ٹرمپ کی پاکستان مخالف پالیسی خود امریکا کے لیے نقصان دہ
شیئر کریں
شہزاد احمد
پاکستان اور امریکا کے درمیان حالیہ کشیدگی پر کئی ایک امریکی سفارتکار، سابق فوجی اور سی آئی اے کے سابق ذمے داران بھی ٹرمپ کے لتے لینے لگے۔ پاکستان کی بجائے امریکا کو دوغلے کردار اور دھوکہ دینے کا ذمہ دار قرار دے دیا۔ سی آئی اے آفیسر مائیکل شوئیر سے جب پوچھا گیا کہ کچھ امریکی سینیٹرز پاکستان کو اگلا دشمن سمجھتے ہیں ۔ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے تو اس نے کہا کہ سینیٹر گراہم ایک بے وقوف آدمی ہے۔ اس نے کبھی جنگ نہیں دیکھی۔ پاکستان اس وقت امریکا کے ساتھ تعلقات انجوائے نہیں کررہا کیونکہ پاکستان اپنے مفاد کو عزیز رکھ رہا ہے اور ہماری انتظامیہ کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جو ہمارے مفادہیںوہ ان کے نہیں۔ صدر اوبامہ اور برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے افغانستان میں سرنڈر کر دیا تھا۔ انہیں پاکستان نے بچایا مگر ہم نے پاکستان کو دلدل میں دھکیل دیا۔ انہوں نے دھوکہ نہیں دیا صرف اپنے ملک کا مفاد دیکھ رہے ہیں جو ان کا حق ہے۔ ٹرمپ کی پالیسی پاکستان کو نہیں امریکا کو نقصان پہنچائے گی۔
امریکی سی آئی اے کے سابق سربراہ مائیکل موریل نے واضح کیا ہے کہ پاکستان امریکا کا نہیں، ہم اس کے محتاج ہیں۔ امریکا کا پاکستان پر ناجائز دباؤ کا حربہ کارگر نہیں ہو گا البتہ اس دباؤ سے امریکا کو نقصان پہنچ سکتا ہے پاکستان کو نہیں کیونکہ پاکستان امریکی امداد سے آزاد ہو چکا ہے۔ اسے چین جیسے دوست کی امداد حاصل ہے اور امریکا پاکستان کی فضائی اور زمینی راستوں کا محتاج ہے جس کے تعاون کے بغیر یہ جنگ امریکا جیت ہی نہیں سکتا۔ صدر ٹرمپ کی پالیسی واضح ہے نہ ہی انھوں نے کوئی پلان دیا ہے کہ کتنی فوج بھیجی جائے گی اور اس کا کردار کیا ہوگا۔
ورمونٹ سے منتخب سینیٹر برنی سینڈرز نے کہا کہ موجودہ انتخابات کے بعد امریکا کو الیکٹورل ووٹرز کے ذریعے صدارتی انتخابات کے نظریہ پر نظرثانی کرنا ہوگی الیکٹورل ووٹرز کی وجہ سے ایک ایسا شخص امریکی صدر بنا ہے جس نے زیادہ ووٹ حاصل نہیں کیے۔ یہ انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے کیونکہ یہ شخص اکثریت کا انتخاب نہیں ہے۔
وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ امریکا نے ہمیشہ مشکل وقت میں ہمیں دھوکہ دیا۔ پاکستان کا نام واچ لسٹ میں ڈالنے کا مطلب امریکا ہمارے خلاف تمام ہتھیار استعمال کرنا چاہتا ہے۔ امریکا کا کوئی ایسا مطالبہ نہیں جو ہم نے پورا نہیں کیا۔ افغانستان سے متعلق امریکا اپنا موقف بدلتا رہا ہے۔ امریکا افغانستان میں ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہا ہے۔ افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ ہماری نہیں تھی۔ یہ ہمارے اوپر مسلط کی گئی۔
وزیر دفاع خرم دستگیر نے کہا ہے کہ امریکا افغانستان میں ہونے والی طویل جنگ کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہا ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بیش بہا قربانیاں دیں۔ یہ پاکستان ضرب عضب و ردالفساد کے بعد کا پاکستان ہے۔ سب سے پہلے ہمیں حقائق سامنے رکھنے چاہئیں۔ کولیشن سپورٹ فنڈ میں 62فیصد کمی آئی ہے۔ سب سے اہم مقصد افغانستان میں امن کا قیام ہے۔ امریکا افغانستان میں ہونیوالی طویل جنگ کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہا ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا، اوباما دور میں بھی 800ملین روپے روکے گئے تھے۔ آنے والے دنوں میں پتہ چل جائے گا کہ پاکستان نے امریکا سے کتنے روپے وصول کیے۔ تقریباً10ارب ڈالرز امریکا نے ابھی ہمارے دینے ہیں۔
بھارت میں اقلیتوں سے متعلق حالات سب کے سامنے ہیں۔ بھارت میں گائے کا گوشت کھانے پر نیچی ذات والوں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ بھارت میں اذان دینے پر لوگوں کو زندہ جلا دیا جاتا ہے لیکن ایسے ممالک کے نام واچ لسٹ میں نہیں ڈالے جاتے۔ امریکا نے جن قوموں کو وکٹمائز کیا وہ آج بھی زندہ ہیں۔
امریکا نے کبھی بھی پاکستان کا ساتھ نہیں دیا اور ہمیشہ بھارت کی سرپرستی کی۔ امریکی جنگ میں ہمارے ستر ہزار سے زائد لوگ شہید اور 130 ارب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان ہوا۔ اب ہم مزید اس جنگ کا حصہ نہیں رہ سکتے۔ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے پر پہلے ہی عالمی برادری نے امریکا کے خلاف ووٹ دے کر ثابت کردیاہے کہ دنیا امریکا کے غلط اقدامات کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ فلسطین کے حوالے سے پوری دنیا نے امریکی موقف کو مسترد کردیا۔ یہ نیک شگون ہے کہ ٹرمپ کے اعلان کے بعد پوری پاکستانی قوم ایک پیج پر آگئی ہے اور ان اقدامات کے بعد ملک میں قومی یکجہتی اور اتحاد کی فضا پیدا ہوئی ہے۔
امریکا کا کہنا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی میں ملوث حقانی نیٹ ورک کے پاکستان میں ٹھکانے ہیں اور پاکستانی فوج اس کو پناہ فراہم کرتی ہے جبکہ پاکستان کا سرکاری مؤقف ہے کہ آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کے بعد ملک کے ہر علاقے میں ہر قسم کے دہشت گرد گروہ کے خلاف یکساں قوت سے کارروائی کی گئی ہے۔ امریکا نہ صرف پاکستان کی اس کامیابی کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے بلکہ وہ بھارت کو افغانستان میں پاؤں جمانے اور پاکستان کے خلاف مصروف عمل گروہوں کو مضبوط کرنے کا سبب بھی بن رہا ہے۔ پاکستان اب یہ مطالبہ کررہا ہے کہ پاکستان سے ’ڈو مور ‘ کا مطالبہ کرنے کی بجائے اب پاکستان کے لیے ’ڈو مور‘ کیا جائے۔ یعنی افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف سرگرم عمل گروہوں کے ٹھکانے تباہ کیے جائیں، ان کی قیادت کو ختم کیا جائے یا گرفتار کرکے پاکستان کے حوالے کیا جائے۔ امریکا اس حوالے سے پاکستان کے مؤقف کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتا ہے۔ جبکہ اپنی اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کی پشت پناہی کررہا ہے اور افغان طالبان کی قیادت کو اپنی سرزمین پر سہولتیں اور تحفظ فراہم کررہا ہے۔ پاکستان کی پوزیشن بظاہر مستحکم اور واضح ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ امریکا اسے تسلیم نہیں کرتا اور پاکستان باقی ماندہ دنیا کے سامنے اپنی ’مظلومیت ‘ کو واضح کرنے یا ثابت کرنے میں بھی ناکام ہے۔ اس کی گوناں گوں وجوہ ہو سکتی ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکا دنیا کی سپر پاور ہے۔ کوئی بھی ملک پاکستان کے مقابلے میں امریکا کی بات کو زیادہ توجہ سے سنے گا۔ امریکی مؤقف کو زیادہ قابل اعتبار بنانے کے لیے افغانستان اور بھارت اپنے اپنے طور پر پاکستان پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کے الزامات عائد کرتے رہتے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کا مؤقف اگر درست بھی ہے تو بھی وہ دنیا کے لیے ناقابل قبول ہے۔ اسی لیے امریکی صدر کا کوئی بھی پیغام یا وارننگ پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کا سبب بنتی ہے۔
امریکا سے فوری طور پر لاتعلقی کا اعلان کیا جائے۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ وسائل سے نوازا ہے۔ ہمیں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی نہیں۔ خود انحصاری اور اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی ضرورت ہے۔ امریکا سے دوستی کی پینگیں بڑھانے اور امریکی غلامی کا سبق پڑھانے والوں نے ملک و قوم کی عزت و وقار کو نیلام کیا۔ امریکا چاہتا ہے کہ افغانستا ن میں اس کی شکست کو ہم فتح میں تبدیل کردیں۔
امریکا نے ہمیشہ پاکستان کو قربانی کا بکرا بنایا اور پاکستان پر جب بھی وقت پڑا، امریکا نے ہمیں دھوکہ دیا۔ 65 اور 71ء کی پاک بھارت جنگوں میں امریکا نے پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا اور اب افغانستان میں اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہا ہے۔ امریکا نے پاکستان کے خلاف جن اقدامات کا اعلان کیا ہے، اس کا نقصان خود امریکا کو ہوگا۔