میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ایم کیو ایم پر پی ایس پی کی گرفت مضبوط، متحدہ تنازعات کی شکار

ایم کیو ایم پر پی ایس پی کی گرفت مضبوط، متحدہ تنازعات کی شکار

ویب ڈیسک
پیر, ۱۳ فروری ۲۰۲۳

شیئر کریں

(رپورٹ : باسط علی) متحدہ قومی موومنٹ میں مختلف باغی گروپوں کو واپس اُنڈیلنے کے فیصلے پر یکسوئی تاحال نہیں ہو سکی۔ پی ایس پی کی پارٹی کمان پر بڑھتی گرفت اورمختلف فیصلوں میں ان کی حاصل برتری پر پارٹی میں خاموش بغاوت کا آغاز ہوگیا ہے ۔ جس سے ایم کیو ایم مختلف تنازعات کی شکار ہو رہی ہے۔ متحدہ کے مختلف شعبوں میں پی ایس پی کے انچارجز اور نئے نئے عہدوں پر ایڈجسٹمنٹ کے عمل نے پرانے ارکان کو مشکل میں ڈال دیا ہے ۔ ایم کیو ایم کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی امریکا جانے کے لیے پرتول رہے ہیں۔ ان کی صحت بہتر نہیںلیکن پارٹی کا شیرازہ بکھرنے کے ڈر اور اپنی گرفت کمزور ہونے کے خدشے سے وہ امریکا جانے سے گریز کر رہے ہیں۔ ڈپٹی کنوینر کنور نوید جمیل کی حالت بھی تشویش ناک ہے ، اطلاعات کے مطابق وہ گھر پر وینٹی لینٹر پر ہیں۔ ان کے علاج کے اخراجات پارلیمانی لیڈر کی حیثیت کے باعث سندھ حکومت برداشت کر رہی ہے ۔جرأت کو پارٹی کے اندر موجود کراچی دوست ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے ورکرز اور عہدیدار ایک دوسرے پر شک کر رہے ہیں کہ اندر کی خبریں کون افشاء کر رہا ہے ۔ پی ایس پی اور ایم کیو ایم کے شعبہ اطلاعات کے ورکرز اور رہنماؤں کے ایک دوسرے پر شک کے درمیان انچارج بنائے گئے احسن غوری متازع ہو گئے ہیں ۔ واضح رہے کہ احسن غوری کو امین الحق کی سرپرستی حاصل ہے ۔ لیکن امین الحق ان کا دفاع کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کے بعدانیس قائم خانی نے عملاً معاملات کو کنٹرول میں لے لیا ہے جس پر شعبہ اطلاعات کے ذمہ داران ناراض ہیں کہ خبریں رابطہ کمیٹی کی جانب سے افشاء کی جارہی ہیں ہمارے ذریعے نہیں۔ اپنے اندر لوگ تلاش کریں۔ ہمیں ہدف تنقید نہ بنائیں۔انتہائی ذمہ دار ذرائع کے مطابق کراچی کے مینڈیٹ کو بار بار بیچنے والی متحدہ کی قیادت نے ایک مرتبہ پھر پیپلزپارٹی سے ”پیکیج ”لے کر دھرنا ملتوی کیا ہے۔ ایم کیو ایم میں اختلافات کے باعث اپنا الو سیدھا کرنے کے ذہن نے ہمیشہ رہنماؤں کو خفیہ ڈیل کا راستا سکھایا ہے ۔چنانچہ نئے حالات میں پیپلزپارٹی سے وزارتوں کے لیے معاملات طے کرنے کا ہدف گورنر سندھ کو دیا گیا ہے۔ ایم کیو ایم کی جانب سے بلدیات، داخلہ اور خزانہ کی وزارتیں طلب کی گئی تھیں۔ جس پر پیپلزپارٹی نے فرمائشی وزارتیں دینے سے انکار کردیا ہے۔اطلاعات کے مطابق پیپلزپارٹی ایم کیو ایم کو مذہبی اموراور ورکس اینڈ سروسز کی وزارتوں کے علاوہ دو مشیر دینے پر رضا مند ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایم کیو ایم رہنماؤں کی حالیہ دنوں میں پی پی پی سے خفیہ ملاقات میںبہت سے امور زیر بحث آئے ہیں ۔ ملاقات میں ایم کیو ایم کی جانب سے فرمائش کی گئی تھی کہ ضمنی الیکشن میں پی پی پی کے امیدوار ایم کیو ایم کے مقابل نہ کھڑے کیے جائیں، جس پر پی پی پی نے فوری جوب دینے سے معذرت کرلی ہے ۔ پیپلزپارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق پارٹی قیادت مستقبل میں کراچی کے کسی بھی انتخابی عمل سے باہر نہ رہنے پر مُصر ہے ۔ ایم کیو ایم پس پردہ اس معاملے کو حل کرانے کے لیے کراچی کے کسی بھی مسئلے کو بنیاد بنا کر یا پھر بلدیاتی انتخابات پر سوال اُٹھا کر ایک بار پھر دھرنے کا اعلان کرسکتی ہے ۔ ذرائع کے مطابق اس کا واحد مقصد کراچی میں ضمنی انتخابات میں اپنے امیدواروں کے مقابل پیپلزپارٹی کے امید واروں کو کھڑا نہ کرنے کے لیے پیپلزپارٹی قیادت پر دباؤ ڈالنا ہوگا۔ اس پورے سیاسی منظرنامے میں کامران ٹیسوری کو ہٹانے کا معاملہ ٹل گیا ہے۔ جرأت کو اس کھیل کی حقیقت سے آگاہ کرتے ہوئے ایم کیوایم کے ایک رہنما نے رازداری سے بتایا کہ کامران ٹیسوری کی جانب بااثر حلقوں کی مرضی کے خلاف اس وقت دیکھا بھی نہیں جاسکتا۔ مگر یہ شور محض اس لیے کیا گیا تھا تاکہ کامران ٹیسوری کو دباؤ میں رکھا جاسکے۔ اور اُنہیں آزاد فیصلوں سے روکا جاسکے۔ ایم کیوایم کامران ٹیسوری کے ذریعے بلدیہ کراچی پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا اور برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ واضح رہے کہ کے ایم سی کے 45محکمہ جاتی سربراہان میں سے 42ایم کیو ایم کے ہیں۔دوسری جانب نئے انتخابات سے قبل پی پی پی میں شیراز وحید سابق ایم پی اے کورنگی، محمد وسیم سابق رکن قومی اسمبلی، موسی خان، یامین ظفر، جعفر علی، آصف علی خان و دیگر اراکین قومی اسمبلی کے بھی پی پی پی سے رابطے ہوئے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان پی پی پی میں شمولیت کے حوالے سے ایم کیوایم ارکان کے رابطوں پر برہم نظر آرہی ہے ۔ جبکہ پی پی پی صرف وفاقی حکومت کی وجہ سے مصالحتی رویہ اختیار کیے ہوئے ہے ۔ ایم کیو ایم رہنما، عامر خان مایوس نظر آرہے ہیں اور انہوں نے رابطہ کرنے والوں سے معذرت کرلی ہے ۔ پی پی پی سے ڈو مور فارمولے کے تحت مزید مراعات بھی مانگی گئی ہیں۔ متحدہ کے رابطہ کمیٹی کے اسی اراکین شش و پنج میں مبتلا ہیں، قانونی طور پر صرف پینتیس الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہیں۔ عارف خان نے کورنگی، کشور زہرہ نے وسطی، عبدالحق نے غربی کی ایڈمنسٹریٹر شپ کے لیے لابنگ شروع کی ہوئی ہے ، جس میں انکا موقف ہے کہ جتنے بھی دن کے لئے ہمیں دی جائے ۔ وسیم اختر بھی سارے معاملات میں نظر اندازی پر سخت موقف رکھتے ہیں۔ وسیم اختر کو نظر انداز کرنے پر ارشد حسن، راشد سبزواری، فرقان اطیب، سی او سی ارکان کے احتجاج کی بھی اطلاعات زیر گردش ہیں۔ ذرائع کے مطابق اگر سندھ حکومت سے معاملات طے ہونے کی صورت میں ایم کیو ایم کو وزارتیں مل گئیں تو پارٹی کے اندر نئے تنازعات جنم لیں گے۔پی ایس پی نے اپنے نام پہلے سے ہی متحدہ قیادت کے سامنے رکھ دیے ہیں،جن میں ارشد وہرہ کو مشیر بنانے کا مطالبہ بھی شامل ہے ۔اس کے علاوہ اگر مصطفی کمال الیکشن جیت گئے تو امین الحق سے وزارت مصطفی کمال کو دینے کا بھی فیصلہ ہوگیا۔ محمد حسین، علی خورشیدی، نائلہ لطیف کووزارتوں اور مشیران بنانے میں کیلئے دباؤبھی ہے ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں