میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
تین طلاق کے بعد اب حج

تین طلاق کے بعد اب حج

منتظم
هفته, ۱۳ جنوری ۲۰۱۸

شیئر کریں

ابھی (آخری قسط)
تین طلاق کی آگ نہیں بجھی تھی کہ ’’من کی بات ‘‘کے پروگرام میں بولتے ہو ئے نریندر مودی نے ایک نیا شوشہ چھوڑا کہ ’’مسلمان خواتین کو بغیر محرم حج پر جانے کی اجازت نا ہونا ’’ناانصافی‘‘ہے۔نریندرمودی نے کہا ہے کہ انکی حکومت نے یہ ’’امتیازی بندش‘‘ہٹادی ہے۔مودی کا کہنا تھا کہ اس حکومتی اقدام کے بعد سینکڑوں خواتین نے محرم کے بغیر حج پر جانے کی درخواست دیدی ہے۔ مشہور اردو پورٹل ’’تفصیلات ڈاٹ کام ‘‘کے مطابق نریندر مودی نے اپنے ماہانہ ریڈیو پروگرام ’’من کی بات‘‘کے تازہ شمارے میں کہاکہ اس بندش کو ہٹایا جانا ایک ’’چھوٹا قدم‘‘دکھائی دے سکتا ہے لیکن’’ہماری سماجی شبیہ پر اسکے دور رس اثرات مرتب ہوں گے‘‘۔مودی نے کہا کہ جب انہوں نے پہلی بار اس ’’بندش‘‘کے بارے میں سْنا ،وہ حیران ہوگئے کہ ’’آخر اس طرح کا قانون کس نے تیار کیا ہوگا‘‘اور جب میں معاملے کی گہرائی میں گیا یہ جان کر حیران ہوگیا کہ آزادی کے ستر سال بعد بھی ہم اس طرح کی بندشیں عائد کیے ہوئے ہیں۔دہائیوں تک مسلمان خواتین کے ساتھ ناانصافی ہوتی رہی ہے لیکن اس پر کبھی کوئی بحث نہیں ہوئی‘‘۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ کئی ’’اسلامی ممالک‘‘میں اس طرح کی ’’بندشیں‘‘عائد نہیں ہیں۔وزیر اعظم مودی نے مزید کہا’’میں خوش ہوں کہ اس بار قریب 1300مسلمان خواتین نے بغیر محرم کے حج پر جانے کی درخواست دی ہوئی ہے اور کیرالا سے شمالی بھارت تک ملک کے مختلف حصوں سے خواتین نے حج پر جانے کی خواہش ظاہر کی ہے‘‘۔مودی نے انکشاف کیا کہ اس نے اقلیتی امور کی وزارت کو تجویز دی ہے کہ ان سبھی خواتین کو حج پر بھیجا جانا چاہیے جو بغیر محرم کے سفر کرنا چاہتی ہوں۔انہوں نے کہا’’عمومی طور عازمین حج کا انتخاب قرعہ اندازی سے کیا جاتا ہے لیکن میں چاہوں گا کہ اکیلی خواتین کو قرعہ اندازی سے الگ رکھا جائے اور انہیں خصوصی طور جانے کا موقعہ دیا جانا چاہیے‘‘۔اقلیتی امور کی مرکزی وزارت کے مطابق نئے قوانین کے تحت 45سال سے زیادہ عمر والی خواتین کم از کم چار نفری گروپ میں بغیر محرم کے حج پر جانا چاہیں تو انہیں اجازت ہوگی۔

