میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
برطانیا میں مسلمان معاشی ناہمواری ،نسل پرستانہ اورمتعصبانہ رویوں کاشکار

برطانیا میں مسلمان معاشی ناہمواری ،نسل پرستانہ اورمتعصبانہ رویوں کاشکار

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۲ اکتوبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

مسلمان نوجوانوں کواسکول سے ملازمت تک ناموافق حالات کاسامنا کرناپڑتا ہے‘برطانیامیں ہرجگہ انھیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے
لندن کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے بعدبڑھتی ہوئی اسلام دشمنی کی وجہ سے مسلمان خوف زدہ نظرآتے ہیں‘عدم تحفظ بڑھتا جارہاہے
مذہبی لباس اورحجاب کے باعث مسلمان خواتین فوری شناخت ہوجاتی ہیں انھیں مردوں کے مقابلے میں زیادہ دشواری کاسامنا کرناپڑتاہے
شہلا حیات نقوی
برطانیا میں معاشی ناہمواری کو ختم کرنے کے لیے کام کرنے والے ادارے سوشل موبلٹی کمیشن کی جانب سے حال ہی میں جاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برطانوی معاشرے میں مسلمان نوجوانوں کو اسکول سے لے کر ملازمت تک ہر جگہ ناموافق حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کمیشن کی رپورٹ کے مطابق مسلمان نوجوان یہ محسوس کرتے ہیں کہ انھیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ،برطانوی حکومت کی جانب سے حال ہی میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق برطانوی مسلمانوں کو معاشرے کے دیگر تمام لوگوں کے مقابلے میں سب سے کم اقتصادی مواقعے حاصل ہیں۔رپورٹ کے مطابق برطانیا میں مسلمان نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اچھے روزگار کے مناسب مواقعے میسر نہیں ہیں اور’پاکستانی کمیونٹی برطانیا میں پسماندہ ترین کمیونٹیز میں شامل ہے۔جبکہ لندن کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی وارداتوں کے بعد بڑھتی ہوئی اسلام دشمنی کی وجہ سے ’لندن میں مسلمان خوفزدہ نظر آتے ہیں اور بیشتر مسلمانوں میں عدم تحفظ کااحساس بڑھتا جارہاہے اور مسلمان خود کو غیر محفوظ تصور کرنے لگے ہیں۔کمیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی نژاد برطانوی نوجوان تعلیم کے شعبے میں ماضی کی نسبت بہت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہیں ہیں۔ تاہم اس کے باوجود ان کو اچھی نوکری ڈھونڈنے میں دشواری پیش آتی ہے۔اس رپورٹ کے سلسلے میں مسلمان نوجوانوں سے کیے جانے والے سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ انھیں چھوٹی عمر سے ہی اسلام مخالف، نسل پرستانہ اور متعصبانہ رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کمیشن کی رپورٹ کے مطابق مسلمان نوجوان یہ محسوس کرتے ہیں کہ انھیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اساتذہ مسلمان طالب علموں سے بہتر کارکردگی کی امید نہیں رکھتے۔
