ایک وراثت یہ بھی ہے
شیئر کریں
مفتی محمد وقاص رفیع
رحمت دین سیدھے سادے دین دار آدمی تھے ۔ گاو¿ں کی معمولی آمدنی پر گزارہ کرلیتے ۔ 60 سال کی عمر میں وہ 4 بچے چھوڑ کر مرے تو ان کے لیے انہوں نے کوئی قابل ذکر جائیداد نہیں چھوڑی تھی ۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے بڑے صاحب زادے حشمت دین شہر چلے آئے تاکہ اپنے لیے کمائی کی کوئی صورت کرسکیں ۔ چنانچہ شہر میں انہوں نے مختصر سرمایہ کے ساتھ ایک کاروبار شروع کردیا۔
حشمت دین کے والد نے ان کے لیے کوئی وراثت نہیں چھوڑی تھی ۔ مگر قناعت اور سادگی اور کسی سے لڑے بھڑے بغیر اپنا کام کرنے کی وراثت چھوڑرکھی تھی ۔ یہ وراثت حشمت دین کے لیے بے حد مفید ثابت ہوئی ۔ ان کی سادگی اور قناعت کا نتیجہ یہ ہوا کہ معمولی آمدنی کے باوجود وہ مسلسل ترقی کرنے لگے ۔ ان کا لڑائی بھڑائی سے بچنے کامزاج ان کے لیے مزید معاون ثابت ہوا ۔ ہر ایک ان سے خوش تھا ۔ ہر ایک سے ان کو تعاون مل رہا تھا ۔ ان کی ترقی کی رفتا ر اگرچہ سست تھی مگر وہ ایک دن رُکے بغیر جاری رہی۔
حشمت دین کا کاروبار اگرچہ معمولی تھا ، مگر ان کی شرافت ¾ ان کی بے غرضی اور ان کی ایمان داری نے ان کو اپنے ماحول میں اتنی عزت دے رکھی تھی جیسے کہ وہ کوئی بڑی حیثیت کے آدمی ہوں ۔ ان کے پاس سرمایہ بہت کم تھا ، مگر لین دین میں صفائی اور وعدہ کا پکا ہونے کا نتیجہ یہ ہوا کہ بازار میں بڑے بڑے تھوک بیوپاری ان سے کہتے کہ : ” میاں جی! جتنا چاہے مال لے لو ¾ پیسہ کی پرواہ نہ کرو ¾پیسے بعدمیں آجائیں گے۔“ بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ کسی جھگڑے کی نوبت آگئی ، مگر انہوں نے خود ہی اپنے آپ کو چپ کرالیا ۔ وہ شریر آدمی کے خلاف کوئی جوابی کار روائی نہ کرتے ، بلکہ خاموشی سے اپنے کاروبار میں لگ جاتے اور اس شخص کے حق میں دعا کردیتے ۔ جب بھی ان کے دل میں شیطان کوئی بدمعاملگی کا جذبہ ڈالتا تو ان کے والد کا معصوم چہرہ ان کے سامنے آکر کھڑا ہوجاتا ۔ ان کو ایسا محسوس ہوتا کہ اگر میں نے کوئی غلط معاملہ کیا یا کسی سے جھگڑا فساد کیا تو میرے باپ کی روح قبر میں تڑپ اٹھے گی ۔ یہ خیال فوراً ان کے جذبات کو دبا دیتا اور وہ دوبارہ اسی تعمیری راستہ پر چل پڑتے ، جس میں انہیں ان کے باپ نے چھوڑا تھا ۔
جب ان کا کاروبار بڑھا تو ان کو مزید معاون کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ اب انہوں نے اپنے بھائیوں کو بلانا شروع کردیا ، یہاں تک کہ چاروں بھائی شہر منتقل ہوگئے ۔ دھیرے دھیرے ان کے کاروبار کے چار مستقل شعبے ہوگئے ۔ ہر شعبہ ایک ایک بھائی کے سپرد تھا ۔ چاروں بھائی ایک ساتھ مل کر رہتے اور ایک ساتھ ہی کھاتے پیتے ۔مگر کاروباری اعتبار سے ہر بھائی اپنے اپنے شعبہ کو آزادانہ طور پر انجام دیتا تھا ۔
کچھ دنوں کے بعد حشمت دین کو محسوس ہوا کہ بڑے بھائی ہونے کی حیثیت سے چوں کہ وہی کاروبار کے مالک ہیں ، اس لیے بقیہ بھائی اپنے کام کو اس دلچسپی سے نہیں کرتے جیساکہ کوئی آدمی اس وقت کرتا ہے جب کہ وہ کام کو اپنا ذاتی کام سمجھتا ہو ۔ اب حشمت دین کے لیے دو صورتوں میں سے کسی ایک صورت کو منتخب کرنے کا سوال تھا ۔ یا تو کاروبار کو اپنے قبضہ میں لے کر بقیہ تینوں بھائیوں کو اس سے الگ کردیتے اور اس کے نتیجہ میں ہمیشہ کے لیے بھائیوں کی دشمنی مول لیتے اور یا معاملات کو جوں کا توں اسی طرح چلنے دیتے ۔ یہاں تک کہ بالآخر وہی ہوتا جو عام طور پر ایک مشترک کاروبار میں ہوا کرتا ہے ۔ یعنی باہمی شکوہ و شکایت اور اس کے بعد تلخ یادوں کے ساتھ کاروبار کی تقسیم ۔
حشمت دین نے چند دن سوچا اور اس کے بعد سب بھائیوں کو جمع کرکے ساری بات صاف صاف ان کے سامنے رکھ دی ۔ اس نے کہا کہ : ” اللہ تعالیٰ کے فضل سے ابھی کوئی بات بگڑی نہیں ہے۔ مناسب بات یہ ہے کہ ہم چاروں بھائی ایک ایک کاروبار کو لے لیں اور ہر ایک ذاتی طور پر اپنا کاروبار چلائے ۔ اس طرح ہمارے والد کی روح کو سکون پہنچے گا اور مجھے یقین ہے کہ اس میں ہر ایک کے لیے زیادہ برکت ہوگی ۔ تینوں بھائیوں نے کہا کہ: ” ہم تو سراپا آپ کے احسان مند ہیں ۔ اس لیے آپ جو بھی فیصلہ کردیں، وہ ہم کو منظور ہے ۔ “ مختصر گفتگو کے بعد یہ طے ہوا کہ قرعہ اندازی کا طریقہ اختیار کیا جائے ۔ چنانچہ اسی وقت قرعہ اندازی کے ذریعہ ہر بھائی کو ایک ایک کاروبار دے دیا گیا۔
اب چاروں بھائی اپنے اپنے کاروبار میں لگ گئے ۔ اور ہر ایک اپنے بچوں کو لے کر اپنے اپنے کام میں صبح سے شام تک محنت کرتا رہا ۔ یہاں تک کہ چاروں کے درمیان پہلے سے بھی زیادہ اچھے تعلقات قائم ہوگئے ۔ ہر ایک بھائی دوسرے بھائی کی مدد کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ۔ چاروں بھائیوں نے الگ الگ اپنے اپنے گھر بھی بنا لیے ۔ مگر حشمت دین اب بھی اسی طرح سب کے ”بڑے بھائی“ تھے جیسے وہ پہلے بڑے بھائی تھے ۔ ایک بھائی جو بات کہہ دیتا دوسرا بھائی کبھی اس بات کو نہیں ٹالتا ۔ ایک گھر میں کوئی ضرورت پیش آجاتی تو چاروں گھروں کی عورتیں اور بچے مل کر اس کو اس طرح پورا کرتے جیسے وہ ہر ایک کی اپنی ضروت ہو۔
آج کل اکثر والدین یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی اولاد کے لیے سب سے بڑی وراثت یہ ہے کہ وہ ان کے لیے مال اور جائیداد چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوں ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ سب سے زیادہ خوش نصیب اولاد وہ ہے جن کے والدین نے ان کے لیے با اصول زندگی کی وراثت چھوڑی ہو ۔ وہ اپنی اولاد کو یہ سبق دے کر دنیا سے رخصت ہوئے ہوں کہ : ” اپنی محنت پر بھروسہ کرو ¾ لوگوں سے اُلجھے بغیر اپنا کام کرو ¾ اپنے واجبی حق پر قناعت کرو ¾حال کے فائدوں سے کہیں زیادہ مستقبل کے امکانات پر نظر رکھو ¾ خوش خیالیوں میں گم ہوجانے کے بجائے حقیقت پسندی کا طریقہ اختیار کرو ….!۔ “
بلا شبہ مادی وراثت سے کہیں زیادہ بڑھ کر بڑی چیز اخلاقی وراثت ہے ۔ مگر بہت کم والدین ہیں جو اس تلخ حقیقت سے آشنا ہوں۔