تفصیلات کے مطابق سہ طلاق کے معاملے میں سپریم کورٹ کی مداخلت اور پھر اسے(سہ طلاق کو)قابلِ سزا جْرم قرار دینے کے لیے پارلیمنٹ میں قانون بنائے جانے کے دو ایک دن بعد ہی یہ بات سامنے آئی ہے البتہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ بھارت سرکار نے اس حوالے سے سعودی حکومت کو آگاہ کیا ہے یا نہیں اور اگر کیا ہے تو سعودی حکومت کا اس بارے میں کیا ردِعمل رہا ہے۔بھارت سرکار نے حج پالیسی میں کئی تبدیلیوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب سے خواتین عازمین بغیر محرم کے بھی سفرِ محمود پر جاسکتی ہیں۔ تاہم بغیر محرم کے حج کو جانے والی خواتین کو انفرادی طور نہیں بلکہ گروہوں میں حج کو جانا ہوگا۔ حج 2018 ء کا اعلان کرتے ہوئے مرکزی سرکار میں اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی نے پالیسی میں کی گئی کئی تبدیلیوں کے بارے میں بتایاکہ اس مرتبہ 2روانگی مقامات کو برقرار رکھتے ہوئے عازمین حج کو سفر کے لیے متبادل بھی دیاگیا ہے اور اپنے مسلک کے تحت محرم کے بغیر خواتین کو سفر حج کی سفارش کو نافذکیا جارہاہے۔ ممبئی حج ہاوس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مختار عباس نقوی نے کہاکہ ممبئی ،دہلی، کولکتہ ،احمد آباد،بنگلور،چنئی اور حیدرآباد کے علاوہ سری نگر کے لیے نئی دہلی ،گوہاٹی کے بدلے کولکتہ ،ناگپور، اورنگ آباد، بھوپال اور اندور کے متبادل کے طورپرممبئی کو رکھا گیا ہے جبکہ بنارس کے عاز مین حج لکھنؤ سے بھی جاسکتے ہیں۔مرکزی وزیر حج نے کہا کہ نئی حج پالیسی کے تحت70سال کی عمر کے شہری، جو حج کرنا چاہتے ہوں کے لیے مخصوص کوٹا رکھا گیا ہے۔اسکے علاوہ 45سال سے زیادہ عمر کی خواتین کو 4یا اس سے زیادہ تعداد کے خواتین گروپ میں شامل کرکے سفر محمود پر روانہ ہونے کی اجازت ہوگی۔انہوں نے کہا ’’ ہم محرم مرد کے بغیر خواتین کے گروپ کو حج کرنے کی اجازت دیں گے‘‘۔ رابطہ عالم اسلامی کے سابق ممبر اوربزرگ حریت پسند راہنما سید علی شاہ گیلانی نے بھارتی پارلیمنٹ کی طرف سے سہ طلاق کو قابلِ سزا جْرم قراردئے جانے کے بعد بغیر مرد محرم کے خواتین کو حج پر جانے کی اجازت دئے جانے کے مودی سرکار کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔انہوں نے کہا ہے ’’ بھارت کی طرف سیبھارت سرکار کی تازہ قانون سازی پر ردِ عمل ظاہر کرنے کے لیے جاری کردہ ایک بیان میںسید گیلانی نے کہاہے’’ دراصل بھارت کی موجودہ فرقہ پرست حکومت بھارت کو بڑی برق رفتاری کے ساتھ ایک ہندو راشٹریہ بنائے جانے کی راہ پر گامزن ہوچکا ہے اور اس ضمن میں وہ سب سے پہلے دین اسلام کی بنیادوں کو اکھاڑنے کے درپے ہونا چاہتا ہے، جوکہ قطعی طور پر ناممکن العمل ہے، اس کے بعد دوسری تمام اقلیتوں کو ہندوازم میں ضم کرنے کے خاکوں میں رنگ بھر دینا ایک آسان عمل سمجھتا ہے‘‘۔انہوں نے بھارت کی طرف سے اسلام جیسے آفاقی دین پر نشانہ سادھنے کی دوسری اہم وجہ عالمی سطح کے ساتھ ساتھ خود بھارت میں نوجوان نسل میں دین اسلام کی مقبولیت میں آئے روز بڑھتا ہوا رحجان ہے جس نے بھارت کی موجودہ حکومت میں شامل فرقہ پرست جماعتوں آر ایس ایس، شیو سینا اور بی جے پی کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ رابطہ عالم اسلامی کے ممبر رہ چکے راہنما نے اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی (OIC)کے معزز ارکان ممالک سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ’’ بھارت جیسی اسلام دشمن قوتوں‘‘ کی طرف سے اسلام کے حیات بخش قوانین میں ردوبدل کرنے کی کارروائیوں کا سنجیدہ نوٹس لیتے ہوئے دین مبین کے خلاف ہورہی گھناؤنی سازشوں کو طشت ازبام کرنے کا فریضہ انجام دیں۔انہوں نے عالم اسلام کے جید علمائے کرام اور مجتہدین سے بھی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ بعض فقہی مسائل میں فروعی اختلافات کے حوالے سے ایک جامع فیصلہ ساز ادارے کا قیام عمل میں لاکر متعصب غیر مسلم اسلام دشمنوں کے لیے اْن تمام کمزور دروازوں کو بند کرنے کا منظم آغاز کردیا جائے جہاں سے ایسے دین دشمن عناصر داخل ہونا آسان سمجھتے ہیں۔سید گیلانی نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ دین اسلام کے مستند الٰہی قوانین کے خلاف ایک فرقہ پرست حکومت ردّ وبدل کرنے کا بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اعلان کرتی ہے اور عالم اسلام کے مفکرین خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ حریت رہنما نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی قوانین میں ردّوبدل کے کا حق نہ تو منجملہ دنیا بھر کے لوگوں کا ہے اور نہ ہی اقوامِ عالم کی سبھی حکومتوں کو ہے، دنیا میں اگر صرف ایک ہی مسلمان موجود ہو اْس کے لیے قرآن اور سنت کا اتباع فرض عین ہے اگرچہ پوری دنیا اس کی مخالف بھی ہو۔

