بھارت میں تقسیم کی لکیریں(ماجرا۔۔محمد طاہر)
شیئر کریں
معروف امریکی جریدے’’ ٹائم‘‘ نے 2014ء میں اُسے دنیا کی ایک سو موثر شخصیات کی فہرست میں شامل کیا اور اُسے ’’بھارت کے ضمیر‘‘ کا نام دیا۔ دو سال قبل اُس کا دوسرا ناول ’’The Ministry of Utmost Happiness‘‘(بے پناہ شادمانی کی مملکت) سامنے آیا۔بیس برس قبل اُس کا پہلا ناول ’’The God of Small Things‘‘() شائع ہوا تھا، جسے 1997ء میں ’’مین بکر پرائز‘‘ سے نوازا گیا۔ اس دوران میں اُس کی متعدد سیاسی اور غیر افسانونی کتابیں بھی منظر عام پر آئیں ، جس نے ثابت کیا کہ ’’ارون دھتی رائے‘‘واقعی ایک ضمیر کا نام ہے۔ اُسے بھارت کا ضمیر کہنا شاید موزوں نہ ہو، درحقیقت وہ انسانیت کا ضمیر کہلانے کی مستحق ہیں۔
اپنے دوسرے ناول کے جرمن ترجمہ کے بعد جب اُس کی تعارفی تقریب برلن میں ہوئی تو ارون دھتی رائے سے پوچھا گیا کہ اُس کے پہلے اور دوسرے ناول کے درمیان بیس برس کا وقفہ کیوں ہوا؟ مصنفہ کا جواب حیرت انگیز تھا:جب میں نے اپنا پہلا ناول لکھا جو انتہائی کامیاب رہا تھا، تو اس کے کچھ ہی دیر بعد بھارت میں ہندوؤں کی برتری کی حامی دائیں بازو کی ایک ایسی بنیاد پرست جماعت اقتدار میں آ گئی، جس نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اس نے کئی ایٹمی دھماکے کیے ، جن پر بھارت میں بہت خوشیاں منائی گئیں۔تب میری تصویریں ہر میگزین کے ٹائٹل پر شائع ہوتی تھیں اور مجھے نئی بھارتی سپر پاور کے چہرے کے طور پر مارکیٹ میں لانے کی کوشش کی گئی۔ مجھے یہ بات بہت بُری لگی، میں نے اس کی مخالفت بھی کی، جسے اس دور کے حکمرانوں نے پسند نہیں کیا تھا‘‘۔کیا واقعی کوئی اس لیے خود کو عاجزانہ طور پر ایک تخلیقی عمل سے الگ کرسکتا ہے جہاں اُس کی بات کو اُس کے درست سیاق وسباق سے ہی علیحدہ کردیا جائے۔ بھارت کے ہندو انتہا پسند تاریخی طور پر صدیوںسے یہی کام کرتے آتے ہیں۔ ارون دھتی رائے نے اُسی تقریب میں ایک اور غیر معمولی مگر معروضی فقرہ کہا:آج کا بھار ت خود کو اپنی ہی نوآبادی بناتا جارہا ہے‘‘۔
استعمار سے بہیمانہ وابستہ نو آبادی کاننگ ِ انسانیت تصور بھی کچھ حقوق کی فراہمی کے مغالطے سے منسلک ہیں۔ مگر بھارت میں ہندوتوا کا غلبہ اس سے زیادہ بھیانک طور پر اپنی’’ نوآبادی‘‘تخلیق کرتا ہے۔ ’’یہ نوآبادی‘‘ عالمی استعماریت کی نوآبادیوں سے زیادہ پست اور قابل حقار ت طور پر سانس لیتی یا جینے کی اداکاری کرتی ہے۔ اس کا تاریخی مشاہدہ ہندو سماج میں ذات پات کے وحشت ناک نظام میں شودروں کے رہن سہن (اگر اسے رہن سہن بھی کہا جاسکتا ہو)سے لگایا جاسکتا ہے۔
بھارتی ذرائع ابلاغ سرمایہ کے مندر پر سچ کے قتل کو پوجا بنا چکے۔ چنانچہ ہندوتوا کے زیراثر آرایس ایس کے غنڈوں کے ہجومی تشدد (موب لنچنگ)پر مبنی واقعات پوری طرح سامنے نہیں آتے۔ اگر متوازی ذرائع ابلاغ کے ذریعے یہ واقعات پوری طرح عیاں ہو جائیں اور مرکزی ذرائع ابلاغ کے لیے گریز ممکن نہ ہوتو وہ آرایس ایس غنڈوں کی شناخت چھپاتے اور نشانہ بننے والے مظلوموں کی ’’ذات‘‘ کو موضوع نہیں بناتے ہیں۔
گئورکشکوں کے نام پر آرایس ایس نے مختلف ریاستوں میں چھوٹے چھوٹے جتھے بنالیے ہیں۔جو مختلف لوگوں کو باقاعدہ نشانا بنا بنا کر قتل کررہے ہیں، پھراُسے بھیڑ یا ہجوم کا تشدد باور کرادیا جاتا ہے۔ ان جتھوں کو پولیس کی سرپرستی حاصل ہے، جو خود برہمن رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ حد تویہ ہے کہ ان مظلوموں کی عدالتوں میںبھی کوئی شنوائی نہیں۔ صرف ایک مثال لیجیے!سال 2013ء کے مظفرنگر فسادات میں 65 افراد قتل کیے گئے تھے، جس میں سے مسلمان بوڑھوں کو جبراً بھاگنے کے لیے کہا گیا اور اُنہیں یوں بھگا بھگا کر قتل کردیا گیا،ان واقعات کے کل 41 مقدمات درج ہوئے تھے۔ جن میں 40 ملزمان تھے، گزشتہ دنوں انڈین ایکسپریس نے خبر دی کہ یہ تمام کے تمام ملزمان بری کردیے گئے۔
