بھارتی آرمی چیف کے غیر پیشہ وارانہ بیانات اپنی داخلی سیاست کیلئے ہیں ،شاہ محمود قریشی
شیئر کریں
وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ بھارتی آرمی چیف غیر پیشہ وارانہ بیانات دے رہے ہیں۔ اس پر تعجب ہوتا ہے اور لگتا یہ ہے کہ اپنی داخلی سیاست کے لئے ایسا کیا جارہا ہے جبکہ ایک پیشہ وارانہ سپاہی کو سیاست سے اجتناب کرنا چاہیئے ۔ ہمارا ایجنڈا بڑا واضح ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ خطہ میں کوئی نئی لڑائی اور کوئی نئی جنگ چھڑ جائے ، پاکستان سمجھتا ہے کہ یہ خطہ مزید کسی لڑائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس خطہ میں بے پناہ جھگڑے ابھی جاری ہیں اور بے پناہ مسائل حل طلب ہیں اس میں نئی کشیدگی کی گنجائش نہیں ہے ۔ پاکستان اپنی کوشش کر سکتا ہے کہ کیونکہ پاکستان سمجھتا ہے کہ اگر کشیدگی بڑھتی ہے تو اس کے اثرات نہ صرف خطہ پر پڑتے ہیں بلکہ پاکستان بھی اس کی لپیٹ میں آسکتا ہے اور اس کا اثر پوری دنیا پر ہو سکتا ہے ۔ ہمارا ہر سطح پر امریکہ سے رابطہ رہتا ہے اور جب آپریشنل نوعیت کی گفتگو درکارہوتی ہے تو ہماری فوجی قیادت سے بات کرتے ہیں اور جب سیاسی نوعیت کی بات ہوتی ہے تو پھر وہ پاکستان کی سیاسی قیادت سے بات کرتے ہیں۔ان خیالات کا اظہار شاہ محمود قریشی نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔ان کا کہنا تھا کہ میری رائے میں ایک پیشہ وارانہ سپاہی کے لئے جو کہ بھارتی فوج کے سربراہ ہیں وہ دوسری مرتبہ ایک بڑے غیر پیشہ وارانہ طریقہ سے گفتگو کر رہے ہیں ۔ ایک منجھا ہوا آرمی چیف جو خود بھارتی فوج میں اتنا عرصہ ملازمت کر چکا ہو وہ ایسی گفتگوکرے ، میں سمجھتا ہوں کہ ایک خطہ کا سیاستدان بھی اس سے زیادہ ذمہ دارانہ گفتگوکرتا ہے اس پر تعجب ہوتا ہے اور لگتا یہ ہے کہ اپنی داخلی سیاست کے لئے ایسا کیا جارہا ہے جبکہ ایک پیشہ وارانہ سپاہی کو سیاست سے اجتناب کرنا چاہیے ۔ ان کا کہنا تھا کہ عین ممکن ہے اور کوئی بعید نہیں ہے بھارت کوئی نہ کوئی مس ایڈوینچر کرسکتا ہے ۔ بھارت کے داخلی حالات بہت پیچیدہ ہو چکے ہیں اور احتجاج کی کیفیت نے پورے بھارت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔میڈیا نے دیکھا لکھنو میں جو کچھ ہوا ، نہرویونیورسٹی دلی میں جو کچھ ہوا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جو کچھ ہوا اور طلباء کا احتجاج میڈیا دیکھ رہا اور ان کی ٹریڈ یونینز کا احتجاج سب کے سامنے ہے ، اپوزیشن جماعتوں کا احتجاج میڈیا دیکھ رہا ہے ۔بھارت نے ایک ناٹک رچانے کی کوشش کی اور کچھ سفیروں کو وہ کشمیر لے گئے جس پر یورپین یونین کا بیان بڑا واضح ہے کہ ہم کسی گائیڈڈ ٹور پر نہیں جانا چاہتے اگر آپ ہمیں لے جانا چاہتے ہیں تو پھر آپ ہمیں آزادی دیں کہ ہم لوگوں سے مل سکیں اور جو سیاسی قیادت نظربند ہے اور قید میں ہے ہم ان سے مل سکیں اور جو ہزاروں کی تعداد میں کارکن آپ نے بند کر رکھے ہیں ان سے تبادلہ خیال کر سکیں اور عام