قونصل خانہ نذرآتش،عراق میں 15 سال بعد ایرانی مفادات خطرات سے دوچار
شیئر کریں
حال ہی میں عراق کے جنوبی شہر البصرہ میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ایرانی قونصل خانے کو نذرآتش کیے جانے کے واقعے نے عراق میں پندرہ سال کے بعد ایرانی مفادات کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔عرب ٹی وی کے مطابق بصرہ شہرمیں ایرانی قونصل خانے پر یلغار اور اسے نذرآتش کرنے کے واقعے پر ردعمل کی لہر نہ صرف عراق بلکہ پورے خطے میں محسوس کی جا رہی ہے۔ایرانی حمایت یافتہ جماعتوں اور تہران کی طرف سے قونصل خانے پرحملے کی ذمہ داری وزیراعظم حیدر العبادی پرعاید کی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران اوراس کے حمایت یافتہ گرپوں نے بصرہ میں ایرانی قونصل خانہ نذرآتش کرنے پر حیدر العبادی سے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔
العبادی سے استعفے کا سب سے پْر زور مْطالبہ الحشد الشعبی ملیشیا کے ماتحت الفتح الائنس کی طرف سے کیا گیا ہے۔بغداد یونیورسٹی کے سیاسیات کے استاد معتز الھاشمی کا کہنا تھا کہ ایران اوراس کے حامیوں کی طرف سے العبادی کی برطرفی کا مطالبہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ایران اب بھی عراق میں اپنی مرضی کی حکومت کے قیام کے لیے ید طولیٰ رکھتا ہے۔الھاشمی کا کہنا تھا کہ الحشد الشعبی کے وائس چیئرمین کی جانب سے بصرہ کے واقعات پر سڑکوں پر آنے کی دھمکی دراصل ایران کی بالواسطہ دھمکی دہے۔ یہ دھمکی ایک ایسے وقت میں دی گئی ہے جب محرم اور صفر کے حساس مہینے سایہ فگن ہونے والے ہیں۔ ان مہینوں میں ویسے بھی ہزاروں شیعہ زائرین جلوس نکالتے اور مقدس مقامات کی زیارت کو آتے ہیں۔ ایران سے بھی لاکھوں افراد کے عراق آنے کے امکانات ہیں۔ ان میں سپاہ پاسداران انقلاب کے ارکان بھی محض مذہبی رسومات کی ادائی کی آڑ میں ایران میں داخل ہوسکتے ہیں۔