مسلمان نوجوانوں سے کیے جانے والے حالیہ سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ انھیں چھوٹی عمر سے ہی اسلام مخالف، نسل پرستانہ اور متعصبانہ رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔برطانوی مسلمانوں کے مسائل کو اجاگر کرنے اور ان کا حل ڈھونڈنے کے لیے ملک میں متعدد مسلمان تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ ایک ایسے ہی مسلمان تھینک ٹینک ‘انیشیٹیو فار مسلم کمیونٹی ڈیویلپمنٹ کے ڈائریکٹر محسن عباس کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مسلمان نوجوانوں کو جن مسائل کا سامنا ہے اس کی متعدد وجوہات ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ مسلم کمیونیٹی اپنے مسائل کو صحیح طرح اجاگر کرنے میں ناکام رہی ہے۔ مسلمان کمیونٹی کی ترقی کے لیے کوئی طویل مدتی وژن نہیں رکھتے۔ اس کی بنیادی وجہ ہماری پہلی نسل کی ناخواندگی ہے‘۔محسن عباس کا کہنا تھا کہ ‘کمیونیٹی ڈیویلپمنٹ میں مساجد کلیدی کردار ادا کر سکتی ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جس چیز میں فوری مالی فائدہ نظر نہ آ رہا ہو مذہبی لیڈرشپ اس میں کم ہی دلچسپی لیتی ہے‘۔ان کے بقول ایسی صورت میں وہ حکومتی ادارے جو عوام کے ٹیکس پر چلتے ہیں ان کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ مسلم کمیونٹی کو درپیش مسائل کا حل نکالیں۔’لیکن اگر آپ دیکھیں تو تقریباً دو دہائیوں سے حکومت کی توجہ صرف مسلمانوں میں انتہا پسندی کے خاتمے پر ہے۔ مسلمانوں کے تحفظات اور ان کو درپیش مسائل کی جانب توجہ نہیں دی گئی‘۔
سوشل موبلٹی کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلمان نوجوانوں میں خواتین کو برطانیا میں سب سے زیادہ نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جس کی وجوہات میں مذہب کے ساتھ ان کے لباس کو بھی بتایا گیا ہے۔ حجاب کرنے والی خواتین کی فوراً بحیثیت مسلمان پہچان ہوجاتی ہے اور ان کو ملازمت ڈھونڈنے میں دشواری اور ملازمت مل جانے کی صورت میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مغربی لندن کی رہائشی عائشہ خان نے تقریباً تین برس قبل وکالت کی ڈگری حاصل کی تھی لیکن اس کے بعد وہ کسی بھی بڑی قانونی فرم میں ملازمت ڈھونڈنے میں ناکام رہیں۔مسلمان نوجوانوں میں خواتین کو برطانیا میں سب سے زیادہ نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘میری نوکری کی بیشتر درخواستوں کا کوئی جواب ہی نہیں دیا گیا اور کچھ جگہوں پر مجھے انٹرویو کے لیے تو بلایا گیا لیکن بات اس سے آگے نہیں بڑھ سکی‘۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘میں نے ایسے وقت میں اپنی ڈگری مکمل کی جب مسلمانوں کے بارے میں دنیا بھر میں منفی سوچ میں اضافہ ہو رہا ہے، برطانیا میں بھی مسلمانوں کی کچھ ذرائع ابلاغ میں جس طرح تصویر کشی کی جاتی ہے وہ سب کے سامنے ہے‘۔عائشہ کے بقول ‘کئی یورپی ممالک میں حجاب پر پابندی لگائی گئی ہے، مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرے نام اور لباس کے باعث مجھے نوکری ملنے میں مشکل ہو رہی ہے‘۔
برطانیا میں بسنے والی پاکستانی نژاد خواتین کی 57 فیصد آبادی معاشی طور پر غیر فعال ہے اور دوسری کمیونٹیز کی خواتین کے مقابلے میں یہ شرح پاکستانی نژاد خواتین میں تشویش ناک حد تک زیادہ ہے۔برطانیا میں بسنے والے پاکستانی نژاد باشندوں کے بارے میں یہ ‘تشویش ناک’ حقائق برطانوی حکومت کی جانب سے ملک میں بسنے والی مختلف قومیتوں کے لوگوں کے معاشرے میں انضمام سے متعلق کیے جانے والے ایک سال سے زیادہ عرصے پر محیط سروے کے بعد سامنے آئی ہے۔