حیرت کا مقام یہی ہے کہ ابھی تک مسلمانان ہند طلاق جیسے خالص شرعی مسئلہ پر کی گئی غیر اسلامی ،غیر فطری اور غیر انسانی قانون سازی کا زخم سہہ نہیں پائے تھے کہ اسے بھی خطرناک کھیل کھیلنے کا پروگرام تشکیل دیکر مسلمانوں میں حرام اختلاطِ مردوزن کے تصور کو مٹانے کے لیے اس کا آغاز حج جیسی خالص عبادت سے کرنے کا فیصلہ لیا گیا ہے ۔مودی حکومت اگر چہ ان اسلام دشمن افعال سے مکمل طور پر ننگا ہو چکی ہے مگر اس کھیل کا یہ آغاز آنے والے طوفان کا پتہ دیتی ہے ۔ان کے عزائم میں جہاں مساجد و مدارس کی مسماری اورانفرادی طور پر چند ایک مسلمانوں کو بہیمانہ انداز میں قتل کر کے اس کو فلماکر مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کے بعد ’’گجرات طرز پر قتل عام‘‘کے ذریعے انھیں روہینگیائی مسلمانوں کی طرح اپنے وطن سے ہجرت کرنے پر مجبور کرنا ہے ۔نریندر مودی اس لحاظ سے باتونی وزیر اعظم ثابت ہو چکا ہے کہ یہ شخص نا ہی اپنے وعدے کے مطابق اچھے دن لانے میں کامیاب ہو چکا ہے اور ہی بلیک منی واپس لانے کے لیے کچھ کر پایا ہے ،نا ہی رشوت ستانی سے ملک کو نجات دلا سکا ہے اور نا ہی اچھی گورنینس کے وعدے کا ایفاء کر نے میں کامیاب ہواہے ۔اس کو وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھتے ہی اس بات کا احساس ہو گیا کہ میں نے باتیں بہت بڑی کیں مگر ان پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے لہذا بہتر راستہ یہ ہے کہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو پریشان رکھ کر سنگھ پریوار کو بھی خوش رکھا جائے وہی مسلمان جوان کے آر ایس ایس آئیڈیالوجی کے عین مطابق ’’اصل دشمن ‘‘قرارپا چکے ہیں کے مذہبی معاملات میں مداخلت کر کے نہ صرف انہیں ذہنی کوفت میں مبتلا رکھا جائے بلکہ انہیں ہندوستان میں رہتے ہو ئے اس بات کا احساس دلایا جائے کہ موجودہ ہندوستان مغلوں کا ملک نہیں بلکہ ہندو راشٹر ہے جہاں عزت و احترام صرف ایک قلیل اقلیت برہمنوں کے لیے ہے ۔مسلمانوں کو بھی اس حوالے سے احساس کرنا چاہیے کہ اب یہ آفت بلا تخصیص مسلک و مشرب ان کے لیے تباہی اور بربادی کے سارے سامان جمع کر چکی ہے جس کا مقابلہ صرف اتحاد ہی سے ممکن ہے کسی اور طریقے سے نہیں ۔ اگر مسلمانان ہند نے اب بھی اس طوفان کی شدت کا احساس نہیں کیا تو وہ دن دور نہیں جب شاعر کا یہ شعر ان پر صادق آئے گا ۔
نہ سمجھوگے تو مٹ جاووگے اے ہندوستان والو
تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
(ختم شد)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں