سپریم کورٹ کا وسائل کے غلط استعمال پر وزیراعظم کو نوٹس
سپریم کورٹ نے کنونشن سینٹر میں آل پاکستان انصاف لائرز فورم کی تقریب میں شرکت کرنے پر وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وسائل کے غلط استعمال پر انہیں نوٹس جاری کردیا،
شیئر کریںسپریم کورٹ نے کنونشن سینٹر میں آل پاکستان انصاف لائرز فورم کی تقریب میں شرکت کرنے پر وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وسائل کے غلط استعمال پر انہیں نوٹس جاری کردیا، جسٹس قاضی فائزعیسی نے ریمارکس دئیے کہ وزیراعظم پورے ملک کا وزیراعظم ہے یا کسی ایک پارٹی کا؟وزیراعظم کسی جماعت یا گروپ کیساتھ خود کو نہیں جوڑ سکتے ، کیا وزیراعظم کامعیار اتناکم ہے وہ خود کو کسی ایک جماعت سے وابستہ کرے ؟معاملہ ازخود نوٹس کیلئے چیف جسٹس کو بھجوا رہے ہیں، کیا کوئی جج بھی کسی سیاسی جماعت کے پینل کا فنکشن جوائن کرسکتا ہے ؟ کیا کوئی جج بھی ایسی حرکت کرسکتا ہے ، اس پر قانونی معیار کیا ہے ؟ ۔عدالت نے اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب، انچارج کنونشن سینٹر اور متعلقہ وزارتوں کو نوٹسز جاری کر تے ہوئے طلب کرلیا۔پیر کو سپریم کورٹ نے جائیداد سے متعلق ایک کیس کی سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے پیش نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کیا۔ جسٹس قاضی فائزعیسی نے ریمارکس دئیے کہ ایڈووکیٹ جنرل کنونشن سینٹر میں ہونے والے سیاسی اجتماع میں بیٹھے رہے اور عدالت میں پیش نہ ہوئے ، ایڈووکیٹ جنرل پورے صوبے کا ہوتا ہے یا کسی سیاسی جماعت کا نمائندہ ہوتا ہے ؟عدالت نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان پورے ملک کے وزیراعظم ہوتے ہیں، وزیراعظم کسی جماعت یا گروپ کیساتھ خود کو نہیں جوڑ سکتے ۔عدالت نے مخصوص سیاسی جماعت کے ونگ کی تقریب میں شرکت پر وزیراعظم کو بھی نوٹس جاری کردیا جبکہ اٹارنی جنرل پاکستان کوبھی معاملے پر معاونت کیلئے نوٹس جاری کیا گیا ہے ۔عدالت نے وائس چیئرمین پاکستان بارکونسل، صدر سپریم کورٹ بار اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کوطلب کرلیا۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ معاملہ ازخود نوٹس کیلئے چیف جسٹس پاکستان کو بھجوا رہے ہیں۔عدالت نے کہا کہ بادی النظر میں وزیراعظم نے ذاتی حیثیت میں پروگرام میں شرکت کی۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ وزیراعظم نے پورے ملک سے ووٹ لیا، وہ کسی جماعت کے نہیں پاکستان کے وزیراعظم ہیں، سیاسی جماعت کی تقریب کیلئے سرکاری عمارت کنونشن سینٹرکا استعمال کیسے ہوا؟ اسلام آباد کی انتظامیہ بتائے کیا کنونشن سینٹر میں فیس ادا کی گئی؟ جسٹس قاضی نے کہا کہ کیا وزیراعظم کامعیار اتناکم ہے وہ خود کو کسی ایک جماعت سے وابستہ کرے ؟ کیا کوئی جج بھی کسی سیاسی جماعت کے پینل کا فنکشن جوائن کرسکتا ہے ؟ کیا کوئی جج بھی ایسی حرکت کرسکتا ہے ، اس پر قانونی معیار کیا ہے ؟ جسٹس قاضی فائز نے مزید ریمارکس دیے کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب پروفیشنل ذمہ داریاں ادا کرنے کے بجائے ایک سیاسی جماعت کی تقریب میں بیٹھا ہے ۔اس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل قاسم چوہان نے کہا کہ ایڈوکیٹ جنرل پنجاب وکلا کی تقریب کی وجہ سے گئے ۔عدالت نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ پنجاب جنرل قاسم چوہان سے استفسار کیا کہ بتائیں کیا وزیراعظم نے بطور وزیراعظم پروگرام میں شرکت کی؟ آپ بتائیں کیا وزیراعظم اور ایڈووکیٹ جنرل ایسا کرنے کے مجاز تھے ؟ آپ جواب دیں تو شاید آپ کی نوکری چلی جائے لیکن قانون نوکری سے بالا ہونا چاہیے ۔عدالت کے استفسار پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ میری تقرری سیاسی طور پر نہیں ہوئی، میں نے تقریب میں شرکت کی، نا ویڈیو دیکھی اس لیے رائے نہیں دے سکتا۔جسٹس قاضی فائز نے ریمارکس دئیے کہ کیا کوئی آئینی عہدیدار ریاست کے وسائل کا غلط استعمال کرسکتا ہے ؟ کیا اسلامک ری پبلک آف پاکستان میں ایسا ہوسکتا ہے ؟ معزز جج نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کیا کہ آپ اپنی رائے دینے سے گریزاں ہیں، قرآن میں ہے کہ گواہی دو چاہے تمہارے والدین کے خلاف ہی کیوں نا ہو۔اس پر قاسم چوہان نے کہاکہ میں صرف پنجاب حکومت کی نمائندگی کر رہا ہوں، وزیراعظم کے بارے میں رائے نہیں دے سکتا۔