بھارت میں کسی بھی واقعے کو ایک ’’کیس اسٹڈی‘‘ بنالیںتو چند حقائق خود بخود سامنے آئیں گے۔عدالتوں میں منصفین کو ہندو فلسفے اور برہمن برتری کے جنون میں مبتلا کردیا گیا ہے۔پولیس کو ان ہی خطوط پر ڈھالا جارہا ہے۔ چنانچہ ہر واقعے میں مقتولین کے رشتہ داروں کو ایک دباؤ میں لے کر مجبور کردیا جاتا ہے کہ وہ اپنے باقی رہ جانے والے لوگوں کی حفاظت کے لیے اپنے بیانات اور گواہی سے منحرف ہو جائیں ، پولیس کو پابند رکھا جاتا ہے کہ وہ کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہ ہونے دیں۔ اور عدالتوں کے پاس حتمی احکامات ہیں کہ اُنہیں کس مقدمے میں کیا کیا کرنا ہے۔
اگر اس سب کے باوجود کوئی انصاف کے لیے مُصر ہو تو زیادہ بڑا المیہ اس کا انتظار کررہا ہوتا ہے۔ایک دلت لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا مقدمہ چل رہا تھا، لڑکی پر مقدمہ واپسی کا شدیددباؤ تھا۔ مگر باہمت لڑکی نے یہ مقدمہ واپس نہیں لیا تو برہمن لڑکوں نے اُسی دلت لڑکی کو انتقاماً دوبارہ اجتماعی زیادتی کا نشانا بنایا۔ چند ہفتے قبل بھارتی اخبارات نے ایک خبر چھپ چھپا کر چھاپی کہ ایک دلت کی ارتھی کو برہمن محلے سے گزرنے نہیں دیا گیا۔مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ اس حوالے سے خبریں شائع یا نشر کرنے سے پہلو تہی کرتے ہیں۔
بھارت کی اکثر ریاستوں سے ہجومی تشدد کی دل دہلا دینے والی خبریں سامنے آرہی ہیں۔ اترپردیش میں 28 سالہ سجیت کمار ہجومی تشدد سے بچا، جسے چور قرار دے کر قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔اسی طرح بہارکے ضلع سرن کے بنیاپور گاؤں میں تین افراد کو چوری کے الزام پر پکڑ کر ہلاک کردیا گیا۔ پٹھوری نندلال تولا میں تین نوجوانوں نوشاد، راجیو اور سریش کو مویشی چرانے کے الزام پر مار مار کر مارد یا گیا۔ضلع ارریا میںمہیش یادو، جھارکھنڈ میں تبریز اور دہلی میںقاری محمد اویس اسی طرح ہجوم کے ذریعے قتل کردیے گئے۔
آر ایس ایس کے غنڈوں نے اسے ایک ’’مذہبی‘‘ تعبیر دے رکھی ہے۔ اور وہ منظم طور پر ہجومی تشدد کے طریقے سے دلتوںا ور مسلمانوں کو بہیمانہ طور پر نشانا بنا رہے ہیں۔ ایک سال قبل راجستھان کے الور واقع رام گڑھ میں پچاس سالہ اکبر خان کو ہجومی تشدد سے قتل کیا گیا توآل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے ایک ٹوئٹ کیا تھا: گائے کو آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت جینے کا حق ہے اور ایک مسلم کو مارا جا سکتا ہے ، کیونکہ ان کے پاس ‘جینے ’ کا بنیادی حق نہیں ۔
مودی حکومت کے چار سال لنچ راج‘‘۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ان تمام حالات کے باوجود تازہ انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گیا۔ گویا بھارت کو اپنی ہی نوآبادی میں بدلنے کے برہمن منصوبے کو ایک عمومی ہندوؤانہ تائید میسر ہے۔ بھارت کی تقریباً تمام ریاستوں میں ایک برہمن طوفان اُٹھا ہوا ہے۔
برہمن مقبوضہ کشمیر میں ’’جبر‘‘ کے ہتھیار سے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل میں سرعت سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ بھارت مجموعی طور پر ایک ہندو ریاست میں تبدیل ہو چکا ہے۔ جو لوگ اس مغالطے میںمبتلا ہیں کہ یہ ایک عارغی رجحان(phenomenon) ہے تو وہ فاش غلطی کررہے ہیں۔ درحقیقت قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے ان حالات کو بھانپ کر ہی ہندوستان میں دو قومی نظریے کی بات کی تھی۔
چند دن قبل بھارت میں ایک کتاب کی تقریب ِ رونمائی میں یہ نظریہ بانداز دگر دُہرایا گیا۔ قائد اعظمؒ کے یوم وفات(۱۱؍ستمبر)پر ہم اپنے حیات بخش نظریے یعنی دو قومی نظریے کی تجدید کے زیادہ قابل ہیں، جب بھارتی مسلمان دو قومی نظریے سے دوری کو اپنی تاریخی غلطی تسلیم کر رہے ہیں۔ایک بار پھر بھارت میں تقسیم کی لکیریں گہری ہورہی ہیں،اس میں اگر کوئی رکاؤٹ ہے تو وہ ہم پاکستانی ہیں۔ یہ موضوع اگلی نشست کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