سندھ کا سیاسی خلاء
شیئر کریں
صوبہ سندھ اس وقت سیاسی قیادت سے خالی اور وفاق میں نمائندگی سے عاری ہے‘ سندھ کی دونوں بڑی پارلیمانی جماعتوں کی وفاقی حکومت میں کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے دونوں قائد آصف علی زرداری اور ان کا بیٹا بلاول بھٹو زرداری ملک سے باہر امریکہ اور دبئی میں مصروف ہیں۔ پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر آصف علی زرداری ڈیڑھ سال طویل غیر ملکی قیام کے بعد دسمبر میں کراچی آئے تھے۔ انہوں نے سندھ کے عوام کو خوش خبری دینے کا اعلان کیا جو ان کی غربت‘ محرومی اور مایوسی مٹانے کا نہیں‘ صرف یہ تھی کہ وہ نوابشاہ سے اور ان کا فرزند ارجمند لاڑکانہ سے قومی اسمبلی کا ضمنی الیکشن لڑ کر قومی اسمبلی میں پہنچیں گے۔یہاں ان سے غلطی یہ ہوگئی کہ پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کو فارغ کرکے ”برخوردار“ مشتاق مہر کو ایڈیشنل چارج دے دیا گیا۔ یہ گویا طاقت کا مظاہرہ تھا جسے اسٹیبلشمنٹ نے قبول نہیں کیا اور اس پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ آصف علی زرداری نے سختی دیکھی تو صاحبزادے سمیت پاکستان چھوڑ گئے۔ وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کو بھی دبئی بلاکر شرف ملاقات بخشا‘ ہدایات دیں اور اب دبئی سے ہی پارٹی اور صوبہ چلارہے ہیں۔ دوسری طرف کراچی‘ حیدرآباد اور سندھ کے شہری علاقوں میں مینڈیٹ کی حامل متحدہ قومی موومنٹ چار ٹکڑوں میں تقسیم ہونے کے بعد تحلیل اور تدوین کے عمل سے گزر رہی ہے۔ کراچی کے میئر وسیم اختر کا ایم کیو ایم سے تعلق ہے لیکن وہ اختیارات سے محروم ہیں۔ اصل متحدہ قومی موومنٹ لندن میں ہے جس کے قائد الطاف حسین ہیں۔ وہ بھی اسٹیبلشمنٹ کے سخت دباو¿ کا شکار ہیں ان کی 22اگست 2016ءکو کراچی کلب کے باہر دھرنے کے شرکاءسے تقریر نے اسٹیبلشمنٹ کو مشتعل کیا ہے۔ وہ لندن سے مسلسل ویڈیو‘ آڈیو پیغامات کے ذریعے یہ یقین دلانے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ محب وطن ہیں۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنے حالیہ ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ انہوں نے پاکستان کے لیے جنگ لڑی ہے۔ وہ فوج میں شامل تھے 1971ءکی پاک بھارت جنگ کے دوران بلوچستان میں تعینات تھے‘ جہاں دسمبر کی سخت سردی میں خندقیں کھودیں‘ پسنی کے ساحل کی حفاظت کی اور وطن کے دفاع کی جنگ لڑی۔ انہوں نے آرمی چیف جنرل باجوہ کو مخاطب کرتے ہوئے درخواست کی ہے کہ ان کے معاملے کا جائزہ لیا جائے‘ ان کی پارٹی کو کام کرنے کی اجازت دی جائے اور پابندیاں ہٹا کر گرفتار کارکنان کو رہا کیا جائے‘ لیکن اسٹیبلشمنٹ 22اگست کی تقریر کی تلخی بھلانے کے لیے تیار نہیں ہے، گوکہ اس سے قبل وزیر اعظم نواز شریف‘ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان‘ وزیر دفاع خواجہ آصف‘ وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق‘ بلوچستان کے لیڈر محمود خان اچکزئی کے فوج کے بارے میںخیالات زیادہ پرانی بات نہیں ہے‘ پنجاب کے ایک لیڈر غلام مصطفیٰ کھر نے جنرل ضیاءالحق مرحوم کے دور میں جلا وطنی کے دوران کہا تھا کہ وہ جب چاہیں گے بھارتی ٹینکوں پر بیٹھ کر پاکستان آجائیں گے۔ آج یہ سارے سیاستدان اپنے ناموں سے پاکستان میں سیاست کررہے ہیں۔ ملکوں کے دفاع میں میں افواج کا اہم کردار ہوتا ہے۔ جنرل ڈیگال کے دور میں فرانس کے ایک حلقے نے فوج کا جنرل ہونے کے باعث ان کی صدارت پر اعتراض کیا تو انہوں نے یہ تاریخی جملہ کہا تھا کہ” آپ کے ملک میں ہر دم ایک فوج ہوگی، اگر آپ کی نہیں تو دشمن کی ہوگی“۔ لہٰذا بہتر یہ ہے کہ اپنی ہی فوج ہو۔ اسی طرح سیاست‘ داخلی اور خارجہ امور میں بھی اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایران میں انقلاب کے وقت اگر فوج کا ایک حصہ علامہ آیت اللہ خمینی کی حمایت نہ کرتا تو انقلاب آنا مشکل تھا۔ اس طرح چینی شہنشاہ کا ایک جرنل ماو¿زے تنگ کا ساتھ نہ دیتا تو چینی انقلاب کو کامیابی کا راستہ نہ ملتا۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔ 1876ءمیں انگریز اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے مسٹر ہیوم نے کانگریس پارٹی بنوائی تھی۔ پھر اسی شخص نے 1906ءمیں مسلمانوں کی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد ڈالی جس کا تاسیسی اجلاس ڈھاکا میں نواب سلیم اللہ خان کی زیر صدارت ہوا تھا۔ بعد ازاںجب آزادی کی تحریک چلی تو مولانا عطاءاللہ شاہ بخاری‘ علامہ مشرقی اور مولانا ابو الکلام آزاد اس تحریک کے بڑے نام تھے۔ یہ تینوں رہنما اسلام پر کاربند‘ صوم و صلوٰة کے پابند اور سکہ بند علماءتھے لیکن برصغیر کے مسلمانوں نے کامیابی کا تاج قائد اعظم محمد علی جناح کے سر پر رکھ دیا جن کے داڑھی بھی نہیں تھی۔ اس میں کچھ ہاتھ سلطنت انگلشیہ کے روپ میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کا بھی تھا۔ ان مثالوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو کتنا ہی غیر سیاسی کہا جائے‘ اس کا کسی نہ کسی طرح سے تعلق سیاست سے ضرور ہوتا ہے۔ اس کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ سیاسی پالیسیاں ملک کے استحکام اور سلامتی پر اثر انداز ہوتی ہیں، لہٰذا ان امور کی انجام دہی پر فائز ادارے سیاست یا سیاسی پالیسیوں سے کیونکر دور رہ سکتے ہیں۔ یہ وہ نکتہ ہے جس پر سیاستدانوں میڈیا اور پالیسی سازوں کو ضرور غور کرنا چاہیے۔ اس سے انتشار اور لڑائی کی کیفیت سے نجات ملے گی اور ملکی استحکام و ترقی کو فروغ حاصل ہوگا۔ اس وقت اسٹیبلشمنٹ کا سارا دباو¿ حکومت‘ بعض سیاسی جماعتوں اور ایک میڈیا گروپ پر نظر آتا ہے۔ ایک عجیب سی کشمکش اور کھنچاو¿ کی کیفیت نمایاں ہے۔ اعدادو شمار کے غیر ملکی اور غیر سرکاری اداروں کی موج ہورہی ہے جنہیں بھاری رقومات اور فیس دے کر من پسند تجزیے اور اشاریے حاصل کیے جارہے ہیں لیکن عوام کی حالت پتلی ہورہی ہے۔ سندھ کے عوام کو ٹر
