ختم نبوت پر ایمان ہر مسلمان پر فرض ہے
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
عقیدہ ختم نبوت اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے جس پر دین اسلام کی عمارت کھڑی ہے اور جس کے لیے شمع رسالت کے پروانوں نے ہمیشہ بیشمار قربانیاں دیں۔ اس بنیادی عقیدہ سے انکار پورے دین اسلام سے انکار ہے۔7 ستمبر 1974ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے قادیانیوں کی دونوں شاخوں کو غیر مسلم قرار دے کر دائرہ اسلام سے خارج کر دیا۔اس لئے ہر سال 7 ستمبر کو یوم ختم نبوت ۖ منایا جاتا ہے۔ حال ہی میں یوم ختم نبوت کے موقع پر محترم مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے خطاب میں فرمایا کہ ہمارے اکابرین نے پارلیمنٹ میں یہ جنگ لڑی اور قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دیا۔ ختم نبوت کیلئے ہر قربانی دینے کو ہر وقت تیار ہیں۔ توہین رسالت کے قانون سمیت تمام اسلامی قوانین کو ختم کرانے کی کوششیں دراصل قادیانی سازشوں کے اثرات ہیں۔ کلیدی عہدوں پر فائز قادیانیوں کو برطرف کیا جائے۔ختم نبوت ہمارا عقیدہ بھی ہے اور ہماری عقیدت بھی ہے۔ ختم نبوت ہمارا ایمان بھی ہے ، ہماری جان بھی ہے ۔ ختم نبوت ہمارا عشق بھی ہے ہماری محبت بھی ہے۔ ختم نبوت ہماری زندگی بھی ہے اور مقصد زندگی بھی ہے۔ ختم نبوت ہماری عبادت بھی ہے ہماری حیات بھی ہے۔ ہماری روح بھی ہے ۔ ختم نبوت ہمارا مشن بھی ہے ، ہماری منزل بھی ہے۔
عقیدہ ختم نبوت کی شان و عظمت اور افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ کریم نے قرآن پاک میں ایک سو آیات مبارکہ حضرت محمدۖ کی ختم نبوت کے بارے میں نازل فرمائیں حالانکہ کسی بات کو سمجھانے کیلئے ایک ہی آیت کا ہونا بھی کافی ہے لیکن خداوند تعالیٰ نے قرآن مجید میں سو مرتبہ حضورۖ کی ختم نبوت کا اعلان فرمایا اور آپۖ کی دوسو دس احادیث دعویداروں کی پیش گوئی حضور ۖنے اپنی حیات طیبہ میں ہی فرما دی تھی۔ مثلاً ابوداؤد شریف میں حضرت ثوبان سے روایت ہے کہ رسول کریمۖ نے ارشاد فرمایا میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گئے ہر ایک یہی دعویٰ کرے گا کہ میں نبی ہوں حالانکہ” میںۖ آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا”۔امت محمدیہ کا جوسب سے پہلا اجماع ہوا وہ بھی مسئلہ ختم نبوت پر ہی ہوا تھا۔ منکر نبوت مسیلمہ کذاب نے سرکار دو عالم کے زمانے میں ہی نبوت کا دعویٰ کر دیا تھا۔ جس پر اجماع کر کے تمام صحابہ کرام اس بات پر متفق ہوئے کہ اس کے خلاف جہاد کیا جائے۔مسیلمہ کذاب کے خلاف اس جہاد میں خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق تحفظ ختم نبوت کے اس سب سے پہلے معرکے کی خود قیادت کر رہے تھے۔دین ِ اسلام کی خاطر لڑی جانے والی ستائیس جنگوں میں شہید صحابہ کرام کی تعداد اڑھائی سو کے لگ بھگ رہی جبکہ منکر ختم نبوت مسیلمہ کذاب کے خلاف لڑی جانے والی اس ایک جنگ میں بارہ سو صحابہ کرام شہید ہوگئے۔ جن میں سے سات سو تو قرآن کے قاری ،عالم اور مفتی تھے۔ آپۖ کے وصال کے بعد جھوٹے نبیوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
حضرت مولانا امداد اللہ مہاجر مکی پر اللہ کریم نے کشف فرمایا تھا کہ ہندوستان میں عنقریب ایک فتنہ پیدا ہونے والا ہے۔ چنانچہ آپ نے اپنے مرید حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی کو اس کی بیخ کنی کیلئے مکہ مکرمہ سے ہندوستان بھیجا۔ حضرت پیر صاحب آج سے 113سو برس قبل 25اگست 1900ء کوبادشاہی مسجد لاہور داخل ہوئے۔ برصغیر میں سید انور شاہ کشمیری ، علامہ محمد اقبال ، عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا حسن مرتضےٰ، مولانا ثناء اللہ اور مولانا محمد حسین بٹالوی جیسے جید علماء و قائدین نے اسی طرح ختم نبوت کا علم اٹھائے اس قافلے میں سرگرم رہے۔
پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد 1953ء سے ہی قادیانیوں کے خلاف تحریک تحفظ ختم نبوت جاری ہو چکی تھی۔ مولانا عبدالستار خان نیازی کو سزائے موت سنائے جانے سمیت دیگر علمائے کرام کو طویل قید و بند کی سزائیں سنا دی گئیں۔ پھر سابق وزیراعظم مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت کا واقعہ ہے کہ 22 مئی 1974ء کو نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلبہ چناب نگر کے راستے پشاور کے تفریحی سفر پر جا رہے تھے کہ ربوہ ریلوے سٹیشن پر قادیانیوں نے لٹریچر تقسیم کرنے کی کوشش کی۔جس پر طلبہ نے مشتعل ہو کر ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگائے۔ واپسی پر 29 مئی کو طلبہ کی گاڑی خلافِ ضابطہ ربوہ ریلوے سٹیشن پر روک لی گئی اور مرزا طاہرقادیانی کی قیادت میں سینکڑوں مسلح افرادنے لاٹھیوں’ سریوں اور برچھیوں کے ساتھ حملہ کر کے 30 نہتے طلبہ کو شدید زخمی دیا۔ اِس واقعہ کا پورے ملک میں زبردست ردِعمل ہوا۔ دینی جماعتوں کی اپیل پر پاکستان کے مختلف شہروں میں ہڑتالوں اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور یہ مطالبہ زور پکڑ گیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اَقلیت قرار دیا جائے۔ واقعہ کے رد عمل میں تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں پر مشتمل مجلس عمل تشکیل دے دی گئی۔ اس وقت مولانا شاہ احمد نورانی’ مفتی محمود ، پروفیسرغفور احمد ، نوابزادہ نصر اللہ خان اور مولانا عبدالمصطفیٰ اظہری جیسے علماء اور سیاسی اکابرین قومی اسمبلی میںموجود تھے۔30 جون 1974ء کو قومی اسمبلی میں قادیانیوں کو غیر مسلم اَقلیت قرار دینے کے لئے مولانا شاہ احمد نورانی کی جانب سے متفقہ طور پر ایک قرارداد پیش کی گئی جبکہ 44 ممبران قومی اسمبلی کے دستخطوں سے پارلیمنٹ میں قادیانیوں کو غیر مسلم اَقلیت قرار دینے کا بل بھی پیش کر دیا گیا۔ قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی کا درجہ دے کر بل پر بحث شروع ہوئی تو قادیانی رہنماء مرزا ناصر اور مرزا صدر الدین وغیرہ کو بلا کر یحییٰ بختیار کے ذریعے اْن پر جرح کی گئی۔ ایوان میں طویل بحث کے بعدآخر کار 7 ستمبر 1974ء کو قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کیلئے متفقہ طور پر وزیر قانون عبدالحفیظ پیر زادہ کے ذریعے آئینی ترمیم پیش کی گئی۔ 4 بجے اس کا فیصلہ کن اَجلاس ہوا اور 4 بجکر 35 منٹ پر ملک کے منتخب ادارے کی طرف سے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا۔
آئین کی دفعہ 102 شق 3 میں ترمیم کے مطابق قادیانی جماعت یا لاہوری جماعت کے احمدی اشخاص کے الفاط درج کر کے آئین کی دفعہ 260 شق (2) کے بعد حسب ذیل نئی شق میں وضاحت کی گئی کہ جو شخص حضرت محمد ۖ جو آخری نبی ہیں کے خاتم النبین ہونے پر قطعی اور غیر مشروط طور پر ایمان نہیں رکھتا یا جو حضرت محمد ۖکے بعد کسی بھی مفہوم میں یا کسی بھی قسم کا نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے یا کسی ایسے مدعی کو نبی یا دینی مصلح تسلیم کرتا ہے وہ آئین اور قانون کی نظر میں مسلمان نہیں ہے۔قومی اسمبلی اور سینٹ نے اس ترمیم کو منظورکیا۔ اس ترمیم کے بعد 50ہزار قادیانی مسلمان ہوئے تھے۔ 26 اپریل 1984ء کو صدرپاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے قادیانیوں کی خلاف اسلام دشمن سرگرمیوں کو روکنے کے لئے ”امتناع قادیانیت آرڈینس” جاری کیا۔