نئے گورنر سے خیر کی امیدیں
شیئر کریں
محمد اشرف قریشی
جناب عزت مآب جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی صوبہ سندھ کے گورنر نامزد ہونے پر انہیں مبارک باد دیتے ہیں اور ڈاکٹر عشرت العباد کے رخصت ہونے پر خدا حافظ کہتے ہیں ۔یہ تو دستور زمانہ ہے کہ ہر آنے والے کو خوش آمدید اور جانے والے کو اللہ نگہبان یعنی خدا حافظ کہا جاتا ہے۔ اور سچ یہ ہے کہ یہ سب کچھ اب رسم دنیا ہوچکی ہے اور انسان کا فقط کردار ہوتا ہے جو دوسروں کی نظروں سے اُتر کر دلوں میں وہ مقام حاصل کرلیتا ہے کہ عوام ان کی درازی عمر اور صحت و تندرستی کیلیے دعا بھی کرتا ہے۔
یہ پاکستان کا صوبہ سندھ وہ ہے جس کے بے شمار اعزازات ہیں اور بالخصوص کراچی کو شہر قائد، ملک کی اقتصادی ترقی اور علم و حکمت کے ساتھ اس کو منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے اور بین الاقوامی شہر بھی لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ بالعموم سندھ اور بالخصوص کراچی میں وہ سیاست پروان چڑھی جس میں کوئی اصول اور کلیے قاعدے نہیں تھے، سیاست بھی جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کے مترادف چلتی اور پھلتی پھولتی رہی، یہاں تک کہ ایسے بھی لوگ منظر سیاست پر نمودار ہوئے جو کبھی سوال کرتے رہے کہ یہ سیاست کس چڑیا یا آفت کا نام ہے اور یہی وہ لوگ ہیں کہ جب سیاست کے پرائمری اسکول سے ترقی پاس ہوئے تو وہ سیاسی پی ایچ ڈی کے استاد بھی بن بیٹھے، عوام کے حاکم بنتے رہے اور سیاست کے وہ کرتب اور طرفے تماشے دکھائے کہ عوام ان کی محکوم ہوتی ہے اور یہ طرح طرح کے حکمران بن کر عوام کو یہ درس دیتے رہے کہ وہ ہی مقدر کے سکندر ہیں اور ان کا کہا ہوا ہر جملہ اور کیا ہوا ہر فیصلہ کسی نظر ثانی کا محتاج نہیں۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جناب سعید الزماں عدالتی دنیا میں رہے، قانون اور لاقانونیت کو جتنا وہ سمجھتے ہوں گے اتنا کوئی دوسرا نہیں اور عدل و انصاف کے تقاضوں کی گہرائی اور تہہ کا ان کو علم ہے اتنا کسی اور کی رسائی نہیں ہے۔ اس لیے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ دیگر صوبوں کی نسبت انہوں نے صوبہ سندھ کو وہ آئین اور قانون کو جلا بخشی ہے جو رہتی دنیا تک بحال رہے گی، اور ہم یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے کہ منصف کبھی ریٹائر نہیں ہوتا ، وہ ہمیشہ جج، منصف اور جسٹس ہی رہتا ہے ۔اگر سعید الزماں صدیقی گورنر کے منصب جلیلہ پر فائز ہوئے ہیں تو انہوں نے اپنا آئینی اور قانونی کردار ریٹائرمنٹ کے تصور میں کمزور نہیں کرنا ہے۔ چونکہ وقت کا مورخ حالات کے خدوخال کی تاریخ رقم کررہا ہوتا ہے اور وہ تاریخ میں کردار آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ کررہا ہوتا ہے، اس لیے وہ خوش نصیب اور خوش بخت لوگ ہوتے ہیں جو انسانی فلاح اور قومی بقا کے لیے اپنا اعلیٰ کردار ادا کرتے ہیں، ہم اپنے نو منتخب گورنر سے قوی امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں کہ وہ صوبہ سندھ کو لاقانونیت کی زنجیروں سے آزاد کریں گے اور عوام کو امن، ترقی اور خوشحالی کی نئی زندگی سے ہمکنار کریں گے اور وہ اپنے مستقبل کی ایسی تاریخ رقم کریں گے کہ عوام ان کے لیے دعائیں کرتے رہیں، ہمارے شہر میں قانون اور آئین کی شکستہ دیواریں ہیں اور اگر گورنر صاحب نے اپنے ٹھوس کردار و عمل سے ان آئینی اور قانونی دیواروں کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنایا تو عوام یہ محسوس کرے گی جس کو علامہ اقبال نے اس طرح پیش کردیا کہ
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
ہمیں حکومتوں کی طویل مدت کی خواہش نہیں اور نہ ہی ضرورت ہے جس کے کردار میں خوشبو ہے نہ مہک ۔ہم نئے گورنر صاحب کو صرف نامزد یا منتخب ہونے پر صرف خوش آمدید اور مبارک دینے پر ہی خوش نہیں بلکہ صوبے کی آئینی حیثیت اور قانون کے پرچم لہرانے پر محبت، عقیدت اور مسکراہٹوں کے ساتھ اظہار تشکر کے پھول نچھاور کریں گے اس کے لیے طویل عرصہ یا مدت کی نہیں بلکہ اختصار اور قلیل مدت میں جو کارنامہ سر انجام دینے ہیں وہ دے ہی دیتے ہیں۔