ک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔ ان سے کہا جارہا ہے کہ پنجاب تو خوب ترقی کر رہا ہے‘ سارا فنڈ پنجاب پر خرچ ہورہا ہے لیکن سندھ تباہ ہورہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سندھ میں مجموعی طور پر 20سال پیپلز پارٹی کی حکومت رہی ہے۔ اب بھی گزشتہ 8سال سے پی پی پی بر سر اقتدار ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ سندھ نے ترقی نہیں کی۔ ذوالفقار علی بھٹو‘ بے نظیر بھٹو‘ آصف علی زرداری‘ غلام مصطفیٰ خان جتوئی‘ محمد خان جونیجو سب سندھی صدر اور وزرائے اعظم تھے۔ صوبے میں ہمیشہ اندرون سندھ سے سندھی وزیر اعلیٰ برسر اقتدار رہا ہے۔ پھر سندھ کے قصبے‘ دیہات اور شہر کیوں کھنڈر اور کچرے کے ڈھیر بنے ہوئے ہیں‘ بدترین بد انتظامی‘ کرپشن‘ لوٹ مار اور جرائم کی بہتات کیوں ہے؟ جہالت اور ناخواندگی کی شرح کیوں بلند ہے؟ ان خرابیوں اور تباہی و بربادی کا ذمہ دار پنجاب یا اسٹیبلشمنٹ کو کیوں قرار دیا جائے۔ کراچی اور حیدرآباد پر راج کرنے والی ایم کیو ایم انتشار کا شکار کیوں ہے؟ 1985ءمیں سر سید گرلز کالج کی طالبہ بشریٰ زیدی ٹریفک حادثہ میں جاں بحق ہوئی تو پورے کراچی میں احتجاجی تحریک چل پڑی تھی جس نے ایم کیو ایم کو طاقت اور توانائی فراہم کی۔ آج 6طالبات ٹریفک حادثہ کا شکار ہوئیں تو کوئی تحریک نہیں ہے۔ چینی انقلاب کے عظیم قائد ماو¿زے تنگ نے اپنی ایک کتاب میں تنقید اور خود تنقیدی کے عمل کو پارٹی اور تحریکوں کی جان قرار دیا تھا۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو یہ نکتہ ضرور مد نظر رکھنا چاہیے۔ سیاست ہویا صحافت‘ تجارت ہویا صنعت وزراعت‘ کبھی کوئی خلاءدائمی نہیں رہتا۔ بقول شاعر
ہم روحِ سفر ہیں‘ ہمیں ناموں سے نہ پہچان
کل اور کسی نام سے آجائیں گے ہم لوگ
ذوالفقار علی بھٹو نے صدر ایوب خان کی پشت پناہی اور ہدایت پر کنونشن مسلم لیگ بنائی‘ اس کے سیکریٹری جنرل رہے۔ پھر پاکستان پیپلز پارٹی بنائی جو ساری جماعتوں پر بازی لے گئی اور کنونشن مسلم لیگ تاریخ کے صفحات پر باقی رہ گئی۔ خالی برتن بھی ہوا سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ ایک پارٹی جاتی ہے تو دوسری آکر اس خلاءکو بھر دیتی ہے۔ کئی جماعتیں کراچی حیدرآباد کا سیاسی خلاءبھرنے کی کوشش کررہی ہیں‘ ان میں تحریک انصاف‘ پیپلز پارٹی‘ پاک سرزمین پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان سر فہرست ہیں۔ پی ایس پی حیدرآباد اور کراچی میں بڑے جلسے کرکے اپنے وجود کا پتہ دے چکی ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت میں ایم کیو ایم پاکستان حیدرآباد کے پکا قلعہ گراو¿نڈ میں جلسہ¿ عام کی تیاری کررہی ہے ۔ دنیا بھر کے انقلاب اسٹیبلشمنٹ کے ایک حصے یا مجموعی حمایت سے ہی پایہ¿ تکمیل کو پہنچے ہیں۔ اقتدار سے محرومی کے بعد نامور سپہ سالار نپولین کو قلعہ میں قید کردیا گیا تھا۔ جہاں سے وہ فرار ہوا اور فوجیوں کی مدد سے ہی دوبارہ اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کا ٹکراو¿ ہمیشہ منفی نتائج مرتب کرتا ہے۔ تصادم کی صورت میں خون خرابہ ہوتا ہے اور بنگلہ دیش بنتا ہے جس کے پاکستان میں دور دور تک آثار نہیں ہیں۔ یہاں”پاکستان پرست“ سب سے بڑا صوبہ پنجاب ہے جس کی آبادی دیگر تینوں صوبوں کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ ہے۔
٭٭٭