2015 میں برطانوی وزیرِ اعظم نے سینیئر سول سرونٹ ‘ڈیم لوئیز کیسی ‘ کو اس حوالے سے تفصیلی رویو کرنے کا کہا تھا جو ایک سال سے زائد عرصے تک جاری رہا۔ان رویو کا مقصد یہ معلوم کر نا تھا کہ برطانیا میں رہنے والے مختلف رنگ اور نسل کے لوگ کیا معاشرے میں اپنا فعال کردار ادا کر رہے ہیں اور ملک کے مختلف علاقوں میں موجود پسماندہ کمیونیٹز میں پائے جانے والے نسلی تناؤ اور پسماندگی کی کیا وجوہات ہیں۔اس سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ برطانیا میں بسنے والی پاکستانی خواتین میں بے روزگاری دیگر قومیتوں کی خواتین کے مقابلے میں غیرمعمولی حد تک زیادہ ہے۔رپورٹ کے مطابق ملک میں 25 فیصد سفید فام خواتین معاشی طور پر غیر فعال ہیں جبکہ پاکستانی خواتین میں یہ شرح 57 فیصد سے زیادہ ہے۔’کیسی رویو’ کے نام سے جاری اس رپورٹ کے مطابق پاکستانی نژاد مردوں میں بھی بے روزگاری کی شرح سفید فام شہریوں کے مقابلے میں تین گناہ زیادہ ہے۔رپورٹ کے مطابق برطانیا میں کام کرنے والے ہر چار پاکستانی مردوں میں سے ایک ٹیکسی چلاتا ہے۔رپورٹ کے مطابق انگریزی زبان پر عبور نہ ہونے کی وجہ سے برطانیا میں رہنے والے کچھ پاکستانیوں کو برطانوی معاشرے میں انضمام میں مشکلات کا سامنا ہے۔پاکستانی خواتین کے معاشی طور پر غیر فعال ہونے کی ایک وجہ جو اس رپورٹ میں سامنے آئی ہے وہ انگریزی زبان سے نا بلد ہونا ہے۔ مردوں کے مقابلے میں ایسی خواتین کی تعداد دوگنا ہے جن کی انگریزی انتہائی ناقص ہے۔رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پاکستانی خواتین کو معاشی مسائل کے ساتھ گھریلو تشدد اور جبری شادی جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔
کیسی ریویو’ کے مطابق ملک کے پسماندہ علاقوں میں بسنے والے پاکستانیوں کی شرح غیر معمولی طور پر زیادہ ہے۔انگلینڈ کے دس فیصد انتہائی پسماندہ علاقوں میں 31 فیصد پاکستانی آباد ہیں۔
برطانیا میں بسنے والے 40 فیصد سے زیادہ پاکستانی خاندانوں کا شمار کم آمدن والے گھرانوں میں ہوتا ہے۔رپورٹ کے مطابق پاکستانی ایسے علاقوں میں رہنا پسند کرتے ہیں جہاں پاکستانیوں کی اکثریت آباد ہے۔ جس کے باعث دوسری رنگ ونسل کے لوگوں کے ساتھ ان کا میل ملاپ بہت کم ہوتا ہے اور اس صورتحال کو رپورٹ میں تشویش ناک قرار دیا گیا ہے۔ریویو کے مطابق 2001 سے 2011 کے درمیان ملک میں مسلمانوں کی تعداد میں 12 لاکھ نفوس کا اضافہ ہوا ہے جو مسلمانوں کی کل تعداد کا 72 فیصد بنتا ہے۔ اس عرصے میں برطانیا میں پاکستانیوں کی تعداد میں چار لاکھ کا اضافہ ہوا ہے جبکہ بھارتی شہریوں کی تعداد بھی اتنی ہی بڑھی ہے۔
رپورٹ میں حکومتِ برطانیا کو ملک کی پسماندہ کمیونٹیز کے افراد کو معاشرے کا فعال حصہ بنانے کے لیے متعدد تجاویز پیش کی گئی ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت پسماندہ علاقوں کی ترقی کے لیے زیادہ مالی وسائل مہیا کرے اور ان علاقوں میں بسنے والوں کی انگریزی زبان بولنے کی صلاحیت میں بہتری لائی جائے۔اس کے ساتھ دیگر ممالک سے آنے والوں کو برطانوی رسم ورواج اور اقدار سے آگاہی اور مناسب تعلیم بھی مہیا کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔مسلمانوں کو درپیش مسائل کے حل کے لیے اس رپورٹ میں سوشل موبلٹی کمیشن کی جانب سے بارہ سفارشات بھی پیش کی گئی ہیں جن میں اساتذہ کو متنوع معاشرے میں پڑھانے کی تربیت اور انسانی حقوق اور برابری کے حکومتی کمیشن سے مسلمانوں کو ملازمت کے یکساں مواقعوں کے بارے میں گاہے بگاہے صورتحال کا جائزہ لینے کی سفارشات بھی شامل ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں