بابری مسجد: آخری امید بھی ٹوٹ گئی
شیئر کریں
سپریم کورٹ نے حال ہی میں بابری مسجد معاملہ میں جو کچھ کہا ہے، اس سے انصاف کی آخری امید بھی ختم ہوگئی ہے۔سپریم کورٹ نے اس معاملے میں توہین عدالت کے ایک مقدمہ کو ہمیشہ کے لیے بند کرنے کا حکم ہی جاری نہیں کیا بلکہ ایک ایسی بات بھی کہی جو اس کے شایان شان نہیں تھی۔ملک کی سب سے بڑی عدالت نے اوما بھارتی اور ونے کٹیار جیسے فائر برانڈ لیڈروں کے خلاف بابری مسجد انہدام معاملے میں چل رہی توہین عدالت کی کارروائی کو یہ کہتے ہوئے بند کردیا کہ ’’مرے ہوئے گھوڑے کو کوڑے مارنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔‘‘
عدالت نے یہ بھی کہا کہ دستوری بنچ نے 9/نومبر2019کے فیصلے میں رام مندر کی تعمیر کا راستہ صاف کرکے صورتحال واضح کردی۔بنچ نے کہا کہ توہین عدالت کی درخواست دائر کرنے والے اسلم بھورے کی موت 2010میں ہوگئی تھی اور عدالت میں معاملے کی پیروی کے لیے امیکس کیوری مقرر کرنے کی درخواستبھی مسترد کردی گئی تھی۔اس لیے اب بابری مسجد انہدام معاملے میں توہین عدالت کا مقدمہ ہمیشہ کے لیے بند کیا جاتا ہے۔اس طرح بابری مسجد انہدام معاملے میں عدالت کا رخ پوری طرح واضح ہوگیا ہے اور یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ نہ توبابری مسجدکے تقدس کو پامال کیا گیا تھا اور نہ ہی اس کی ظالمانہ شہادت میں کسی کا ہاتھ تھا۔ ایودھیا میں چھ دسمبر کو جو کچھ بھی ہوا تھا، وہ سب اچانک ہوگیا تھا اور اس کا کوئی مجرم ہی نہیں تھا۔
یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ اب سے تیس برس پہلے یعنی 6/دسمبر1992کوجن لوگوں نے بابری مسجد کے انہدام میں حصہ لیا تھا، انھیں سی بی آئی عدالت پہلے ہی بری کرچکی ہے۔ جس وقت نام نہاد کارسیوکوں نے مسجد کو شہید کیا تو وہاں نظم ونسق کی پوری مشنری موجود تھی اور وزیراعلیٰ کلیان سنگھ نے ملک کی سب سے بڑی عدالت میں حلف نامہ داخل کرکے مسجد کے تحفظ کی ذمہ داری بھی لی تھی۔ مگر تمام قانونی تحفظات کے باوجود مسجد کے گنبدوں پر چڑھنے والے انتہاپسندوں کو روکا نہیں گیا اور انھوں نے پانچ سوسالہ قدیم تاریخی عبادت گاہ کو زمیں بوس کردیا۔المیہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے بابری مسجد کی شہادت کا پس منظر تیار کیا تھا اور جو نام نہاد کارسیوکوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے موقعہ واردات پر موجود تھے، ان کے خلاف ملک کی سب سے بڑی تحقیقاتی ایجنسی نے مجرمانہ سازش کا مقدمہ قائم کیا اور ان کی گرفتاری بھی عمل میں آئی، مگر افسوس 28سال کی طویل اور تھکادینے والی عدالتی کارروائی کے بعد ان تمام کلیدی ملزموں کو ’’باعزت‘‘ بری کردیا گیا۔ سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے جج نے ان تمام ثبوتوں کو ناکافی قرار دے دیا جو 28سال سے چیخ چیخ کر ان ملزمان کے سیاہ کار ہونے کا اعلان کررہے تھے۔سی بی آئی نے اس معاملے میں اپنے سیاسی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے ہر وہ کام کیا جو ان ملزمان کو بچانے کی راہ ہموار کرتا ہو۔ سی بی آئی کی بدنیتی کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ دوسال گزرنے کے باوجود اس نے ابھی تک رائے بریلی کی عدالت کے فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج نہیں کیاہے اور وہ لوگ بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں جنھوں نے اس معاملے میں اعلیٰ عدالتوں کا دروزہ کھٹکھٹانے کے بلند بانگ دعوے کئے تھے۔
