں غالب رائے اس کے خلاف تھی، کیونکہ ملک کی بعض ریاستیں ایسی ہیں، جہاں کے مخصوص کلچر اور مذہبی رسومات کی بنا پر یکساں سول کوڈ کا نفاذ ممکن ہی نہیں ہے ۔ملک کی واحد ریاست گووا ہے جہاں یکساں سول کوڈ نافذ ہے ۔ یہ پرتگالی قانون ہے ، جو آزادی سے پہلے وجود میں آیا تھا۔
اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کومسلم قیادت نے شریعت مخالف قانون قرار دیتے ہوئے اس کی سخت مخالفت کی ہے اور اسے پوری طرح نامنظور کردیا ہے ۔مسلم قائدین کا کہنا ہے کہ وہ ایسا کوئی قانون تسلیم نہیں کریں گے جو شریعت سے متصادم ہو، کیونکہ آئین میں مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے ۔سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اس بل میں لیواِن ریلیشن شپ کو قانونی حیثیت دی گئی ہے ۔ شادی کے بغیر لڑکی اور لڑکے کا ایک ساتھ میاں بیوی کی طرح رہنا مغربی کلچر کا حصہ ہے ، جس کی بے شمار خرابیاں سامنے آچکی ہیں، لیکن سپریم کورٹ چونکہ اس پر رضا مندی ظاہر کر چکا ہے ، اس لیے اس کو بل میں شامل کرلیا گیا ہے ۔
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اس حکومت کا سب سے بڑا نشانہ مسلمان ہیں، جن کی تاریخ، تہذیب اور کلچر کو مٹانے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئے دن مسجدوں، مدرسوں اور مزاروں پر بلڈوزر چل رہے ہیں، جس کا تازہ ترین ثبوت ہلدوانی ہے ۔پچھلے دنوں دہلی کے مہرولی علاقہ میں جس طرح صدیوں پرانی مسجد، مدرسے اور مزار کو ڈی ڈی اے نے بے دردی کے ساتھ منہدم کیا ہے ، وہ اپنی مثال آپ ہے ۔حالانکہ اس پر عدالت کا حکم امتناعی موجود تھا، لیکن اس کی بھی پروا نہیں کی گئی۔پچھلے دنوں نئی دہلی میونسپل کارپوریشن نے 150 سال پرانی سنہری مسجد کو ٹریفک کی نقل وحمل آسان بنانے کے مقصد سے منہدم کرنے کے لیے باقاعدہ اخبار میں نوٹس جاری کیا تھا۔ بابری مسجد کی ظالمانہ شہادت اور اس کے مقام پر عالیشان رام مندر کی تعمیر کے بعد فرقہ پرست عناصر اورانتظامیہ کے حوصلے اتنے بلند ہیں کہ وہ مسلمانوں کی ہر شناخت کے خلاف محاذ آرائی کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ہلدوانی کا تشدد بھی اسی محاذآرائی کا نتیجہ ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