شہریوں سے مل سکیں تب ہمیں اندازہ ہو گا کی حقیقت کیا ہے ۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہمارا ایجنڈا بڑا واضح ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ خطہ میں کوئی نئی لڑائی اور کوئی نئی جنگ چھڑ جائے ، پاکستان سمجھتا ہے کہ یہ خطہ مزید کسی لڑائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس خطہ میں بے پناہ جھگڑے ابھی جاری ہیں اور بے پناہ مسائل حل طلب ہیں اس میں نئی کشیدگی کی گنجائش نہیں ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنی کوشش کر سکتا ہے کہ کیونکہ پاکستان سمجھتا ہے کہ اگر کشیدگی بڑھتی ہے تو اس کے اثرات نہ صرف خطہ پر پڑتے ہیں بلکہ پاکستان بھی اس کی لپیٹ میں آسکتا ہے اور اس کا اثر پوری دنیا پر ہو سکتا ہے ۔ تیل کی قیمتیں اگر چڑھتی ہیں تو اس کے اثرات کا میڈیا کو پتہ ہے ۔ ہم اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں کہ آپ گفت وشنید اور سفارتی ذرائع کو استعمال کر کے معاملات کو ٹھنڈا کریں ۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے ہفتہ کے روز ترک وزیر خارجہ کا ٹیلی فون آیا تھا اور اس میںجہاں انہوں نے کوئٹہ واقعہ کی مذمت کی اور شہداء کے لواحقین سے تعزیت کی ، وہاں انہوں نے اپنے دورہ عراق سے بھی آگاہ کیا اور عراق کی صورتحال سے مجھے باخبر کیا اور میں نے عراق کے وزیر خارجہ سے جمعہ کے روز قبل ہونے والی گفتگو پر اعتما د میں لیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں اتوار سے ایران، سعودی عرب اور امریکہ کے دورے پر جا رہا ہوں اور میرے یہ مقاصد ہیں اور انہوں نے مجھے اپنی مکمل حمائت کا یقین دلایا۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہمارا ہر سطح پر امریکہ سے رابطہ رہتا ہے اور جب آپریشنل نوعیت کی گفتگو درکارہوتی ہے تو ہماری فوجی قیادت سے بات کرتے ہیں اور جب سیاسی نوعیت کی بات ہوتی ہے تو پھر وہ پاکستان کی سیاسی قیادت سے بات کرتے ہیں۔ میری امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیوسے واشنگٹن میں ملاقات طے ہے اور اس پر ہماری گفت وشنید چل رہی تھی تو شاہد انہوں نے مناسب سمجھا ہو کہ میں واشنگٹن آرہا ہوں تو مجھ سے وہیں پر بات کریں گے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ماضی کے تجربوں سے کچھ سیکھا ہے اور ہم نے دیکھا ہے کہ جب ہم نے اپنے آپ کو ایک جنگ میں جھونکا تو اس کی پاکستان نے کتنی بڑی جانی اور مالی قیمت ادا کی اور ابھی بھی کر رہا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی بھی افغانستان کا مسئلہ حل طلب ہے اور ہماری کاوش اور کوشش ہے کہ وہاں امن اور مفاہمت کا پراسیس اپنے منطقی انجام کو پہنچے ۔ انہیں خطرات کو سامنے رکھتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے مجھے کہا ہے کہ ایران، سعودی عرب اور امریکہ جو بہت اہمیت رکھتے ہیں ان کا دورہ کروں اور کوشش کروں کہ جنگ کے جو بادل ہمارے سر پر منڈلارہے ہیں وہ ٹل جائیں۔