بابری مسجد کا معاملہ دراصل اس ملک میں ظلم اور نا انصافی کی ایک ایسی دلخراش داستان ہے جس کی نظیر آپ کو آزاد ہندوستان میں نہیں ملے گی۔1949میں جس وقت بابری مسجد کے اندر زور زبردستی مورتیاں رکھی گئیں تو اس وقت ملک کی تقسیم کا زخم تازہ تھا اور مسلمان بلا وجہ کے احساس جرم کا شکار تھے۔ ان کے حوصلے ٹوٹے ہوئے تھے اور وہ اپنے منتشر وجود کو سمیٹنے کی کوششیں کررہے تھے۔ حالانکہ ملک کے سیکولر جمہوری دستورکی قسمیں کھانے والے قومی لیڈروں نے انھیں یقین دلایا تھا کہ اس ملک میں ان کے جمہوری اور دستوری حقوق کا بھرپور تحفظ کیا جائے گا لہٰذا وہ ہر قسم کے احساس کمتری کو دل سے نکال دیں۔ لیکن جب آزادی کے محض دوسال بعد سیکولر جمہوری ہندوستان کو ایودھیا میں سیکولرازم کی پہلی آزمائش سے گزرنا پڑا تو یہ قائدین اپنے قول پر کھرے نہیں اترے۔ انھوں نے دستور اور قانون کی پاسداری کی بجائے عددی قوت کے آگے سرجھکایا۔اگر ان کی نیت صاف ہوتی تو اسی وقت مسجد کا تقدس بحال کردیا گیا ہوتا اور اس مسئلہ کو ناسور بننے کے لئے نہیں چھوڑا گیا ہوتا۔جن لوگوں نے اس انتہائی خطرناک تنازعہ کو پنپنے کا موقع دیا تھا وہ بعد میں بھی اسے کھادفراہم کرکے اپنی منافقت کا ثبوت دیتے رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ دوکشتیوں کی سواری نے انھیں منجدھارمیں ڈبودیا اور آج وہ اپنے سیاسی وجود کو بچانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
بابری مسجد کی اراضی رام مندر کی تعمیر کے لئے ہندوفریق کو سونپے جانے کے بعدسی بی آئی عدالت کے خصوصی جج نے انصاف کے تابوت میں آخری کیل ٹھوکنے کا کارنامہ انجام دیا۔انھوں نے بابری مسجد انہدام سازش کیس کے تمام 32 ملزمان کو یہ کہتے ہوئے بری کردیا کہ ان کے خلاف کوئی حتمی ثبوت موجود نہیں ہے۔ حالانکہ یہ لوگ بابری مسجد کی شہادت کے جرم میں گردن تک ڈوبے ہوئے تھے اور ان کے خلاف ثبوتوں کا اتنا انبار تھا کہ شاید ہی کسی معاملے میں اتنے ثبوت کبھی اکٹھا ہوسکیں۔سی بی آئی جج ایس کے یادو نے جانچ ایجنسی کی طرف سے کسی بھی ثبوت کو ماننے سے انکا ر کیا۔ انھوں نے اپنے فیصلے میں یہاں تک کہا کہ وشو ہندو پریشد کے لیڈر اشوک سنگھل، عمارت کو بچانا چاہتے تھے کیونکہ اس کے اندر رام کی مورتی موجود تھی۔ جن32ملزمان کو بابری مسجد شہادت کیس میں کلین چٹ دی گئی ان میں لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، کلیان سنگھ، اوما بھارتی، ونے کٹیار، سادھوی رتھمبرا اور رام مندر ٹرسٹ کے موجودہ سیکریٹری چمپت رائے شامل تھے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان تمام32ملزمان نے خود کو عدالت میں قطعی بے قصور بتایا اور کسی نے بھی اقبال جرم نہیں کیا۔ سبھی نے اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کو ایک سیاسی سازش کا حصہ بتایا اور اس کے لئے اس وقت کی کانگریس سرکار کو مورد الزام ٹھہرایا۔ملزمان کے دلائل کوبسروچشم قبول کرتے ہوئے خصوصی عدالت کے جج نے کہا کہ سی بی آئی 32 ملزمان کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے۔ عدالت میں جو ویڈیو ریکارڈنگ پیش کی گئی، اس سے چھیڑ چھاڑ ہوئی ہے۔ جج نے نشاندہی کی کہ سرکاری وکیل ملزمان کے خلاف کافی ثبوت پیش نہیں کرسکے۔ سی بی آئی نے جو آڈیو، ویڈیو ثبوت دیا، اس کا مستند ہونا ثابت نہیں ہوا۔ ملزمان نے موقع پر جو تقاریر کی تھیں ان کا جو آڈیو عدالت کے سامنے لایا گیا، اس میں آواز واضح نہیں۔ تاہم عدالت نے انصاف کی لاج رکھتے ہوئے مسجد کے گنبدوں پر چڑھنے والوں کو سماج دشمن عناصر سے ضرور تشبیہ دی۔ لیکن اب سپریم کورٹ نے ان سماج دشمن عناصر کے خلاف توہین عدالت کا کیس بھی بند کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان کو تہہ وبالا کردینے والے اس مقدمہ میں کوئی مجرم ہی نہیں تھا اور سب کچھ اپنے آپ ہی ہوگیا تھا۔بابری مسجد کے معاملے میں جمہوریت کے چاروں ستونوں نے جو منفی کردار ادا کیا ہے، وہ عدل وانصاف کی تاریخ میں ایک سیاہ باب کی حیثیت رکھتا ہے۔